اس جی کا جانا ٹھہر چکا

کسی سیانے کا قول ہے کہ جب کوئی شخص ایک بار کوئی بات کرے تو اسے سچ مان لو، دوسری بار دہرائے تو غور کرو اور اگر وہی بات مسلسل تیسری بار کرے تو سمجھ لو کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔ ایسا ہی صورتحال آج ہماری حکومت بھی ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں آنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نہ صرف مستحکم ہے بلکہ جمہوریت کیخلاف ہونے والی تمام سازشوں سے نبر آزما ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، تاہم حقیقت وہ نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کیونکہ اگر واقعی یہ سچ ہوتا تو پھر اسے بار بار دہرانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور حکمران اپنے اصل ایجنڈے(جو فروری 2008ءکے انتخابات کے دوران اپنایا گیا) پر تمام تر سازشوں کو نظر انداز کر کے عمل پیرا رہتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی سے اسے ”مضبوط“ کرنے کی فکر کی گئی۔ حکمرانوں کا شاید یہ خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ واقعی لازوال بن جائیں گے لیکن شومئی قسمت کہ نتائج خلاف توقع وقت سے کچھ پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے جو اب اپنے منطقی انجام تک پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس صورتحال نے جہاں پوری کی پوری اتحادی حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے وہیں کم از کم پیپلز پارٹی کو وہی غلطی دہرانے کا احساس ضرور دلادیا ہے پارٹی کے بانی بھٹو مرحوم نے ”میں نہیں میری کرسی مضبوط ہے “ کا نعرہ لگا کر کی تھی جو بالآخر انہیں بھی مہنگی ہی پڑی تھی۔ بد قسمتی دیکھئے کہ اس احساس کے باوجود موجودہ پیپلز پارٹی سبق حاصل کرنے کے بجائے اپنی ہی دھن میں مست ”سب اچھا “ کا ورد کر رہی ہے اور عوام کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مستحکم اقتدار کی وہ تصویر دکھائی جارہی ہے جس کا دوسرا رخ دیکھنے کے لیے قوم تو بے چین ہے لیکن حکومت میں شاید اس نظارے ہی ہمت ہی نہیں لیکن عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے کی کہاوت کے مصداق تلخ حقائق کا ”مشک“ ان اس قدر پھیل چکا ہے کہ حکومتی اتحادیوں کے دھڑا دھڑ بیانات کا ”ایئر فریشنر“ بھی بے سود دکھائی دینے لگا ہے اور ہر طرف سے سیاسی منظر نامے میں تبدیلیوں کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے۔

تبدیلی کی یہ کچھڑی اگرچہ ”دم“ پر ہے لیکن سیاست سے دلچسپی رکھنے اور ”بھاری مینڈیٹ“ کا انجام دیکھنے کے خواہشمندوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ”چمتکار“ آخر کیسے ہوگا کیونکہ پوری ملکی تاریخ میں ایسا صرف اس وقت ہوا جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا آپس میں ”میچ “ پڑا لیکن اب کی بار صورتحال یکسر مختلف ہے کیونکہ مسلسل ”فرینڈلی“ ہونے کے نعرے لگانے والی اپوزیشن کا انجانی مجبوریوں کے سبب مزاحمت کے حوالے سے کردار خاصا مشکوک ہوچکا ہے۔ سیاسی شائقین اس لیے بھی قدرے مایوس ہیں کہ نہ تو عوام کے سڑکوں پر آنے کے امکانات ہیں اور نہ ہی فوجی مداخلت بارے کوئی غلط فہمی اور یہی مایوسی سوالات کے لامتناہی سلسلہ کا سبب بنی ہوئی ہے لیکن باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ جس طرح حکومت حقائق کے برعکس دعوﺅں کے پل باندھ رہی ہے بالکل اسی طرح بظاہر ناممکن کو ممکن بنانے کا سامان بھی کیا جاچکا ہے اور اس مرتبہ تبدیلی کسی بیرونی نہیں بلکہ حکومت کے اپنے ہی اندرونی دباﺅ اور انتشار کا نتیجہ ہوگی۔ حکمران جس این آر او کو سہارا بنا کر ایوانوں میں داخل ہوئے تھے اسی کے چھن جانے کے بعد رخصت بھی ہونگے اور ”رخصتی“ مہینوں نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے اور رواں سال کے آخر (31دسمبر) ملک میں حیرت انگیز تبدیلیوں کا ہوم ورک بھی مکمل ہوچکا ہے۔ یہ حلقے 31دسمبر تک ملک کے سیاسی منظر نامے میں بہت سی اہم تبدیلیوں کے اشارے دے رہے ہیں جن کا آغاز این آر او زدگان کی منظر عام پر آنے والی فہرست سے ہوچکا ہے جبکہ اختتام قومی حکومت کے قیام اور پھر 6ماہ کے اندر انتخابات سے ہوگا۔ ان تبدیلیوں کے پس منظر میں این آر او کے بعد سب سے زیادہ کردار ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاﺅس میں اختیارات کی رسہ کشی ہے جو کبھی مائنس ون، کبھی مائنس ٹو اور کبھی مائنس آل کے فارمولے ایجاد کرتی رہی ہے اور بالآخر مائنس آل ہی حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

اگرچہ صدر کی جانب سے بار بار سترھویں ترمیم اور مشرف دور کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل اور سروسز چیفس کی تقرریوں کے اختیار ات 1973ء کے آئین کے مطابق پارلیمانی نظام حکومت کے سربراہ وزیر اعظم کو منتقل کرنے کا نعرہ لگایا جاتا رہا ہے تاہم بعض مجبوریوں نے آصف علی زرداری کو اس پر عمل نہیں کرنے دیا لیکن مشیر جناب صدر کو جن اختیارات کو ہی اصل ہتھیار بتاتے رہے ہیں اب وہی ان کے اقتدار کی نیا ڈبونے کا سبب بنیں گے کیونکہ دسمبر کے آخر تک پاکستان میں آنے والے 90دن کے اندر قومی حکومت کے قیام اور چھ ماہ کے اندر عام انتخابات کرائے جانے کے ساتھ ساتھ ذرائع یہ خبریں بھی دے رہے ہیں کہ ماہ دسمبر ہی کے دوران پارلیمنٹ سترھویں ترمیم اور اس کے لیگل فریم ورک آرڈر دونوں کو ختم کر دے گی جس کے نتیجہ میں صدر آصف علی زرداری کے پاس اسمبلیاں توڑنے اور سروسز چیفس کی تقرری کے اختیارات ختم ہوجائیں گے۔ صرف سیاستدانوں کی بات ہوتی تو شاید بچاﺅ کی کوئی راہ نکل آتی لیکن امسال فوج کے بیشتر اعلیٰ عہدیداروں کی قریب آتی ریٹائر منٹ بھی اس سلسلہ میں بنیادی کردار ادا کرے گی کیونکہ عسکری قوتیں کسی بھی صورت میں صدر آصف علی زرداری کی من پسندیاں تقرریاں برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں لہٰذا فوجی قیادت کی جانب سے صدر پر اختیارات چھوڑنے کے لیے دباﺅ مسلسل بڑھ رہا ہے جبکہ سب سے بری خبریں امریکہ کی ”بیوفائی“کے حوالے سے سامنے آرہی ہیں جن کا لب لباب بھی یہی ہے کہ انکل سام کا موڈ بھی تبدیل ہوچکا ہے جس کی ایک جھلک حال ہی میں بش کی بعد باراک اوبامہ کی جانب سے ”ڈو مور“ کا مطالبہ ہے جو دوسرے الفاظ میں واشنگٹن کی ناراضگی ہی کا عندیہ ہے اور یہ سارے عوامل ایسے ہیں جو مائنس آل فارمولے کی پہلی”شق“ پر عمل کے تحت آصف علی زرداری کو رفیق تارڑ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

آصف علی زرداری سے اختیارات واپس لیے جانے کے دعویداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی صورت میں بھی صدر مملکت ”بہت کچھ“ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے کیونکہ بہر حال وہ بر سر اقتدار جماعت کے سربراہ ہیں اور اسی عہدے کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے ”شریک“ بننے والے وزیر اعظم کا پتہ صاف کر نے کی پوزیشن میں ہونگے جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مائنس ون کے بعد مائنس ٹو فارمولا بھی حقیقت کا روپ دھار لے گا اور ”ان ہاﺅس“ تبدیلی کی تحریک زور پکڑے گی لیکن وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی جو کہ اپنی اہلیہ پر این آر او سے فائدہ اٹھانے کا الزام ثابت ہونے کی صورت میں مستعفی ہونے تک کا اعلان کر چکے ہیں اپنے ساتھ ساتھ این آر او زدگان جن میں سے کم از کم 67موجودہ سیٹ اپ میں اعلی عہدوں پر ہیں سمیت کو بھی گھر کی راہ دکھانے کی ٹھان چکے ہیں اور کابینہ میں تبدیلیوں کی خبریں اسی سلسلہ ہی کی کڑیاں ہیں۔ ان کے جلال کی زد میں آنے والوں میں سر فہرست صدر کے متعمد خاص اور وزیر داخلہ رحمن ملک ہونگے جن کے تبدیلی کے لیے ملک کے ایک اہم ترین محکمے نے باقاعدہ مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے جبکہ بعض دیگر وزراء بھی اپنی اپنی سیٹیں بچانے کے لیے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں، وزیر اعظم کی جانب سے کابینہ میں رد وبدل سترھویں ترمیم کے خاتمے کی منظوری کے بعد ”با اختیار“ حیثیت میں ہوگا اور یوں وہ گھمسان کا رن پڑے گا کہ اتحادیوں کی علیحدگی کے ساتھ ساتھ خود پیپلزپارٹی زرداری اور گیلانی گروپ میں تقسیم ہوکر ایسے انتشار کا سبب بنے گی جو بالآخر مائنس آل پر منتج ہوگا۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54874 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.