نعرہ تو یہ ہے کہ چلو چلو اسلام آباد چلو اس پر مریم نواز
نے کمال خوبصورتی سے یہ کہہ تو دیا کہ چلو چلو عمران خان کے ساتھ گھر واپس
چلو مگر وہ اندر سے ڈری سہمی ہوئی بھی ہے، مریم نواز جانتی ہے کہ عمران خان
کے اندرون اور بیرون ملک کئی گھر ہیں، تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے بھی کئی گھر
ہیں، اور ن لیگ کی حکومت ایک ہفتے سے جاری لانگ مارچوں دھرنوں سے بری طرح
تنگ بھی آچکی ہیں، کیونکہ جمہوریت کرنے والوں کو اپنی جمہوریت خطرے میں
جاتی دیکھائی دے رہی ہیں، بات سچ ہے دودھ سے دھلے کوئی نہیں ہے، آج عمران
خان ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کو لے ان کے حقوق کے لیے باہر نکلے ہیں، یہ خوش
آئند بات ہے، خان صاحب اور ڈاکٹر قادری نے عوام کو بیدار کیا ہوا ہے-
آج ان کے دھرنوں کو ایک ہفتے سے زاہد دن ہوچکے ہیں، اور دھرنوں میں عوام کے
جوش و جذبوں میں شب و روز اضافہ ہورہا ہے، کچھ بھی ہے آج عوام اپنے بنیادی
حقوق کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر اپنے عیش و آرام کو چھوڑ کر پارلیمنٹ کے
سامنے بیٹھی ہیں، اور مسلسل گو نواز گو نواز کے نعرے لگائے جائے رہے ہیں،
مگر حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، گو نواز گو نواز کے نعروں سے یہ بات
واضح ہوچکی ہے، کہ عوام ایسی جمہوریت نہیں چاہتی اور اس فرسودہ جمہوری نظام
کو نہیں مانتی اور ہم بھی ایسی جمہوریت نہیں چاہتے-
کہا یہ جارہا تھا کہ موجودہ لانگ مارچ 2 4 روز سے زیادہ جاری نہیں رہے سکتے
اور ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ عمران کی پارٹی کے لوگ 4 5 دن
سے زیادہ دھرنے میں نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ پی ٹی آئی میں شامل لوگ برگر
طبقے کے ہیں، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مرید لمبے عرصے تک دھرنا دے سکتے
ہیں، مگر معاملات اس کے برعکس نکلے لیکن اب ڈاکٹر طاہرالقادری سے زیادہ
عمران خان حکومت کے خلاف ڈٹ چکے ہیں، اور طاہرالقادری بھی اپنے محاذ پر ڈٹے
ہوئے ہیں، عوام اپنے ان لیڈروں کے ساتھ ثابت قدم ہیں، ہم بھی کہتے ہیں
عمران خان اور طاہرالقادری صاحب ڈٹے رہوں حکومت کے خلاف حکومت بوکھلاہٹ اور
ڈپریشن کا شکار ہے، ایسے میں امریکہ اور برطانیہ نواز حکومت اور جمہوریت کی
حمایت کررہے ہیں، تو یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، عوام اپنا فیصلہ
کرنے کی خود مجاز ہیں، امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں ٹانگ لڑانے
سے گریز کریں-
عمران خان کو سول نافرمانی کے اعلان سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا لوگ مایوس
ہونے ہی لگے تھے کہ شکر ہے، اب معاملات کچھ بہتر ہوگے، آج پولیس والوں کے
لیے بھی عمران کے لیے درد جاگ پڑا ہے، ورنہ پہلے عمران خان پولیس والوں کو
شریف برادران کی فوج کہہ کر غصے کا اظہار کرتا رہا ہے، عمران خان کی
چوہدھری نثار کی اچھی دوستی بھی ہے، خود چودھری نثار نے دھرنے کے موقع پر
کہا تھا کہ میں دوستی بھی نبھائوں گا اور فرض بھی نبھائوں گا، عمران خان کو
چودھری نثار سے ڈیل کرنے کا طریقہ بیان کرنا نہیں آیا۔ پھر عمران خان نے
ساتھ دن کا وقت دیا کہ حکومت مستعفی ہوجائے پھر تین دن تک بات مکائی اب
دھرنے کو بارہ روز سے زاہد ہوچکے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف کسی بھی صورت
