ہر کوئی زرداری، نواز، عمران اور قادری

ہم کیوں گلہ کرتے ہیں کہ عمران اپنی اناء پر قائم انسان ہے۔ زرداری شطرنج کا کھلاڑی ہے جو بڑے سے بڑا گیم پلٹ سکتا ہے۔ ہمیں کیوں شکایت ہے کہ نواز شریف بادشاہت کا تاج سر پر سجائے رکھتے اور دوسروں کے رائے کا احترام نہیں رکھتے ہمیں کیوں گلہ ہے کہ قادری غیروں کا مسلط کردہ ایک تحفہ عظیم ہیں۔ لیکن ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ زرداری ہو یا نواز، عمران ہو یا قادری اسی سوسائٹی کے پلے بڑے ہیں اور اسی سوسائٹی کے جز ہیں۔ اور اسی سوسائٹی سے انہوں نے سیکھا ہے۔ آج ہم دیکھیں تو ہم میں سے ہر کوئی زرداری، نواز، عمران، قادری بنا پھرتا ہے آخر کیوں اسلئے کہ ہم سب میں انا پرستی بھی ہے۔ بادشاہت بھی، شطرنج کا کھیل ہم بھی کھیلتے ہیں اور بیرون قوتوں کے آلہ کار بھی۔ تو کیوں ان سب کا زمہ دار ہم ان رہنماء و رہبراں کو ٹھہراتے ہیں یہ تو ہماری سوسائٹی کے قائدے اور قانون میں شامل ہے۔ بچپن میں جب بچہ ضد کرتا ہے تو والدین اسکو مناتے ہیں اور کچھ بچے جب ضد کرتے ہیں تو بجائے بچے کو منانے کے اسکو گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور وہ بچہ آوارگی اختیار کر لیتا ہے۔ تو ڈاکو بن جاتا ہے یا تو سمگلر بن جاتا ہے۔ یا تو قاتل بن جاتا ہے یا تو پوری سوسائٹی سے بغاوت کرکے اسکے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ پھر تو یہاں پر سپورٹرز کی بھی کمی نہیں ہے۔ اگر وہ کسی قاتل کے ہاتھوں لگ جائے تو اسے بندوق تھما دیتا ہے۔ اگر دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جائے تو اسے دھماکہ خیز مواد دیا دیا جاتا ہے کسی سمگلر کے ہاتھ لگ جائے تو اسے سمگلنگ کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ تو اسے یہ ساری چیزیں بخوشی دستیاب ہیں تو بھلا اسے اور کس کے سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکا نام چینلز کی بڑی نشریاتی اداروں میں نشر ہونے لگتا ہے تو بھلا وہ کیوں فخر نہ کرے کہ اسکا نام اس بڑے چینل کی زیب و زینت اور خبر کا حصہ بن گیا ہے جو اس نے خوابوں اور خیالوں میں سوچا نہیں ہو گا۔ اور یہ بھی سوچے گا کہ اگر غربت کی زندگی گزارتا تو نہ نام ہوتا اور نہ ہی اسکی زندگی آسائشوں اور بلڈنگوں میں ہوتا جہاں نوکروں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور بڑے بڑے شخصیات اس سے ملنے سے بے تاب رہتے۔ وہ اپنے طاقت اور مال و دولت سے چاہے جسکو خریدے چاہے جسکو بیچے بھلا اسے کیا فرق پڑ جائے کیونکہ قانون، پولیس اور ادارے اسکی مٹی میں بند ہو چکے ہوتے ہیں۔ مجھے میرے ایک دوست نے کہا کہ یار عجیب و غریب صورتحال ہو گئی ہے ہماری سوسائٹی کی۔ جسکے دل میں جو آجائے کرے اسے کوئی پوچھنے والانہیں انہوں نے اپنے ایک دوست کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز نہ جانے کونسی بات پر ناراض ہو گیا راضی کرنے کی یہت کوشش کی لیکن راضی نہیں ہوا ۔ ناراضگی کی کوئی وجہ بھی نہیں بتاتا لیکن سمجھ میں نہیں آتا اس دوست کو کیسے راضی کرلوں ۔ میں نے کہا یار آپ عمران خان کے دھرنوں اور حکومت مخالف جلسے جلوسوں کو نہیں دیکھ رہے جہاں اسے منانے کے لئے کون کون سی جماعتیں اسکے پاس نہیں گئی ہیں وہ اپنی انا پر اٹل ہے۔ کہ وہ کسی بھی صورت مذاکرات کرنے کو تیا ر نہیں آخر یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ جمہوری حکومت کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کئے جا سکتے آخر وہ بھی اسی سوسائٹی کا ہی حصہ ہے۔ اسے بنیادی طور پر یہی سبق دیا گیا ہے اسکی زہنیت بدلنے میں ٹائم تو لگے گا اور عمر کا تقاضا بھی ہے کہ اس عمر میں اسکا رویہ بھی ایسا ہونا لازمی و ملزوم ہے۔ میں نے کہا کہ یار نواز شریف کی بادشاہت سے آپکو کیا یاد آتا ہے۔ اس نے کہا کہ یار مجھے تو کچھ یاد نہیں آرہا میں نے کہا کہ یار آپ نے اپنے گاؤں میں میر معتبرین کا رویہ نہیں دیکھا ہے۔ جہاں معتبر ہی اپنے آپ کو اعلیٰ اور عمدہ سمجھتا ہے۔ اور نہ وہ دوسروں کے رائے کو فوقیت دیتا ہے۔ بس اپنے رائے اور فیصلوں کو ہی مسلط کرنا اپنے اور عمدگی اور سربراہی کی علامت سمجھتا ہے۔ اگر کوئی اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرے تو اسے نشانہ بنایا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے۔ پھر میں نے اسے کہا کہ یار زرداری کی شطرنج جیسی چالوں سے آپکو کچھ یاد آیا اس نے کہا کہ یار مجھے نہیں معلوم۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے علاقے کی ہی صورتحال لے لیں۔ جہاں بہت سے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو پہلے لوگوں کو لڑاتے ہیں پھر ان سے اظہار ہمدردی کر لیتے ہیں اور دونوں گروپوں کا فیصلہ بھی کر لیتے ہیں ان سے مالی معاونت حاصل کرتے ہیں اور زندگی بھر انہیں اپنے احسان مند بنا لیتے ہیں اور ہر وقت اپنے احسانات کے تذکرے بھرے محفل میں کرکے انہیں احساس کمتری کا شکار بنا لیتے ہیں۔ طاہرالقادری کے اعلاانات اور جذباتی تقاریر سے مجھے یاد آیا کہ ایک شخص نے جو جہادی طرز اپنائے ہوئے ایک دن مسجد میں لوگوں کو جمع کیا اور امریکہ کی افغانستان میں جنگ کے موضوع پر جہادی طرز کا جوش خطابت کا مظاہرہ کیا۔ جس پر موجود سامعین نے بھی نعرہ تکبیر اﷲ اکبر کے نعرے لگائے۔ اور مولانا صاحب کے جوش خطابت پر اسے خراج تحسین پیش کیا اور اس پرمکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ اور چند ہفتوں کے بعد مولاناصاحب کی حقیقت کا پتہ چلا کہ مولانا صاحب کی حقیقت کچھ اور ہے تو لوگوں کا بھی اعتماد اس سے اٹھ گیا۔ اس سوسائٹی میں انا پرستی، خودغرضی، لالچ، بادشاہت، شطرنج کا کھیل، ناحق خون بہانا، ناانصافی وغیرہ وغیرہ نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ہے۔ ان عوامل کی موجودگی میں مزید معاشرتی بے راہ روی جنم لیتے رہیں گے جنکا سدباب نہ ہمارے پاس ہوگا۔ نہ ہی ہماری مقتدر حلقوں کے پاس۔

تو ہم زرداری، نواز، عمران اور قادری سے کیوں گلہ کریں یہاں ہر کوئی قادری، عمران، نواز اور زرداری بنا پھرتا ہے۔

Shabir Rakhshani
About the Author: Shabir Rakhshani Read More Articles by Shabir Rakhshani: 20 Articles with 18367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.