پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر چودہ اگست کو لاہور سے
آزادی و انقلاب مارچ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے روانگی سے قبل تحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم نواز
شرفی استعفیٰ تیار رکھیں،طاہرالقادری نے بھی اسلام آباد پہنچ کر اسی بات کا
اعلا ن کیا تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں ،آج تحریک انصاف اور عوامی تحریک
کے دھرنوں کو چودہ روز گزر گئے،روزانہ انقلاب انقلاب،گو نواز گو ،گو نواز
گو،ہم بنائیں گے نیا پاکستان کے نعرے لگتے ہیں،پر جوش تقاریر ہوتی
ہیں،آزادی کا جشن منایا جاتا ہے ۔۔۔ڈیڈ لائن دی جاتی ہیں اور اگلے روز پھر
اگلے دن کی ڈیڈ لائن،حکومت نے شروع میں تو لاہور سمیت دیگر شہروں کو بند کر
دیا تھا مگر چودہ اگست کو سب راستے کھول دیئے گئے اور اسلام آباد پہنچنے کے
بعد دھرنوں کے شرکاء کو ریڈ زون میں بھی جانے دیا گیا ،اب ریڈ زون میں کل
تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کر دیئے
ہیں،اسحاق ڈار،گورنر پنجاب و سندھ طاہر القادری کو نہ منوا سکے ،عمران خان
کی مذاکراتی ٹیم اور حکومتی ٹیم بھی مذاکرات کو کسی نتیجے پر نہ پہنچا سکیں
کیونکہ عمران خان کا پہلا مطالبہ وزیر اعظم کا استعفیٰ ہے اس کے بعد آگے
مذاکرات ہونے تھے لیکن حکومت یہ پہلا مطالبہ کسی صورت ماننے کو تیار
نہیں۔طاہر القادری نے اگرچہ کچھ لچک دکھائی اور مذاکراتی ٹیم کو شہباز شریف
کا استعفیٰ کہا لیکن حکومت استعفوں کی طرف کسی صورت نہیں آ رہی یہی وجہ ہے
کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے۔آزادی و انقلاب مارچ و دھرنوں کی وجہ
سے اگرچہ حکومت پر دباؤ بڑھا لیکن حکومتی حلقوں میں اطمینان ہے، وزیراعظم
محمد نواز شریف نے تحریک انصاف، عوامی تحریک کی جانب سے اپنے استعفیٰ کے
مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا
ہے اور میں اپنے حلف پر کبھی آنچ نہیں آنے دونگا‘ جمہوریت کا راستہ روکا
گیا تو سب مل کر مقابلہ کرینگے ہم احتجاج سے گھبرانے والے نہیں پہلے بھی
ایسی اونچ نیچ دیکھی ہے‘ کبھی مشکلات کا رونا بھی نہیں رویا‘ پارلیمنٹ کا
جمہوریت پر اعتماد پوری قوم کی فتح ہے‘ بحران وقتی ہے ٹل جائیگا۔ حکومت کا
احتساب بالکل ہونا چاہئے‘ حکومتیں اور وزراء اعظم آتے جاتے رہتے ہیں اصل
چیز آئین اور جمہوریت کی بالادستی اور ملک کا مستقبل ہے‘ اچھے کاموں پر
ساتھ بھی دینا چاہئے۔ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔
احتجاج سے ملکی ترقی کا سفر بری طرح سے متاثر ہوا ہے‘ سینکڑوں اربوں کا
نقصان ہوچکا ہے‘ ہم پہلے سے زیادہ تیزی سے ترقی کا سفر شروع کرینگے‘ چین سے
لاہور کراچی موٹروے کی بات ہوگئی‘ گوادر‘ بلوچستان کی ترقی‘ داسو ڈیم کے
انقلابی منصوبوں پر تیزی سے کام ہوگا‘ میں ملک کے تمام طبقوں کا آئین‘
قانون اور جمہوریت کی بالادستی کیلئے ساتھ دینے پر شکر گزار ہوں۔مختلف
سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے وزیراعظم محمد نوازشریف کو کسی بھی
دباؤ میں استعفی نہ دینے کا مشورہ دے دیا اور کہا ہے کہ وزیر اعظم کا
استعفیٰ پارلیمنٹ کی توہین ہوگی ، پارلیمانی لیڈروں نے قومی اسمبلی کے
اجلاس کے بعد وزیراعظم محمد نوازشریف سے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم چیمبر
میں ملاقات کی ۔ملاقات کرنے والوں میں سید خورشید شاہ، محمود اچکزئی، غلام
احمد بلور،فضل الرحمان، آفتاب شیرپاؤ،ڈاکٹر فاروق ستار، حیدرعباس رضوی، سید
نوید قمر،سردار ثناء اﷲ زہری اور وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، عبدالقادر
بلوچ اور دیگر رہنماء شریک ہوئے۔ پارلیمانی لیڈر وں کو دونوں جماعتوں سے
مذاکرات کے بارے اعتماد میں لیا گیا اور بتایا گیا کہ تحریک انصاف اور
عوامی تحریک وزیراعظم کے استعفی سے کم پر راضی ہونے کو تیار نہیں۔
پارلیمانی لیڈروں نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا
جا سکتا۔ صرف آئینی مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اس کے
لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد خورشید شاہ نے کہا
کہ ہم نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ کوشش کی جائے کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو۔
ڈاکٹر طاہرالقادری سے براہ راست بات کی جائے گی۔ پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت
کا تحفظ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔وزیراعظم کو عدم اعتماد سے ہی ہٹایا جا
سکتا ہے،اگر آج دباؤ سے وزیراعظم سے استعفی لیا جائے گا تو پھر کل کیا
ہوگا۔ تحریک انصاف سے مائنس وزیراعظم کے علاوہ دیگر مطالبات پر بات ہو سکتی
ہے۔ انتخابی دھاندلی کے معاملہ پر سپریم کورٹ کا پانچ رکنی کمیشن بن رہا
ہے۔ اگر انتخابی دھاندلی ثابت ہوجائے تو پھر پوری پارلیمنٹ جانی چاہیے اور
دوبارہ انتخابات ہونے چاہئیں، اس سے پہلے ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر اعظم
ہاؤس میں وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورتحال پر
تبادلہ خیال کیا۔ایم کیو ایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی ، فاروق ستار،
باہر غوری اور حیدر عباس رضوی شامل تھے۔ ملاقات کے بعد متحدہ قومی مومنٹ کے
رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دھرنے دینے والوں کو کسی بھی صورت منایا
جائے، وزیر اعظم یہ نہ دیکھیں کہ اس سے کیا روایت قائم ہوگی۔ ایم کیو ایم
کے قائد الطاف حسین نے کوشش کی ہے کہ اس وقت ملک جس بحران میں ہے اس کا حل
نکالا جائے۔ وہ احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت سے مسلسل اپیل کررہے
ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں، اسی غرض سے ہم نے پاکستان
عوامی تحریک، چوہدری شجاعت حسین، شیخ رشیداحمد، جاوید ہاشمی، مولانا فضل
الرحمان ، خورشید شاہ اور وفاقی وزرا سے ملاقات کی۔وزیراعظم سے ملاقات کے
دوران ہم نے انہیں ان تمام رہنماوں سے ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا اور
وزیراعظم نے بھی ہماری باتوں کو کھلے دل سے سنا، انہیں محسوس ہوا کہ وہ بھی
پورے اخلاص کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھی گنجائش ہے اور
تھوڑی کوشش کی جائے تو مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے، حکومت بڑی فریق ہے اور
اسے بڑے دل کا مظاہرہ کرناہوگا، ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے
ہیں، آج کا دن انتہائی اہم ہے، انا کو ایک جانب رکھ کر دھرنے دینے والوں کو
کسی بھی صورت منایا جائے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی
بھی نہ ٹوٹے۔ ہم ریاست کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے
وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ اس وقت یہ نہ دیکھا جائے کہ کیا روایت قائم ہوگی۔
مطالبوں کی نوعیت اور اس کے طریقہ کار پر بات کرنا ایک الگ بحث ہے لیکن
ہمیں ملک کے وسیع تر مفاد اور اس کے استحکام کے لئے سوچنا چاہیئے۔
انتہاپسندی اور دہشتگردی بہت بڑا چیلنج ہے اور اس سلسلے میں پاک فوج کا
آپریشن ضرب عضب بھی کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کو مستحکم کرنا
ضروری ہے۔ |