لیبیا۔۔۔قذافی کے بعد

بی بی سی کے مطابق، "اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے لیبیا میں جاری لڑائی کو فوری طور پر روکنے کی قراداد منظور کرتے ہوئے لیبیا کے حریف ملیشیا گروپوں کے درمیان تشدد کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف پابندی عائد کرنے کی تجویز دی ہے ۔ اقوام ِ متحد ہ کی سلامتی کونسل نے لیبیا کے ملیشیا گروپوں اور فوج کے دھڑوں کے درمیان تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ سلامتی کونسل نے بدھ کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ، جس میں ان لوگوں اور گروہوں پر پابندی کی دھمکی دی گئی، جو لیبیا کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کر رہے ہیں یا سیاسی تبدیلی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد یا گروہوں کے کی جائداد فروخت کی جاسکتی ہے یا ان پر سفری پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔ "

اس وقت لیبیا کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں 2011 ء میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہ آپس میں گتھم گتھا ہیں ۔ 2011ء سے اب تک سیکڑوں لوگ آپس کی لڑائی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کا ہوائی اڈہ ان دنوں "فجر لیبیا " نامی ایک گروہ کے قبضے میں ہے ۔ پچھلے کئی دنوں سے اس ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کے لیے متعدد گروہ آپس میں بر سر ِ پیکا ر تھے ۔ تاہم جیت فجر لیبیا کی ہوئی ۔ العربیہ کے مطابق: "طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر قبضے کے لیے اسلامی جنگجوؤں اور حکومت نواز ملیشیا کے درمیان 13 جولائی سے لڑائی جاری تھی۔دونوں متحارب جنگجو گروپ ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر راکٹ گرینیڈوں اور توپوں سے حملے کرتے رہے ہیں۔"

ایک خبر کے مطابق لیبیا میں عبوری حکومت نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے ۔ یوں دو پارلیمانی ادروں کے درمیان سیاسی کش مکش زور پکڑ رہی ہے ۔ وائس آف جرمنی کے مطابق : "دیکھا جائے تو اس عبوری حکومت کو لیبیا میں ویسے بھی کوئی حقیقی طاقت حاصل نہیں تھی۔ اس حکومت کا ہیڈ کوارٹر ملک کے مشرقی حصے میں واقع ہے کیونکہ یہ ادارہ طرابلس میں اسلام پسند ملیشیا گروہوں کے دائرہ اثر سے بچنا چاہتا تھا۔ خود پارلیمان کا ہیڈکوارٹر بھی دارالحکومت طرابلس سے سولہ سو کلومیٹر مشرق کی جانب شہر طبروق میں ہے۔ یہ پارلیمان اس سال جون میں منعقدہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور تب اس نے فوری طور پر لیبیا کی قومی کانگریس کے اختیارات سنبھال لیے تھے۔"اس وقت لیبیا میں پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ملک پر ملیشیاز کا راج ہے ۔ جو کسی طرح بھی حکومت کے زیر ِ تسلط نہیں آرہے ۔

2011ء میں تیونس اور مصر کے بعد لیبیا متاثر ہوا ۔ بہار ِ عرب کی لہر نے 40 سال سے شاہی کرسی پر متمکن معمر قذافی کو اُس جہان پہنچا دیا ۔ معمر قذافی 1942ء میں سرت کے نزدیک ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے ۔ جوانی میں وہ مصر کے سابق صدر اور قوم پرست جمال عبدالناصر سے کافی متاثر تھے ۔ 1969 ء میں انھوں نے بن غازی کو مرکز بنا کر اس وقت کے لیبین حکم ران شاہ ادریس کے خلاف بغاوت کردی ۔ جس میں وہ کام یاب ہوگئے ۔ یوں وہ لیبیا کے مطلق العنان بادشاہ بن گئے ۔ ابتدا میں وہ عرب قوم پرستی کے علمبردار تھے ۔ 1990ء میں وہ انھوں نے اپنی توجہ کا محور براعظم افریقہ کو بنا دیا ۔ انھوں نے متحدہ افریقہ کا تصور بھی پیش کیا ۔ انھوں نے سوشلزم ، سرمایہ داری اور اسلام کے کچھ پہلوؤں کو ملا کر اپنی سبز کتاب پر مبنی سیاسی نظریات بھی پیش کئے ۔انھوں نے اپنے پورے دور ِ اقتدار میں اپنے خلاف کی گئی ہر مخالفت کو بری طرح کچل دیا ۔ لیکن 2011ء میں نہ جانے کیا ہوا کہ یکا یک پورا لیبیا ان کے خلاف ہو گیا ۔یہ دنیا واقعی عبرت کدہ ہے۔ یہاں ، کبھی کبھی ، ان کو بھی نشانِ عبرت بننا پڑتا ہے ، جو تخت و تاج کے وارث ہوتے ہیں ۔ جو انسانیت پر ظلم کرتے ہیں ۔ جو سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کو ڈرا دھمکا کر ، جتنا چاہیں ، اپنے تسلط کو طول دے سکتے ہیں ۔ لیکن یہ ان کی بھول ہوتی ہے ، زمانے کا کیمرہ ان کی گلیوں میں گھسیٹنے کی فوٹیج اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لیتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اقتدار کے نشے میں چور حکم ران اور بادشاہ عبرت نہیں پکڑتے اور اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ۔

قذافی بہت سخت گیر حکم ران تھے ۔ ان کے دور میں اگر کوئی ان کے خلاف نہیں بول سکتا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ کسی کو یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ ملک میں انتشار پھیلائے ۔ لیکن اب تو پارلیمان اور لیبیا کی حکومت اتنی کم زہور ہو چکی ہے کہ وہ اپنے ملک کا ہوائی اڈا بھی جنگ جو گروہوں سے نہیں چھڑا سکتی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قذافی کے دور کا لیبیا ان کے دور کے بعد کے لیبیا سے اچھا تھا!

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159138 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More