فوج کا احترام لازم ہے ،مان جاؤ جھوٹے حکمران ہار
گئے ،مگرعمران و قادری کا حق و سچ جیت گیا..
نوازشریف کی الیکشن دھاندلی کے بعد مذاکراتی عمل اور ایف آئی آرمیں بھی
دھاندلیاں ....؟؟
آج پل پل بل کھاتی ، للچاتی، اِٹھلاتی ،اور منہ چڑھاتی ڈرامائی صورتِ حال
میں کالم لکھنااِنتہائی مشکل ہوگیاہے،اَب جب کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
مُلک میں موجود اپنی نوعیت کے سب سے انوکھے سیاسی بحران کا اُونٹ کسی کروٹ
بیٹھنے کا اشارہ دیتاہوا نظرآناشروع ہوگیاہے تو پھراِس پر کچھ لکھنا اور
کہناآسان لگنے لگاہے ورنہ تو لکھنے والوں کے لئے یہ بہت مشکل ہوگیاتھاکہ وہ
کیا اور کس کے لئے لکھیں اور اپنی کو ئی سوچ کسی کو دیں..؟؟
بہرکیف ...!آج معلوم ہواکہ ہمارے حکمران اور سیاستدان ضدی اور ناسمجھ بچوں
کی طرح ہیں اِنہیں اپنی تربیت کرنے کے لئے کسی سمجھ دار سے ضرور رہنمائی
لینی چاہئے اور آج میرے دل میں اپنی فوج کا احترام بڑھ گیاہے اور دعاہے کہ
ہماری فوج مُلک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے دھرنیوں اور
مارچیوں کی خواہش کااحترام کرتے ہوئے کوئی مثبت اور تعمیری راستہ نکالے گی
اور اُن جھوٹوں کو کھلے دل و دماغ سے ایساسبق سکھائی گی کہ پھر کوئی
ایساجھوٹ نہیں بول پائے گا۔
آج جیساکہ نو از و نثار نے فوج کو ’’ سہولت کاربننے کا کہہ کر ثالثی بننے
سے انکارکرکے‘‘ الفاظ کے گورکھ ددھندے سے پاک فوج کے وقار کو مجروح کرنے کی
پوری کوشش کی ہے،اَب ایسے میں قوم کو ا پاک فوج کااُسی طرح احترام لازم ہے،
جس طرح پہلے تھا،اوراَب اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری سیاسی قیادت
مُلکی تاریخ کے سب سے انوکھے سیاسی بحران کو حل کرنے میں بُری طرح سے ناکام
ہوگئی ہے، حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جتنے بھی مذاکراتی عمل
کئے گئے اِس سارے عمل میں حکومت اپنے غیر مناسب رویوں اور لچک کا مظاہر ہ
نہ کرنے کے باعث خود ہی پھنستی چلی گئی ہے، اور جب اِس نے یہ دیکھاکہ پانی
اِس کے سر سے اُونچاہونے کو ہے تو وزیراعظم نوازشریف جنہیں یہ گمان تھاکہ
سوائے ایک جماعت کے ساری جماعتیں اِن کے حق میں ہیں وہ کسی بھی صورت
استعفیٰ نہیں دیں گے مگراِس باوجود بھی اُنہوں نے میڈیا ٹرائل کے طور پر ہی
فوج کو ثالثی بننے کا کہہ دیااور جب وزیراعظم نوازشریف کو اپنی جماعت اور
اپوزیشن سے اپنے کئے گئے فیصلے کے بار ے میں مخالفت شروع ہوتی ہوئی نظرآئی
تو وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب اور چوہدری نثارخان نے اپنی
پریس کانفرنس کے دوران یہ کہہ کر فوج اور قوم کو حیران کردیا کہ ’’ ایک
نہیں دس حکومتیں قربان کرسکتاہوں فوج کو ہم نے ثالث نہیں بنایا، فوج نے
ثالثی کاکردار مانگانہ ہم نے اُس خواہش کا اظہارکیا، منصب اور حکومتیں آنی
جانی ہیں، نظریئے اور اصولوں پہ سمجھوتہ نہیں کرونگا، آئین کے تحفظ کا حلف
اُٹھایا ہے، ایک ایک حرف کی پاسداری کریں گے،عمران خان اور طاہر القادری کی
خواہش پہ آرمی چیف سے ملاقا ت کی اجازت دی، سب جانتے ہیں مجمع اکٹھاکرنے
والے سچ اور جھوٹ بولتے ہیں‘‘اور پھر اِسی کے تسلسل میں چوہدری نثارعلی خان
نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں برملاکہہ دیاکہ ’’عمران او ر قادری کا کسی
