گزشتہ روز جب ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے دی جانے والی
ڈیڈ لائن ختم ہونے جا رہی تھی حکومت اور علامہ ڈاکٹرطاہری القادری کے
درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہواان مذاکرات میں دو صوبوں کے گورنریعنی
پنجاب سے غلام سرور اور سندھ سے ڈاکٹر عشرت العباد عوامی تحریک کے قائد کے
ساتھ بات چیت کو آگے بڑھا رہے تھے ڈیڈ لاک ختم ہونے کی امید نظر آنے لگی
تھی ان احباب نے مزید چوبیس گھنٹے کی مہلت مانگی لیکن قائد تحریک نے چند
گھنٹوں کی مہلت کے ساتھ اپنے دو مطالبات بھی رکھ دیئے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن
کے شہداء کی ایف آئی آر درج کی جائے اور دوسرے مطالبے میں یہ بات رکھی گئی
کہ اس ایف آئی آر میں جن احباب کے نام شامل ہیں اور وہ حکومت وقت میں بیٹھے
ہوئے ہیں وہ فوری طور پہ مستعفی ہو جائیں گورنر صاحبان اعلی حکومتی شخصیات
سے ملاقات کے بعددوبارہ انقلابی قیادت کے پاس آئے جب یہ احباب ڈاکٹر
طاہرالقادری کے ساتھ کنٹینرز سے باہر نکلے تو سبھی کے چہروں پہ مسکراہٹ نظر
آئی تو یوں لگا جیسے برف پگھل رہی ہے اور اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی دے
رہا ہے لیکن سٹیج سے جو اعلان ہوا اس سے معلوم ہوا ابھی معاملات جہاں تھے
وہیں ہیں پھر ایک گھنٹہ کے وقفہ سے حکومتی وفد جس میں وفاقی وزیر خزانہ
اسحاق ڈار بھی شامل تھے آیا وفد نے پہلے دھرنا ختم کرنے پھر مطالبات ماننے
کا کہا تومذاکرات میں دوبارہ ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا حکومت وقت اپنی ضد اور انا
کے کھول سے باہر آنے کو تیار نہیں جب اسحاق ڈار کنٹینرز میں ’’مذاق رات‘‘
کر رہے تھے اسی وقت تھانہ ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے وکلا عدالتی فیصلے
کی کاپی سمیت ایف آئی آر درج کرانے پہنچ چکے تھے لیکن حیرانی والی بات یہ
تھی کہ وہاں ایس ایچ او اور محرر ایف آئی آردرج کرنے والے رجسٹرڈ سمیت غائب
تھے اوپر سے پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان اور تاجران تھانہ ماڈل ٹاؤن میں
جمع ہوگئے اور انہوں نے ایف آئی آردرج کرنے کی صورت میں میں کھلم کھلا
دھمکیاں دیں اب اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے اتنی ہلاکتیں ہونے پر اور
پھر عدالتی فیصلے کے باوجود پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس ایف آئی آر درج
کرنے سے گریزاں ہے یوں لگ رہا ہے جیسے اس ملک میں اب انصاف نام کی کوئی چیز
دکھائی نہیں دے رہی یہاں اشرافیہ اور عوام کے لئے الگ الگ قوانین ہیں نئی
صورت حال کے مطابق ڈاکٹرطاہرالقادری نے حکومت کے ساتھ مزید مذاکرات کے
دروازے بند کر دیئے ہیں اور اب حالات تصادم کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں -
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ
ہم اپنے آپ پر جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے پر تیار ہیں بشرطیکہ علامہ طاہر
القادری معصوم بچوں اور بے بس انسانوں کو اپنی یرغمالی سے آزاد کر کے گھروں
کو جانے دیں اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومتی وفد نے ماڈل ٹاؤن
واقعہ کی وزیراعظم اور وزراء پر جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے پر آمادگی کا
اظہار کر دیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے مزید کہا کہ ہم نے
دھرنوں میں موجود خواتین ، بچوں اور بے گناہوں کو تصادم پر آمادہ کرنے کی
بجائے امن سے گھر واپس بھیجنے کی واحد شرط عائد کی ہے۔
جب بات دھرنوں اور استعفوں کی ہو وہاں تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا ذکر نہ
کرنا ایک زیادتی ہوگی یوم آزادی کے موقع پہ شروع ہونے والا لانگ مارچ اپنی
پوری قوت کے ساتھ ریڈ زون میں دھرنا دیئے بیٹھا ہے آپ کو اچھی طرح سے یاد
ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان روزانہ میاں نواز شریف
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے استعفی مانگتے رہے ہیں گزشتہ روز عوامی
مسلم لیگ کے واحد ممبر قومی اسمبلی شیخ رشید صاحب نے شرکاء سے جوش خطابت کے
دوران کہا ’’ اگر عمران خان مجھے حکم دیں تو میں دو گھنٹوں میں میاں نواز
شریف سے استعفی لاکر دے دوں ‘‘ہم تو سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب کو شیخ
رشید کی آفر ۔۔۔اور وہ آفر جو خان صاحب کی ضد اور انا بن چکی ہے شیخ صاحب
کو پہلی فرصت میں بنفس نفیس انتہائی مودبانہ انداز میں میاں نواز شریف کا
استعفی لانے کا کہہ دینا چاہئے کیوں کہ جو کام وہ ابھی تک نہیں کر سکے اگر
وہی کام صرف دو گھنٹوں میں شیخ صاحب کر سکتے ہیں ہیں تو پھر دھرنا میں
بیٹھے شرکاء کو مزید صعوبتیں جھیلنے سے بھی بچایا جاسکتا ہے اب یہاں دوسرا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیخ صاحب وزیراعظم میاں نواز شریف کا
استعفی’’راجہ بازار‘‘ کی کسی دوکان سے خریدکر لائیں گے کم از کم ہماری ناقص
عقل تو شیخ صاحب کی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے-
شہر اقتدار میں جب موسم ٹھنڈا اور سیاست کا بازار گرم ہوتا جا رہا ہے ایسے
میں معروف عالمی ادارے ’’ریو ریسرچ سینٹر‘‘ کی ایک رپورٹ منظر عام پہ آئی
ہے اس کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد ایک سال
سے زائد عرصہ میں اپنی مقبولیت 64 فیصد پر برقرار رکھی، اس وقت پاکستانیوں
کی بھاری اکثریت وزیراعظم محمد نواز شریف کی پالیسیوں پر بھرپور اعتماد
کرتی ہیرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنی گذشتہ سال
کی مقبولیت کو اس سال بھی برقرار رکھا ہے جبکہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی پر
مشتمل صوبہ پنجاب میں ان کی مقبولیت 75 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ
میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی
مقبولیت میں 2012ء سے اب تک غیر معمولی کمی ہوئی ہے۔ دو سال قبل ان کی
مقبولیت 70 فیصد تھی جس میں اب تک 17 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، 22 فیصد لوگوں
نے عمران خان کے بارے میں کوئی رائے دینے سے اجتناب کیا، وہ لوگ جنہوں نے
عمران خان کی پالیسیوں کی بناء پر کوئی رائے دینے سے انکار کیا ہے ان میں
دو سال کے دوران 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ’’ریو ریسرچ سینٹر‘‘ کی رپورٹ کے
مطابق اس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی حکومت کی پالیسیوں کی
بدولت وزیراعظم اور ان کی حکومت دونوں کا گراف اوپر گیا ہے۔ ’’ریو ریسرچ
سینٹر‘‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف پیشرو کے مقابلہ
میں عوام میں کہیں زیادہ مقبول ہیں اگرچہ سابق صدر آصف علی زرداری کو
اقتدار سے الگ ہوئے چند ماہ گزرے ہیں لیکن 15 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے
کہ وہ کوئی مثبت اثر رکھتے تھے-
قطع نظر کہ کون سا لیڈر مقبولیت کے کس مقام پہ ہے کس کا گراف نیچے اور کس
کا گراف اوپر جا رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات جو حکومت اور
دھرنے والوں کی ذاتی ضد اور انا کے باعث گھمبیر،کشیدہ اور متصادم کی جانب
بڑھ رہے ہیں ان حالات کوحکومت سمیت سیاسی قائدین اور وہ ’’قوتیں ‘‘ جن کا
پاکستانی سیاست میں اہم رول رہا ہے عمدہ حکمت عملی سے سدھارنے کی کوشش کرنی
چاہئے- |