پاکستان کی بنیاد کلمہ توحید پر رکھی گئی اور اسی لیے اس
کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے ہمارے
آباؤ اجداد نے بے شمار قربانیا ں دیں۔ اپنے گھر بار چھوڑے ، اپنی زمین
جائیداد چھوڑی۔ صرف اس لیے ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر اسلام کے اصولوں کے
مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں۔اسلا م کو دنیا کے سامنے محبت و امن کا گہوارہ
بنا پیش کرسکیں مگر افسوس آج ہمارا یہ پاکستان نہ تو امن کا گہوارہ ہے اور
نہ ہی اس میں اسلام کا بول بالا ہے۔ آج مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو
قتل کر رہا ہے۔ فرقے کے نام پر آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔
پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے نام پر پورے ملک میں قتل وغارت کا
سلسلہ شروع کیا ہوا۔ سیاستدان اپنی کرسی کے لیے ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ رہے
ہیں۔ ملکی معشیت تباہی کے دہانے پرکھڑی ہے۔ پاکستانی کرنسی روزبروز نیچے گر
رہی ہے۔ بیروزگاری ختم ہونے کا نام نہیں لی رہے۔ شرح خواندگی کاغذوں میں تو
بڑھ رہی ہے مگر عملی طور پر یہ حال ہے کہ میٹرک کے طالب علم کو میٹرک کے
سپیلنگ تک نہیں آتے۔ امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر۔
ہماری حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضوں پر قرضے لیے جارہی ہیں۔ قرضے اتارنے کا
کسی کو خیال نہیں۔ پچھلے دونوں میں نے میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس پر قیام
پاکستان سے لیکر اب تک لیے گئے قرضوں کی فہرست درج تھی۔ مجھے حیرت اس بات
کی ہوئی کہ اس پوسٹ کے مطابق صرف سابق صدر جنرل ضیاالحق نے قرضے اتارے اور
اس کے دور میں قرضے کی شرح کم ہوئی ورنہ ہر دور میں قرضوں کی شرح بڑھتی
رہی۔ بے نظیر کے دورسے لیکر آج تک قرضوں کی شرح تقریباًڈہر باربل ہورہی ہے۔
پاکستان میں بچہ بچہ قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ اگر میں کہوں کہ بچہ ابھی پیدا
نہیں ہوا اور اس کا قرض پہلے لے لیا گیا ہے تو شاید یہ بھی غلط نہ ہو۔ جب
ہمارا ملک اس طرح قرضو ں میں ڈوبا ہوگا تو پھر ہماری آزادی کس کام کی؟ سوچو
ذرااگرآپ کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے جائیں تو کیا آپ اس کو آزادی کہیں گے؟
ہمارے حکمران اپنی مرضی سے کوئی پروجیکٹ شروع نہیں کرسکتے؟پورے ملک میں
جوکچھ ہوگا وہ آئی ایم ایف کی مرضی سے ہوگا۔عالمی برادری میں تیل کی قیمت
کہاں آچکی ہے مگر افسو س ہمارے ملک میں آج بھی تیل سو روپے سے زائد قیمت پر
مل رہا ہے کیونکہ ہمیں تیل کی قیمت آئی ایم ایف نیچے نہیں لانے دیتا۔
آج کل پاکستان میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے لیے جدوجہد جاری ہے
تو دوسری طرف انقلاب لانے کے لیے تگ و دو کی جارہی ہے۔ ملک میں جاری آزادی
اور انقلاب مارچ میں کئے گئے کئی مطالبات حل ہونا بہت ضروری ہیں۔ بہت سی
باتوں سے میں عمران خان اور طاہرالقادری سے اتفاق کرتا ہوں مگر یہ ان کی
سوچ کا نہیں بلکہ سارے پاکستانیوں کی سوچ ہے مگرسوال یہ ہے کہ تمام
پاکستانی اس بات پران لوگوں سے متفق کیوں نہیں ہورہے؟کیونکہ یہ بھی عام
سیاستدان ہیں ۔ اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر ان کو اقتدار مل گیا تو یہ
وہی کریں گے جو اب انہوں نے باتیں کیں ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہواجب
جنرل الیکشن ہوئے تو ہم نے ٹی وی پر تمام پارٹیوں کے سربراہان کے جلسوں کی
تقاریر سنی ۔ہر ایک نے بلند و بانگ دعوے کیے اور جب اقتدار مل گیا تو پھران
کو سانپ سونگھ گیا۔
کیا آپ سب کو ن لیگ کے وعدوں کہ بھول ہے کہ ایک طرف لوڈشیڈنگ چھ ماہ میں
ختم ہونے کے دعوے کیے جارہے تھے تو دوسری طرف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے
کا وعدہ ہورہا ہے تھا ۔اب اس کا رزلٹ آپ کے سامنے ہے۔آج کوئی پارٹی یہ نہیں
کہ سکتے کہ میں اقتدار میں نہیں ہوں اگر وہ مرکز میں نہیں تو صوبوں میں
ضرور ہیں۔ سندھ میں پی پی کی ، پنجاب میں ن لیگ کی ، بلوچستان میں ہم خیال
کی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں مگر وہ بتائیں کہ کیا ان
صوبوں کے لوگوں کے مسائل حل ہوچکے ہیں؟ کیا وہاں پر خوشحالی آگئی ہے؟
بیروزگاری ختم ہوچکی ہے؟ ان صوبوں نے اپنے حصے کے قرضے اتار دیے ہیں؟ اگر
سب کچھ ہم نے مرکز پر ڈالنا ہے تو پھر صوبائی حکومتوں کی کیا ضرورت ہے؟
آئے دن عوام پر ٹیکس کی بوچھاڑ رہتی ہے کبھی بجلی مہنگی تو کبھی پیٹرول،
کبھی جی ایس ٹی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملکی حالات یہ ہیں کہ غریب مزدور کی
اجرت ماہانہ کم ازکم گیا رہ ہزار روپے کا اعلان کردیا جاتا ہے اور جب مل
مالکان یا دوسرے حضرات جنہوں نے ملازم رکھے ہوتے ہیں وہ تنخواہ دیتے ہیں تو
وہ آٹھ ہزار سے دس ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔ اب توبہت سے ادارے ریگولر
ملازمین کو ڈیلی ویجز پر لے آئے ہیں پھر ان کی اپنی مرضی ہے کسی کو ڈیوٹی
پر رکھا اور کسی کا واپسی کاراستہ دکھا دیا۔ ان غربت کے مارے مزدوروں سے
’’مُک مُکا‘‘ کیا جاتا ہے کہ اتنی تنخواہ دیں گے۔
انصاف کا یہ حال ہے کہ سالہاسال مقدمے چلتے رہتے ہیں ،مقدمہ کرنے والا دنیا
سے چلا جاتا ہے مگر اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوتا۔ الیکشن دھاندلی کے خلاف
اسمبلی مدت پوری کرجاتی ہے مگر کیس ابھی تک الیکشن ٹربیونل میں جاری ہے۔
اگر اس سے بڑھ ذرا ذرا سی بات پر سٹے (stay) لے لیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے
کہ امیر امارت کی بلندیوں کو چھور ہا ہے اور غریب غربت سے تنگ کر آکر
خودکشی کررہا ہے۔اگر ہم مل بیٹھ کر کوئی خون خرابہ کیے بغیرغریب کے مسائل
کو اپنے مسائل سمجھ کر حل کریں تو ہمارا پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی
ترقی کرسکتا ہے مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اعتبار کریں تو کس پر کریں؟ |