ادارے پر اعتمادنہیں لہذافوج کی خدمت بطورسہولت کارلی ،اور نثارعلی خان کا
یہ بھی کہنا تھاکہ ’’ آئی ایس پی آر کا بیان میری اور حکومت کی مشاورت سے
جاری ہوا،(گویا کہ وہ جیسے یہ کہناچاہ رہے ہوں کہ فوج اور حکومت ایک پیچ پر
ہے اور فوج نے جو بیان جاری کیا اِسے جاری کرنے سے پہلے فوج نے حکومت سے
ڈکٹیشن لی تھی تو کیا قوم یہ سمجھے کہ فوج جو ایک خودمختار ادارہ ہے اوروہ
جو بھی کرتاہے کیا ہر معاملے میں حکومت سے منظوری لینی ضروری ہوتی ہے( ۔
بہرحال... !چوہدری نثارعلی خان نے آگے چل کر اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی
کہاکہ ’’ فوج کو سہولت کارکا دیاگیااختیارآئینی ہے ، اِسے بدنام نہ کیاجائے
‘‘ چوہدری نثارکا یہ کہنابیشک اپنے اندار بے شمار معنی مطلب چھوڑ گیاہے ۔
جبکہ اُدھر وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کے
الفاظ کے گورگھ دھندے پر پاک فوج نے اپنا یہ وضاحتی بیان جاری کیا کہ
’’وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات میں موجودتعطل کے حل کے لئے کرداراداکرنے کی
درخواست کی گئی ‘‘فوج کی جانب سے وضاحتی بیان آنے کے بعد حکومت کا خود ہی
اپنی ضداور اَناکے جال میں پھنسنایقینی طورپر نظرآنے لگاہے،اور اِس پہ ستم
یہ کہ مُلک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈراور
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماخورشیدشاہ اورمحموداچکزئی نے اپنے خطابات
کے دوران کہاکہ’’ موجودہ سیاسی بحران میں اگرحکومت کسی کے سامنے جھک بھی
گئی تو پاکستان پیپلزپارٹی کسی صورت نہیں جھکے گی، وزیراعظم ڈٹ جائیں دھرنے
والوں کو اسلام آبادجلانے دیں آئین کے ہر صفحے کی حفاظت کریں گے، ہم
جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ موجودہ سیاسی بحران میں حکومتی
اور اپوزیشن کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ واعظ وزیراعظم کو اپنے
زبانی کلامی تعاون کا یقین دلانے میں لگے پڑے ہیں جبکہ اِن کی حیثیت کسی
بھی اقدام کے سامنے ایک ریت کے ٹلے جتنی بھی نہیں ہے اور مُلک کی موجودہ
سیاسی صورت حال میں وہ بھی اندرسے یہ چاہ رہے ہیں کہ نوازحکومت کا
جلدازجلدخاتمہ ہواور یہ اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی عبرتناک انجام کو
پہنچے اور تیسری مرتبہ وزارتِ عظمی ٰ کا حلف اُٹھانے والے وزیراعظم
نوازشریف کی اِس طرح حکومت جائے کہ آئندہ پھر کوئی اچھے لفظوں سے نہ
نوازشریف کو یادکرے اور نہ ہی اِن کی حکومت کو یادرکھے جب بھی نوازشریف اور
اِن کی تیسری حکومت کا تذکرہ چھڑے اور لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔
آج یہ بات نوازشریف اور اِن کے وزراء کو سوچنی چاہئے کہ آج کیا جو اپوزیشن
کی جماعت کے جوشیلے واعظ اسمبلی میں خطاب کررہے ہیں وہ کیا سب اندر سے بھی
اتنے ہی مخلص ہیں یا اِن کا خلوص صرف زبان کی نوک اور حلق سے الفاظ نکالنے
اور دوسروں کے کانوں کے پردوں سے ٹکڑانے تک ہی محدودہے، آج یہ بھی سب جانتے
ہیں کہ کیوں حکومت کے تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے مذاکرات کس طرح اور
کس موڑ پر ناکام ہوئے ہیں...؟مذاکراتی عمل میں ناکامی کی ذمہ دار بھی
سوفیصدحکومت ہے، اِس نے کبھی بھی مذاکراتی عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اِس
کی وجہ حکمرانوں کا وہ بادشاہانہ گھمنڈاور تکبرہے جو اِن میں اول دن سے ہی
پروان چڑھاہے ، اُنہوں نے سمجھا کہ اَب اقتداراِن کی مٹھی میں ہے ،اور یہ
جس طرح سے چاہیں اِس کا استعمال کریں کوئی پوچھنے والانہیں ہے،مگراَب جبکہ
حکمران اپنے پندہ سولہ ماہ کے اقتدارکے بعد اپنی کرنی اور کرتوتوں کے
ہاتھوں کڑے سیاسی بحران میں پھنس کر آزمائشوں اور امتحانوں سے گزررہے ہیں
تو تب بھی اِن کا بادشاہانہ غروراور تکبرختم ہونے کو نہیں آرہاہے اور یہ
اِسی گھمنڈمیں مبتلاہیں کہ یہ کسی دباؤ میں آکر استعفیٰ کیوں دیں..؟ اوراِس
طرح اپنے جعلی مینڈیٹ کا قتل کیوں کریں ..؟آج اگر اِنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں
اپنے مینڈیٹ کا خاتمہ کردیاتواِنہیں ایساپھر دوبارہ دھاندلی سے جعلی مینڈیٹ
نہیں مل پائے گا، اور اَب شاید یہ آئندہ اقتدارمیں بھی نہ آسکیں، لہذاکچھ
بھی ہوجائے،اِنہیں استعفیٰ تو دیناہی نہیں ہے، بھلے سے آئین کا شیرازہ
بکھرجائے، یا مُلک اُلٹ پلٹ ہوکررہ جائے،اِنہیں جمہوریت کی تحفظ کی آڑ میں
اپنے اقتدارکو چھوڑنانہیں ہے ،اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر سانحہ ماڈل
ٹاؤن کے 14افرادکی شہادت پر اپنے خلاف درست ایف آئی آر بھی نہیں کٹوانی ہے
، کیونکہ اگرایساہوگیاتو پھر ہماری بدمعاشی کے ساتھ جاری بادشاہت کا کیا
فائدہ ہوگا...؟اِس طرح یہ ختم ہوجائے گی۔
جبکہ اُدھر حکومت کی اِسی ہٹ دھرمی کے خلاف30اگست سے عمران خان نے مُلک کے
چارشہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں بھی احتجاجی مظاہروں کا
اعلان کردیاہے اور آزادی مارچ کو مُلک بھرمیں پھیلانے کا دعویٰ کرکے اپنے
مظاہروں میں شدت پیداکردی ہے اور کہاہے کہ جب تک وزیراعظم جھوٹ بولنے پر
معافی نہیں مانگیں گے اور استعفی نہیں دیں گے ہمارے مظاہرے جاری رہیں گے
اور علامہ طاہرالقادری نے بھی اپنی ڈیڈلائن میں توسیع کردی ہے اَب ، اِس
میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور اِن کی چالاکی اور اعیار
ی سے روکھارکھاجانے والاغیرلچکدارانہ رویہ ہی موجودہ سیاسی بحران کے ڈیڈلاک
کو طول دینے اور آنے والے دِنوں میں حالات کو خراب کرنے کی ذمہ دارہوگا ۔
آج مُلک کو درپیش سیاسی بحران کے منظر اور پس منظر کی نزاکت کو بھانپتے
ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف حُسین نے بھی کہہ دیاہے کہ
’’ مُلک گزشتہ 15،20روز سے انتہائی نازک ترین صورتِ حال سے دوچارہے
،پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں ہے، اوراُنہوں نے کہاکہ حکومت
کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلورپر مسلح افواج کی ساکھ مجروح کی گئی ہے مسلح
افواج کو چاہئے کہ وہ آئین میں رہتے ہوئے اپنی رٹ بحال کرے اور پاکستان کو
بچانے کے لئے اُسے کڑوے اور ناپسندیدہ اقدامات بھی کرناپڑیں تو کرے اِن کا
کہناہے کہ وزیراعظم کی جگہہ میں ہوتاتواستعفیٰ دے دیتا،بحران کے حل کے لئے
قومی حکومت تشکیل دی جائے ‘‘ آج متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف
حُسین کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب مُلکی تاریخ کی سب سے بے حس
حکومت اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے اور اِس نے پاک فوج کو بھی خود سے
سیاسی بحران میں ملوث کرکے اِس کابھی میڈیاٹرائل کیاہے حالانکہ پاک فوج
موجودہ سیاسی بحران سے دوررہناچاہتی تھی مگر نوازحکومت نے اِسے بھی شامل
کرکے اپنے ساتھ اِس کابھی مذاق بنادیاہے تو ایسے میں یقیناایم کیوایم کے
قائد الطاف حُسین کا یہ بیان آجاناپاک فوج کے ساتھ ملی یکجہتی اور اِس کی
رٹ قائم کرانے کے ساتھ ساتھ اِس کاوقاربحال کرنے کے مترداف ہے اور اَب راقم
الحرف کا بھی یہی خیال ہے کہ پاک فوج مُلک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے
اپنا کردار اداکرے اور دھرنیوں اور مارچیوں کو اِن کی خواہشات کے عین مطابق
انصاف دلائے۔
اَب یقینی طور پر حکومتی الفاظ کے گورکھ دھندے کے بعد مُلک کو سیاسی بحران
سے نکالنے کے لئے پاک فوج کوئی نہ کوئی کردارضروراداکرناپڑے گاآج اگر پاک
فوج اپناکوئی بھی کردار ادانہ کیا اور قوم کو مایوسی ہوگی اور اگر موجودہ
بادشاہت نماحکمران رہ گئے تو یہ قوم کے خون کا ایک ایک قطرہ بھی نچوڑ لیں
گے اور مُلک کو بیچ کھائیں گے ،آج ساری پاکستانی قوم کی نظرفوج کی جانب لگی
ہوئی ہے اور قوم کو یہ اُمیدہے کہ اَب حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ناکامی
کے بعد صرف پاک فوج ہی ہے جو مُلک اور قوم کو اِس عصاب شکن سیاسی بحران سے
نکالنے میں اپنا کرداراداکرکے اپنی رٹ قائم کرسکتی ہے ، اِس کے لئے چاہئے
فو ج کو ماضی میں حکومتیں ہٹانے والے طریقہ کارکو ہی اپنانا پڑے تو اِس پر
بھی عمل کرکے مُلک کو سیاسی بحران سے نکالنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے
۔
مُلک کی موجودہ نازک سیاسی صورتِ حال میں راقم الحرف کا یہ بھی خیال ہے آج
اگرحکومت پاک فوج کو ثالثی، ضامن اور سہولت کارکا کردار اداکرنے کی دعوت نہ
بھی دیتی توپھر بھی فوج کوہی اپنا کردار اداکرناپڑتامگر بس...تب صرف فرق یہ
ہوتاکہ فوج حاکم الوقت کو اپنی سابقہ روایات کے مطابق راستے سے ہٹاتی تو
صورتِ حال کچھ اور ہوتی اور آج جب فوج حاکم الو وقت کی دعوت پر ثالثی
کرداراداکرکے کچھ کرے گی تو یہ صورت حال قابلِ دیداور لائقِ احترام تصورکی
جائے گی آج یقینادھرنوں اور آزادی وانقلاب مارچ کے پیچھے چھپی ہوئی حکمتِ
عملی سے حکمران بھی واقف تھے مگر لگتاہے کہ جیسے یہ بھی دھرنیوں اور
مارچیوں سے کھیل رہے تھے۔
بہرحال ..!وزیراعظم نوازشریف کو پتہ تھاکہ اگر آج وہ فوج کو خود ثالث کا نہ
کہتے تو آنے والے لمحات میں جو حشرہوتاوہ 12اکتوبر1999سے بھی زیادہ عبرت
ناک ہوتاوہ تو اچھا ہواکہ نوازشریف نے اپنی عز ت خوداپنے ہی ہاتھ رکھ لی
ورنہ تو وہ ہوجاتاجِسے دنیاصدیوں یادرکھتی ، ثالث کی پیشکش پہ فوج کو بھی
حیرانگی ہوئی ہوگی اور وہ اَب تک ششسدرہے کہ نوازشریف کو سیاسی سمجھ آگئی
ہے، اور جہاں تک عمران اور قادری کی بات ہے وہ تو پہلے ہی اُسی کے تھے جس
نے یہ معاملہ حل کیا وہ سیاسی بحران کو اِس نہج تک لے آئے تھے کہ اِنہیں بس
دمادم مست قلندرکرنے کی کال دینی تھی،اگرچہ فوج کے ثالثی کردار سے مُلکی
تاریخ کا سب سے بڑااور سنگین سیاسی بحران ضرورحل ہوگیاہے مگر اِس سارے عمل
کے دوران جو عناصر اور محرکات متحرک تھے اِن کا بھی پتہ لگانا بہت ضروری
ہوگیاہے۔ |