آج خطۂ پاک میں سیاسی حالات کا
جو بے پناہ بحران موجود ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن سے
لیکر کفن تک پہن لینے تک بات آچکی ہے ۔بر وقت اور صحیح انصاف نہ ملنے کی
وجہ سے اور غلط گر غلط فیصلے کرتے جانے کی وجہ سے موجودہ بحران ختم ہونے کا
نام ہی نہیں لے رہا۔ہمارے حکمران اور ان کے رفقاء ہمہ تن گوش ہو کر جمہوریت
کی آڑ میں خود کو چھپاتے چلے آرہے ہیں اور اپنے اقتدار کا تحفظ کرنے پر
تُلے ہوئے ہیں ۔اور اس پہ طرُہ یہ کہ ماضی کے حریف اور موجودہ اپوزیشن کی
سب سے بڑی جماعت کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھ رہے ہیں ۔جبکہ سیاست ایسا وجود
ہے جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ،اسی لیے ہر سیاسی فرد اور ادارہ ہر وقت
اپنی اپنی مار پر بیٹھا کسی دلکش اور مفید ترین موقع کے انتظار میں ہوتا ہے
۔مشہور محاورہ ہے کہ اگر گھوڑا گھاس سے پیار کرے گا تو کھائے گا کیا ۔یعنی
وقت کے حکمران اپنے اقتدار کے دفاع کے لیے ہر ایسی پارٹی اور سیاسی فرد کو
لائین پر لے آئے ہیں جو بذاتِ خود اس اقتدار کا طلبگار ہے اور اپنے مستقبل
کو حسین اور بہترین کرنے کے لیے وہ میڈیا کے ذریعہ نظر آنے لگا ہے اور اس
کی شخصیت و حثیت اتنی زیادہ مفید طلب اور کارآمد نظر آنے لگی ہے کہ جیسے
واقعی وہ لیڈران اپنے اپنے دور میں یقینا بڑے آئیڈیل تھے لیکن جیسے کہ ان
کی قدر افزائی اور حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے بلاوجہ انھیں تنقید کا نشانہ
بنایا جاتا رہا ۔ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن اور پھر بالآخر ایک دوسرے کی نہ
صرف پگڑی اتاری جاتی رہی بلکہ ایک دوسرے کی تضحیک میں تمام اخلاقیات اور
سیاسیات کے بہانے توڑ دیئے جاتے رہے ۔مگر وہ کہ جس کی یاداشت درست ہے یا
جنھیں ماضی کی فوٹیج اور ویڈیو ز کی سہولت میسر ہے اگر ایک دوسرے کا ماضی
دیکھ لیں تو کانپ اٹھیں ۔
آج حکمران جماعت کے رفقاء اور اتحادیوں نے اسلام آباد کے جاری بحران کو
بالکل حل نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی پیش رفعت کی ہے ۔جماعت
اسلامی کہ جس کا تعارف اس ملک میں صرف ریلی اور دھرنے تھا اسے بغیر کاوشوں
کے اتنی زیادہ میڈیا کوریج مل گئی ہے کہ جو آج تک کسی کو میسر نہ ہوئی تھی
۔ایم کیو ایم نے بھی بہتی گنگا میں کافی ہاتھ دھوئے ہیں اور اب انھیں
پاکستان کی ایک متحرک جماعت کے طور پر اچھی میڈیا پزیرائی مل گئی ہے ۔پیپلز
پارٹی کے بارے میڈیا میں کچھ اس طرح کا تاثر ہے کہ جیسے وہ پانچ سالوں میں
بڑا مثالی کردار کر کے گئی ہے اور اب زرداری صاحب کو اس حد تک عزت ملی ہے
کہ ان کو بہت کچھ اور ہر طرح سے غلط کہنے والے آج ان کو اپنے درخشاں مستقبل
کی ضمانت ظاہر کر رہے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے ۔جس نے جو
بویا ہوتا ہے یقینا کاٹ لیتا ہے ۔موجودہ حکمرانوں نے جو جو کیا تھا اور
جیسے جیسے ماضی کے حکمرانوں کو ذلیل کیا تھا وہ آپ سب کے سامنے ہے ۔ہمارے
سیاست دانوں کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیئے اور بہت دانا اور ذمہ دار بن
جانا چاہیئے ۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مضروب اور شہداء کے مقدمہ کو جس طریقے سے ہضم کرنے کی
کوششیں جاری ہیں اس میں جو کوئی بھی ساتھی بنے گا اس دنیا میں اور روزمحشر
جواب دہ ہوگا ۔اس لیے حکمرانوں کو مزید تصادم کا مشورہ اور طاقت کے استعمال
کا مشورہ دینے والے انکے دوست نہیں بلکہ دشمن کے روپ میں چھپے رستم ہیں ۔کہ
جن کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت
تصادم اور طاقت کا مشورہ دینا ایسا ہی ہے جیسے گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکہ
اور دے دیا جائے ۔
مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ریلیوں کا انعقاد تصادم کی عملی شکل ہے ۔بالآخر کسی
نہ کسی جگہ کارکنوں کا ٹکراؤ ہوگا ۔جس کے نتیجہ میں لاشیں گریں گی ۔فساد
اور خانہ جنگی کی سی کیفیت ہوگی ۔اور اس طرح اسلام آباد کے احتجاجیوں پر
طاقت کا استعمال کرنے سے تصادم اور مقابلہ کی فضا پیدا ہوگی ۔آپ یقین کر
لیں کہ اس تصادم اور طاقت کے استعمال سے یقینی طور پر جمہوریت خطرے میں پڑھ
جائے گی ۔جبکہ الیکشن میں دھاندلی کئی طریقوں اور اب سیکریٹری الیکشن کمیشن
کے بیانات سے کھل کر سامنے بھی آچکی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں اور
کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا تاحال نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے
ملک کی نام نہاد جمہوریت میں عوام الناس کے لیے آئین اور قانون کی کوئی
پاسداری نہیں اور ایسے کہ جیسے عدالتیں بھی قانون کو نظریہ ضرورت جیسے
اندازجیسی تشریحات میں پڑی ہوئی ہیں ۔اگر تحریک انصاف یا پاکستان عوامی
تحریک ریلی کرے تو ایسی ایسی جگہوں پر کنٹینر رکھ دئیے جائیں کہ علاقے کے
لوگوں کے شہری حقوق بھی سلب ہو جائیں اور ٹرانسپورٹ بھی بند ہو جائے جبکہ
برسر اقتدار لوگ ریلیاں دھرنے کریں یا ٹرانسپورٹ یا کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ
بلا معاوضہ کریں تو نہ ازخود نوٹس، نہ حکومت کو راستے بند کرنے کی فکر ،نہ
ان پر آنسو گیس ،نہ ربڑ کی گولیاں ،نہ ہی سیدھی فائرنگ اور نہ ہی کسی بھی
سطح کی عدالت سے کوئی حکم یا تاکید !!تو ایسے حالات میں حکومت کو اور عدالت
ہائے کو ایسے انداز اختیار کرنے چاہیئے کہ جس سے ملک میں انصاف اور جمہوریت
کے پیمانے استعمال ہوتے دکھائی دیں ۔ |