14اگست سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی حکومت کے خلاف
شروع ہونے والی سیاسی جنگ اب حقیقی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ہفتے کی رات
عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان
کی طرف سے پارلیمنٹ کے سامنے دیے ہوئے دھرنے وزیراعظم ہاﺅس کے سامنے منتقل
کرنے کا حکم دیا گیا تو ڈنڈوں، غلیلوں اور لوہے کے راڈوں سے مسلح شرکا
وزیراعظم ہاﺅس کی طرف مارچ کرتے ہوئے رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھنے لگے۔
مظاہرین نے پولیس پر پتھراﺅ، غلیلوں اور ڈنڈوں سے حملے کیے۔ اسلام آباد میں
شاہراہ دستور میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ مظاہرین کیبنٹ ڈویژن کے پاس
پہنچے کہ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلانا شروع کردیں
اور فوج نے پارلیمنٹ ہاﺅس سمیت اہم عمارتوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں۔
مظاہرین جنگلا توڑ کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے اور پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں
خیمے ڈال لیے۔ مظاہرین نے وزیراعظم ہاﺅس کے سامنے درختوں اور گاڑیوں کو بھی
آگ لگائی۔ اتوار کے روز بھی ڈنڈو ں، غلیلوں اور پتھروں سے لیس مظاہرین ریڈ
زون کی سیکورٹی کے لیے لگائے گئے کنٹینرز کے عقب میں چھپے وقفے وقفے سے
باہر نکل کر پتھراؤ اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کرتے رہے، تاہم
پولیس کی جانب سے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی رہی۔ ہفتے کی رات سے
جاری اس تصادم کے نتیجے میں اتوار تک 3 افراد جاں بحق، جبکہ 480 سے زاید
زخمی ہوئے۔ مظاہرے کے دوران 100 سے زاید افراد کو حراست میں بھی لیا گیا
ہے، جنہیں آبپارہ، سیکرٹریٹ، سبزی منڈی اور کوہسار پولیس اسٹیشنز میں رکھا
گیا۔ جبکہ اسی تصادم میں کئی نیوز چینلز سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز، کمیرا
مین بھی زخمی ہوئے۔ ہفتے کی رات اسلام آباد میں جھڑپوں کے وقت عمران خان
اپنے کنٹینر اور طاہرالقادری اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ہی رہے۔ ایک موقع پر
عمران خان کنٹینر سے باہر آئے منہ پر رومال رکھ کر کچھ لمحے کھڑے رہے اور
پھر دوبارہ کنٹینر کے اندر چلے گئے، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ
میرا گاڑی سے باہر نکلنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ مجمعے کے ساتھ چل رہا ہوں۔
مجھے اطلاع ملی ہے کہ میری گاڑی کا گھیراؤ کرکے اٹھا لیا جائے گا۔ جبکہ
دونوں حضرات کے بیٹے دھرنے جاری ہوتے ہی بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ہفتے کی
رات اسلام آباد میں حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک کے حالات میں
کشیدگی آگئی ہے، اتوار کے روز ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے
گئے اور صوبہ پنجاب میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر دفعہ 144
نافذ کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد کسی بھی عوامی مقام پر 5 یا 5 سے زاید افراد
کے اجتماع پر پابندی عاید ہوگی۔ شہر میں جلسے جلوس یا ریلیاں نکالنے کی
اجازت نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں ترجمان حکومت پنجاب نے بتایا کہ ملک میں امن
و امان کی صورتحال پہلے ہی خراب ہے اور ان حالات میں اگر ریلیاں اور جلسے
جلوس نکالے جاتے ہیں تو دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں مدد مل
سکتی ہے۔ دفعہ 144 کا اطلاق فوری طور پر تاحکم ثانی پورے صوبے میں ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم نواز
شریف اور چودھری نثار علی خان کے خلاف قتل کے مقدمے اور ان کا نام ای سی
ایل میں شامل کرائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی،
ریاستی طاقت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ جبکہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ وہ
اور عمران خان مشترکہ جنگ لڑ رہے ہیں، جسے ہمیں اکٹھے ہی جیتنا ہے اور