میں استعفی نہیں دیں گے، ادھر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری بھی حکومت
کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، عوام کو بے بے و قوف بنانے کی بھی ایک حد ہوتی ہے-
ادھر حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو دوسری جانب دونوں دھرنوں کے شرکاء
بھی حکومت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، عمران نے کہا کہ میں یہیں اپنے لوگوں کے
ساتھ رہوں گا مگر وہ بنی گالہ واپس چلا گیا، کیونکہ وہ محل نما عیش و عشرت
کدہ ماحول میں رہنے کے عادی ہے تو کنٹینر میں سونا دشوار تو ہوگا، اور وہ
بنی گالہ چلے گئے، نجانے انکے محل بنی گالہ میں عیش و عیاشی کے کیا کیا
انتظامات ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری عمران کے مقابلے میں سادہ مذ ہبی دین دار
ہیں، عمران ڈسپریٹ ہوگیا ہے، وہ مایوسی سے زیادہ مایوس لگتا ہے، اسے وزیر
اعظم بننے کی ہوس بہت ہے، جبکہ طاہرالقادری کو وزیراعظم بننے کی ہوس نہیں
ہے، وہ نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور عمران خان چار حلقوں کی بات
کرتے ہیں، نظام تبدیل ہونا چاہیے،ضرورت نظام تبدیل کرنے کی ہے، نظام تبدیل
ہوگا تو سب کچھ تبدیل ہوجائے گا، مگر عمران خان کی تبدیلی سمجھ سے بالاتر
بھی ہے-
ملک پر قابض حکمران آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، کوئی ان سے
پوچھے کہ یہ خود کتنی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہیں، اور یہ کیسی
جمہوریت کرتے ہیں، جس سے عوام نا خوش ہوں، آج عوام ایسی مورثی فرسودہ
جمہوریت کے خلاف ایک ہفتے سے زاہد سڑکوں پر بیٹھی ہیں، حکومت ڈٹی ہوئی ہے،
تو عوام بھی ڈٹی ہوئی ہیں، دھرنے میں دس لاکھ عوام نہیں تو ایک لاکھ سے
زاہد عوام تو ہیں، 50 ہزار عوام بھی بہت ہوتی ہے، آج عوام اپنے مطالبات اور
حقوق کے لیے باہر سڑکوں پر تیز کڑک دھوپ میں بارہ روز سے دن رات مسلسل
بیٹھی ہیں، اپنے گھروں کے عیش و آرام کو خیر باد کہہ کر کوئی اپنے گھر سے
چار روز سے زیادہ اپنے عزیز رشتے داروں کے یہاں قیام نہیں کرسکتا اسے اپنے
گھر کی راحیتں آرام یاد آنے لگ جاتے ہیں-
بارہ روز سے جاری عوامی دھرنے کی عوام کا وزیراعظم سے ایک ہی مطالبہ ہے، کہ
وزیر اعظم استعفی دو مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوپارہی، اب نعرہ تو یہ ہونا
چاہیے کہ چلو چلو نواز گھر چلو-
دونوں طرف سے ابھی تک کوئی لچک کا مظاہرہ نہیں ہوپارہا، اگر حکومت اپنی ضد
پر قائم ہے، تو عوام بھی اپنی ضد پر قائم ہیں، اللہ خیر کریں صورتحال خطرے
کی جانب جاتی دیکھائی دے رہی ہیں، اللہ کریں عوام کے حق میں ہی بہتر فیصلہ
ہوں، جو قومیں قربانی نہیں دیتی ان کی تقدیر بھی کبھی نہیں بدلتی، امام
عالی مقام نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ و تعالی کا فرمان ہے کہ ظلم
کے خلاف جتنی دیر سے اٹھوں گے، اتنی ہی فربانیاں دینی پڑیں گی، مادر وطن کو
حاصل کرنے کے لیے بھی لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کیے اور اب اس کی بقاء و
سلامتی کے لیے بھی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں، اور اب پھر اس فرسودہ
بوسیدہ جمہوری نظام کے خاتمے کے لیے بھی کسی بھی قسم کی فربانی دینے سے
گریز نہیں کریں گے، |