مستقبل میں بھی ہم اکٹھے ہی رہیں گے۔ قانون نواز شریف، شہباز شریف اور
چودھری نثار کو پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے
ریڈزون کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں، ایک
گروہ وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرنا
چاہتا ہے، اس کے بعد کیا کیا جاسکتا ہے؟ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات
سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ ترین
رہنماؤں جہانگیر ترین، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، عارف علوی اور شفقت
محمود سے ہماری گفتگو چل رہی تھی، لیکن ڈیڑھ گھنٹے میں نجانے کون سا طوفان
آگیا کہ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کرکے یلغار اور دھاوے کی سیاست کو اپنا لیا
گیا۔ طاہرالقادری اور عمران خان نے اپنے پیروکاروں کو پارلیمنٹ پر حملے کا
حکم دیا تھا، دھرنا دینے والی جماعتوں کے موقف کو دنیا کے کسی کونے سے
پذیرائی نہیں ملی ہے، یہ لاشوں کی سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ دونوں جماعتوں
کے رہنماؤں میں سے کس کی بہن یا بیٹی دھرنوں میں شریک نہیں۔ مسلح افراد نے
خواتین اور بچوں کو یرغمال بنارکھا ہے۔ تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے
کہا ہے کہ عمران نے آگے نہ جانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب جمہوریت ختم ہوئی تو
ذمہ داری عمران خان پر ہوگی۔ تحریک انصاف اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹیوں کے
درمیان جو بات چیت ہوئی تھی ،اس میں ہم نے حکومت کو ایک ڈرافٹ پیش کیا تھا،
جس کا جواب حکومت نے ابھی ہمیں دینا تھا، پھر تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور
دیگر رہنماؤں کا کنٹینر میں اجلاس ہوا، جس میں متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم لوگ
شاہراہ دستور سے آگے نہیں بڑھیں گے، جس پر عمران خان نے بھی اتفاق کیا تھا،
لیکن شیخ رشید اور سیف اللہ نیازی عمران خان کے پاس کوئی پیغام لے کر آئے
اور پھر عمران خان نے مجھ سے کہا کہ ہاشمی صاحب میری مجبوری ہے کہ اب میں
نے آگے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو آپ جا سکتے
ہیں، جس پر میں نے کہا خان صاحب تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے اور خود آپ نے
بھی یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم آگے نہیں جائیں گے تو اس پر ان کا جواب تھا کہ
میں پارٹی کا سربراہ ہوں اور میں نے آگے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جاوید
ہاشمی نے کہا کہ میں نے اس پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے ماریں کھائیں اور
جیلیں کاٹیں ہیں، میں کیسے اس پارلیمنٹ پر دھاوے کا سوچ سکتا ہوں۔ ٹین
ڈاؤننگ اسٹریٹ اور وائٹ ہاؤس میں ڈنڈوں اور غلیلوں کے ساتھ وزیراعظم اور
صدارتی دفاتر کے باہر مظاہروں کی اجازت نہیں دی جاتی، موجودہ صورت حال میں
ہمارے اور مارشل لاءکے درمیان بہت ہی کم فاصلہ رہ گیا ہے، اگر مارشل لاءلگ
گیا تو پھر ہم 15 سے 20 سال تک صفائیاں پیش کرتے کرتے مر جائیں گے، میں خان
صاحب کو اس شرمندگی سے بھی بچانا چاہتا ہوں۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا
جواب دیں گے۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اور عمران خان سے درخواست
کرتا ہوں کہ تصادم کی سیاست سے گریز کیا جائے، اس سے خون خرابہ ہو گا،
ہمارے بچوں کا قتل عام ہو گا اور پھر ہم اپنی ماں بہن بیٹیوں کو کیا جواب
دیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتوں نے
وزیراعظم ہاﺅس کے باہر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے
کارکنوں اور پولیس میں تصادم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے افسوسناک
قرار دیا۔ تاہم ان جماعتوں نے موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ان دونوں جماعتوں
کو قرار دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے سلام آباد
کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو
قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے کارکنوں کو
آگ میں جھونک کر اچھا نہیں کیا۔ عمران خان اور طاہر القادری کی منفی سیاست
کے نتیجے میں اگر ملک کسی حادثے سے دوچار ہو گیا تو اس سے نہ صرف قوم اور
ملک کا نقصان ہو گا، بلکہ عمران اور طاہر القادری کی سیاست بھی ہمیشہ کے
لیے ختم ہو جائے گی۔ پی ایم ہاﺅس کی حفاظت فوج سمیت تمام اداروں کی ذمہ
داری ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ حالات اس نہج پر نہ پہنچیں، اب بھی
میرا یقین ہے کہ تشدد نہیں، بہرحال مسائل کا حل مذاکرات ہی میں ہے۔ مرکزی
جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ عمران خان اور
ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومتی صبر کو ان کی کمزوری سمجھ لیا، یہ لوگ چاہتے
ہیں کہ حالات ایسے ہوں کہ کوئی اور تیسرا فریق اقتدار پر شب خون مارے۔ جے
یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت نے 18 سے 20 روز
تک صبر کا مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ریڈ لائن عبور کر لی۔ دونوں جماعتوں کی
ہٹ دھرمی کے سبب ایسا ہوا۔ دونوں جماعتوں نے عورتوں، بچوں کو ہتھیار کے طور
پر استعمال کیا۔ یہ لوگ ملکی نظام کوتباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ
فنکشنل،استقلال پارٹی اور مسلم لیگ ضیا الحق کے رہنماﺅں نے بھی اسلام آباد
واقعہ کا ذمہ دار دونوں پارٹیوں کو قرار دیا ہے۔
دوسری جانب محکمہ داخلہ نے اسلام آباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان
ہونے والی جھڑپوں کی ابتدائی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی، جس میں بتایا
گیا کہ مظاہرین نے بغیر اطلاع دیے وزیراعظم ہاؤس کی جانب مارچ شروع کیا،
بعدازاں مظاہرین نے ایوان صدر کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی، جنھیں لاؤڈ
اسپیکر پر اعلان کرکے بتایا گیا کہ یہ ریڈ زون کے اندر وہ ریڈ لائن ہے، جس
سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، لیکن اس کے باوجود مظاہرین کی جانب
سے کٹر کی مدد سے تاریں کاٹنے کی کوشش کی گئی اور دیگر اوزار استعمال کیے
گئے، جس پر پولیس نے پہلے ہوائی فائرنگ کی اور اس کے بعد جب مظاہرین نے
سیکورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کیا تو پھر آنسو گیس کے ذریعے انھیں منتشر
کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا۔ وزیراعظم نواز
شریف کو بتایا گیا کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس پر حملہ کرنے والے 85
افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، اس کے علاوہ مظاہرین سے آہنی راڈیں، ہتھوڑے،
غلیلیں، ڈنڈے اور دیگر سامان بھی اپنے قبضے میں لیا گیا۔ مبصرین کا کہنا ہے
کہ دنیا کا کوئی بھی قانون ریاستی اداروں پر یوں دھاوا بولنے کی اجازت نہیں
دے سکتا، جس طرح ہفتے کی رات پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے اپنے
قائدین کے احکامات پر دھاوا بولا۔اس طرح کے اقدامات کا مقصد صرف اورصرف ملک
میں انتشار پھیلاکر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہے۔ 2007میں لال مسجد والوں نے
صرف اپنی مسجد کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے شریعت کا مطالبہ کیا تھا، انہوں
نے سرکاری عمارتوں پر قبضے بھی نہیں کیے تھے، اس کے باوجود ان کو باغی کہا
گیا اور آپریشن کر کے سب کو قتل کر دیا گیا، جب ان کا صرف مطالبہ ہی ریاست
کے خلاف بغاوت ٹھہرا تو پھر ہزاروں افراد کا اعلیٰ الاعلان سرکاری عمارتوں
پر دھاوا بولتے ہوئے قبضے کی کوشش کرنا بغاوت کیوں نہیں ہوگا؟ مبصرین کا
کہنا ہے کہ طاہر القادری یہ بتائیں کہ انہوں نے خود اپنے فتاویٰ میں ریاستی
اداروں پر قبضے کو بغاوت قرار دیا ہے تو اب وہ خود وہی صورت اپنا کر اپنے
فتوے کے مطابق باغی قرار نہیں پائیں گے؟ لہٰذا فریقین کو تحمل اور صبر کا
مظاہرہ کرنا چاہیے، ورنہ ملک کے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ |