بیت الحکمہ ،ہمدردیونیورسٹی کے لائبریرین
یہ آج کی بات نہیں تقریباً ۳۰ برس پہلے کی بات ہے جامعہ کراچی کا شعبہ
لائبریری سائنس ، جامعہ کی لائبریری (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری) کی
پانچویں منرل پر قائم تھا۔شعبہ کے سابق طلبہ کی انجمن ’کراچی یونیورسٹی
لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن (کلسا) کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے۔
میں اس وقت ایم اے سال دوم کا طالب علم تھا ۔ کیوں کہ سال اول (پوسٹ
گریجویٹ ڈپلومہ ) مکمل کر چکا تھا لہٰذا کلاس کے تمام ساتھی اس انجمن کے
رکن کی حیثیت سے ووٹ دینے کے حقدار تھے ۔ انتخابات میں دو گروپ مدِ مقابل
تھے ان میں سے ایک گروپ کی سربراہی رشید الدین احمد کررہے تھے جو ماسٹر
رشید کے نام سے معروف تھے۔آپ ایسو سی ایشن کے چیر مین کے عہدے کے امیدوار
تھے۔انتخابی مہم کے سلسلے میں ماسٹر صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شعبہ میں س
تشریف لائے ، اپنا تعارف کرایا اور ہم طلبہ کو اپنے حق میں ووٹ دینے لیے
قائل کرنے کی کوشش کی ۔ ماسٹر صاحب کی شخصیت متاثر کرنے والی تھی۔ گفتگو
بہت ہی دہیمے لہجے میں ٹھہر ،ٹھہر کر نا آپ کی عادت تھی۔لیڈرانہ تمکنت
قطعاً نہیں تھیں۔ برٹش کونسل میں ملازم تھے ، ظاہری طور پر بھی صاف ستھرا
لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ماسٹر صاحب سے جو تعلق ۱۹۷۲ء میں قائم ہو ا وہ
پیشہ ورانہ معا ملات کے حوالے سے قائم رہا جو تقریباً ۲۷ برس پر محیط ہے۔
اس دوران آپ بارہ برس لیبیا میں بھی رہے ۔ اپنے انتقال کے وقت آپ بیت
الحکمہ (ہمدرد لائبریری) سے وابستہ تھے۔ ۲۵ جون ۱۹۹۵ء بروز اتوار دوران غسل
پاؤں پھسل کر گر جانے کے باعث سر کی چوٹ سے جانبر نہ ہوسکے اور اپنے خا لقِ
حقیقی سے جاملے۔
ماسٹررشید مرحوم ۱۰ جون ۱۹۳۰ء کو ہندوستان کے شہر کانپور میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم کانپور میں ہی حاصل کی ۱۹۴۴ء میں اے ایس جوبلی کالج مرزاپور
سے میٹرک، پرسٹ پرچ کالج کانپور سے ۱۹۴۶ء میں بی اے اور ۱۹۵۱ء میں آگرہ
یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی سند حاصل کی۔پاکستان ہجرت کے بعد ۱۹۵۵ء
میں بی ٹی کیا اور ایک استاد کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز
کیا۔۱۹۶۶ء میں دوران ملازمت آپ نے شعبہ لائبریری سائنس ، جامعہ کراچی میں
داخلہ لیا۔ آپ کے ساتھیوں میں عبدالقیوم لطفی، مطلوب حسین مرحوم، ممتاز
بیگم، واصل محمد صدیق ا ور علامہ واصل عثمانی خاص طور پر شامل تھے۔ڈپلومہ
میں آپ کی اول پوزیشن تھی ، ڈپلومہ کر نے کے بعد لائبریرین شپ کے پیشہ سے
وابستہ ہوگئے جس کے باعث ایم اے فائنل نہ کرسکے، امریکن سینٹر مین ملازمت
مل گئی ۔ چار سال بعد ایم اے لائبریری سائنس میں دوبارہ داخلہ لیا ، اس بار
بھی آپ کی اول پوزیشن تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماسٹر رشید ایک ذہین اور
محنتی شخص تھے آپ کی قابلیت میں کوئی شک نہ تھا۔ آپ کو بجا طور پر لائبریری
شپ کا درخشاں ستا رہ کہا جا سکتا ہے۔
ماسٹر رشیدنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز چرسٹ کالج لائبریری کانپور سے
کیا جہاں پر آپ شام کی شفٹ کے انچارج لائبریرین تھے۔ساتھ ہی انگریزی کے
لیکچرر کی حیثیت سے بھی ایک سال خدمات انجام دیں۔پاکستان ہجرت کرنے کے بعد
گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول ، ملیر کینٹ میں استاد کی حیثیت سے تدریس کا
آغاز کیا۔ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ لائبریری کے انچارج بھی تھے۔ یہاں آپ
نے ۸ سال(۱۹۵۵ء۔۱۹۶۲ء) خدمات انجام دیں۔۱۹۶۲ء میں امیریکن سینٹر سے منسلک
ہوئے جہاں پر ۱۲ سال(۱۹۶۲ء ۔۱۹۷۴ء) لائبریری خدمات انجام دیں اور اسسٹنٹ
لائبریرین، سپر وائزر اور چیف لائبریرین کی حیثیت سے کراچی، حیدر آباد،
پشاور اور کوئٹہ میں کام کرتے رہے ۔کوئٹہ میں ہوتے ہوئے آپ نے بلوچستان
پبلک لائبریری کوئٹہ کے کیٹلاگ کی از سر نو تدوین اور ترتیب کے کاموں کی
نگرانی کی۔۱۹۷۴ء میں آپ کا تقرر سینٹرل لائبریری الفتح یونیورسٹی ٹریپولی،
لیبیا میں بحیثیت اسسٹنٹ لائبریرین ہوا اور آپ نے بارہ سال (۱۹۷۴ء ۔۱۹۷۶ء)
خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۷ء میں آپ واپس وطن آئے اور حکیم محمد سعید کے کتب
خانہ ہمدرد لائبریری سے منسلک ہوگئے۔ یہ لائبریری جو ابتداء میں حکیم محمد
سعید کا ذاتی کتب خانہ تھا ہمدرد لائبریری بنی بعد ازاں’’ بیت الحکمہ‘‘
کہلائی۔رشید الدین احمد کو بیت الحکمہ کا اولین لائبریرین ہونے کا اعزاز
بھی حاصل ہے۔آپ اپنے انتقال (۲۵ جون ۱۹۹۵ء) تک اس کتب خانہ سے وابستہ
تھے۔یہاں آپ کی خدمات ۸ سال ۵ ماہ پر محیط ہیں اس طرح ماسٹر صاحب کی عملی
زندگی کا آغاز ۱۹۵۰ء میں ہندوستان کے شہر کانپور سے ہوا اور ۵۴ سال بعد
پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام پذیر ہوا۔
ماسٹر صاحب ایک ملنسار ار دوسروں کے کام آنے والے انسان تھے انہیں دوسروں
کی مدد کرکے تسکین ہوتی تھی۔امریکن سینٹر کے کامیاب ترین ریفرینس لائبریرین
میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور فلاح وبہبود کے کاموں میں
ذوق و شوق سے حصہ لیا کرتے۔۱۹۴۸ء ۔۱۹۴۹ء میں آپ چرسٹ کالج کانپور کے کالج
میگزین کے اردوسیکشن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے، ۱۹۶۴ء ۔۱۹۶۶ء میں آپ حریت ایجو
کیشن سوسائٹی کے نائب صدر مقرر ہوئے۔ لائبریرین شپ میں آپ کی پیشہ ورانہ سر
گرمیوں کا آغاز ۱۹۶۲ء میں ہوا، اسی سال آپ کو پاکستان لائبریری ریویو کا
ایڈیٹر مقرر کیا گیا بعد ازاں ۱۹۷۰ء میں آپ کو اسی رسالہ کا ایسو سی ایٹ
ایڈیٹر مقرر کیا گیا ، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کے قدیم طلبہ کی
انجمن (کلسا) کے آپ دوبارہ ۱۹۶۹ء اور ۱۹۷۲ء میں چیر مین منتخب ہوئے۔پاکستان
لائبریری ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں بھی حصہ لیا اس کے خازن بھی منتخب
ہوئے۔
رشید صاحب کے علم کی روشنی میں ان کا عملی کام بہت مختصر ہے۔ کیٹلاگ سازی
پر انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب Introduction of Cataloguing: theory
and practiceکے مشترکہ مصنف تھے۔ یہ کتاب لبیا سے شائع ہوئی۔ مولانا محمد
علی جوہر کی کتاب Choice of Turksکا اردو ترجمہ بعنوان’’ تر کوں کا انتخاب
‘‘کیا ۔ پیشہ ورانہ موضوعات پر آپ کے ۸ مضامین طبع ہوئے جب کہ ادب کی مختلف
اصناف پر آپ کے ۹ مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے لیکن آپ کا
زیادہ تر کام دوسروں کے کھاتے میں ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ نے مختلف مصنفین و
محققین کی مدد اورمعاونت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
خواجہ بدر الحسن اور ماسٹر رشید
ماسٹر رشید نے امریکن سینٹر میں بارہ سال خدمات سر انجام دیں جہاں پر خواجہ
بدر الحسن ان کے ساتھی، دوست بعد ازاں آفیسر بھی رہے۔خواجہ صاحب امریکن
سینٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوچکے ہیں خواجہ صاحب سے ماسٹر صاحب
کے حوالہ سے جوتفصیلی گفتگو ہوئی ذیل میں درج ہے خواجہ صاحب کے مطابق’’ ما
سٹر صاحب نے ۱۹۶۲ء میں امریکن سینٹر میں ملازمت کا آغاز کیا تو وہ مکمل طور
پر لائبریری میں تو نہ تھے البتہ ثقافتی امور کے ساتھ ساتھ لائبریری کے
امور بھی سر انجام دیا کرتے تھے۔رشید صاحب لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ
ڈپلومہ حاصل کر کے آئے تھے ‘‘۔ اس وقت خواجہ صاحب کے پاس کسی بھی قسم کی
پیشہ ورانہ سند نہیں تھی ۔ خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ ماسٹر صاحب کی شخصیت
نے انہیں لائبریری کے امور کی جانب مائل کیا اس کے بعد خواجہ صاحب نے ۱۹۶۵ء
میں پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا اس وقت سید
ولایت حسین شاہ مرحوم کورس ڈائریکٹر تھے، خواجہ صاحب نے ڈپلومہ نمایاں
حیثیت سے پاس کیا آپ کی پہلی پوزیشن آئی ۔ خواجہ صاحب نے بتا یا کہ رشید
صاحب نے انہیں متعدد لائبریری امور سے آگاہ کیا۔رشید صاحب ریفرنیس
لائبریرین تھے جب کہ خواجہ صاحب لائبریری کے انتظامی امور کے نگراں ۔ اس
وقت دونوں ایک ہی گریڈ میں تھے۔ علوی صاحب ڈائریکٹر تھے۔
خواجہ صاحب نے امریکن سینٹر پر حملہ اور آگ لگ جانے کا واقعہ سنا تے ہوئے
بتایا کہ ۱۹۶۵ء میں لائبریری پر حملہ ہوا اور آگ لگانے کا واقعہ رونما ہوا،
اس وقت خواجہ صاحب اور دیگر عملہ ڈیوٹی پر تھا ۔ جب عمارت کوآگ نے اپنی
لپیٹ میں لے لیا ، تمام لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے خواجہ صاحب نے
بتا یا کہ اس وقت ایک کمرہ کے کونے میں ہماری ڈائریکٹر جو انگریز تھی ڈری
اور سہمی ہوئی اورچھپی کھڑی تھی، انہوں نے حالات کا احساس کرتے ہوئے اپنی
ڈائریکٹر کو جو جسامت میں خواجہ صاحب سے کسی بھی طور کم نہ تھی اپنے
کاندھوں پر اٹھایا اور بیرونی دیوار سے باہر کی جانب پھینک دیا اس طرح اس
کی جان تو بچ گئی لیکن ٹانگیں وغیر ہ شدید زخمی ہوگئیں ۔ آپ کا کہنا تھا کہ
اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ ڈائریکٹر یقینی طور پر جل جاتی۔ خواجہ صاحب کو
اس کارنامہ پر State Department Award of Heroismسے نوازا گیاساتھ ہی آپ
امریکن سینٹر کی انتظامیہ کے قریب آگئے۔ چنانچہ جب لائبریری کے عملہ کو
مختلف شعبہ جات میں تبادلہ کرنے کا مرحلہ آیا تو خواجہ صاحب سے مشورہ کے
بعد مختلف احباب کا مختلف جگہ تبادلہ کیا گیا ۔ رشید صاحب کو PACCکا
لائبریرین مقرر کیا گیا۔
خواجہ صاحب نے بتا یا کہ کچھ عرصہ بعد امریکن سینٹر لائبریری کو ازسر نو
فیروز خان نون کی کوٹھی مین تر تیب دیا گیا تو اس کے کامون میں انہوں نے
رشید صاحب نے اور ارشاداحمد نے سرگرمی سے حصہ لیا۔آپ نے بتا یا کہ ماسٹر
صاحب بے پنا ہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن امریکیوں کی نظر میں
ان کی سست روی ایک کمزوری تھی ۔وہ تمام امور بہت ہی سلیقے سے انجام دیا
کرتے لیکن ان میں دھیمے پن کا عنصر شامل تھا۔شاید یہی سبب بنا کہ علوی صاحب
کے ریٹائر ہونے کے بعد ماسٹر صاحب کے بجائے خواجہ صاحب کو لائبریری کا
ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔خواجہ صاحب کے بقول امریکی سست روی کے مقابلہ میں تیز
کام کرنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں اور شایدیہی وجہ میری ترقی کا باعث
بنی۔خواجہ صاحب نے بتا یا کہ میں اور رشید صاحب کوئی سال سے ساتھی تو تھے
ہی میری ترقی کے بعد ہم آفیسر اور ماتحت کے رشتہ میں منسلک ہوگئے لیکن
ہمارے درمیان دوستی کے تانے بانے مزید بڑھتے گئے اور ہمارا تعلق جو دفتر کے
حوالہ سے تھا گھریلومراسم میں تبدیل ہوگیا ہم دونوں ایک دوسرے کے گھر آنے
جانے لگے۔کیرم کھیلنا ہمارا مشترکہ مشغلہ تھا، ماسٹر صاحب کیرم کے بہت اچھے
کھلاڑی تھے۔ جوانی میں ہاکی بھی کھیلا کرتے تھے۔ صاف ستھرا لباس زیب تن کیا
کرتے، آفس میں ہمیشہ شرٹ یا سوٹ جب کہ گھر میں بڑے پا ئچے کا پیجامہ اور
کرتا ان کا مخصوص لباس تھا۔ پان زیادہ کھا یا کرتے، پان کی ڈبیہ اور بٹوا
ان کے ہمراہ ہمیشہ ہوتا۔وہ ایک فرمانبردار بیٹے، ذمہ دار بھائی، خیال کرنے
والے شوہر اور ایک فرض شناس باپ تھے۔ آپ کی ابتدائی نجی زندگی مشکلات سے
دور چار رہی۔ شادی بھی تاخیر سے کی ، چاہتے تھے کہ وہ اپنی بہنوں کے فرض سے
سبکدوش ہوجائیں۔ آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
بیت الحکمہ اور ماسٹر رشید
لیبیا سے وطن واپس آنے کے بعد آپ فروری ۱۹۸۷ء میں ہمدرد لائبریری (بیت
الحکمہ) کے چیف لائبریرین مقرر ہوئے اور اپنے انتقال ۲۵ جون ۱۹۹۵ء تک اسی
کتب خانے سے منسلک تھے۔یہاں آپ کی خدمات ۸ سال ۵ ماہ پر محیط ہیں۔آپ سے قبل
اس عہدہ پر حکیم نعیم الدین زبیری، مولانا عارف الدین، عبیداﷲ سیفی، خورشید
عالم، ممتاز الا سلام خدمات سر انجام دے چکے تھے۔عام تاثر یہ تھا کہ اس کتب
خانہ میں خدمات سر انجام دینا مشکل اور کٹھن ہے۔ ماسٹر صاحب نے اپنے عمل سے
اس تاثر کو غلط ثابت کر دکھایااور یہ ثابت کیا کہ اگر انسا ن چاہے تو ہر
طرح کے حالات میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
ہمدرد لائبریری یا بیت الحکمہ حکیم محمد سعید کے خوابوں کی تعبیر اور ایک
ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیاتک حکیم محمد سعید کو زندہ و جاوید رکھے گا۔
اس کتب خانے کے حوالے حکیم نعیم الدین زبیری کا ذکر بھی لازمی ہے ۔ آپ نے
تحریری طور پر اپنے خیالات سے نوازا ۔ آپ لکھتے ہیں ’’ ۱۹۸۶ء کے اواخر میں
ہمدرد فاؤنڈیشن میں لائبریرین کے انتخاب کے لیے انٹر ویو ہوئے ۔ امیدواروں
میں سے ایک صاحب کی سنجیدگی اورمتا نت نے مجھے بطور خاص متوجہ کیا۔ یہ
مرحوم رشید الدین صاحب تھے۔رشید صاحب نے اپنی درخواست کے ساتھ جو اپنا حیات
نامہ منسلک کیا تھا ‘ اس کی تفاصیل نے میرے احساس کو تقویت پہنچائی پھر
گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہواکہ اعلیٰ تعلیمی قابلیت ‘ طویل تجربے اور
فن میں مہارت کے باوجود انتہائی منکسرالمزاج بھی واقع ہوئے ہیں۔انٹر ویو
لینے والے دیگر حضرات کی رائے بھی کم و بیش یہی تھی۔اس بنا پر رشید صاحب کا
انتخاب باا تفاق ہوگیا اورجلد ہی ان کا تقررہو گیا۔فروری ۱۹۸۷ء میں رشید
صاحب نے ایک باوقار اور تجربہ کار لائبریرین کی حیثیت سے کام شروع کیا۔جو
حضرات پاکستان سے باہر جاکر کام کرتے ہیں ‘ پاکستان آنے کے بعد ان کی
توقعات اندازے ہمیشہ زائد ہوتے ہیں مگر رشید صاحب نے ہماری پیشکش کو ‘ جو
بہت زیادہ نہیں تھی خندہ پیشانی سے قبول کر لیا ‘ انہوں نے ابتدائی ملاقات
میں جو تاثر چھوڑا تھا اسے اپنے ایام کار کے آخری روز تک بر قرار رکھا۔
ہمدرد لائبریری میں جو ناظم آباد سے مدینہ الحکمہ منتقل ہوچکی تھی ان کی بے
مثال اور بیلوث کارگزاری کا آخری دن ۳۰ مئی ۱۹۹۵ء تھا۔ دفتری اوقات کار کے
دوران میں نے انہیں سب سے زیادہ مصروف پایا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ
انہیں کسی نے مجلس بازی میں وقت ضائع کرتے دیکھا ہو۔امور کتب خانہ میں ان
کی تجربہ کاری اور سنجیدہ مصروفیت نے سب کو متا ثر کیا۔ امور کتب خانہ سے
متعلق لوگ انہیں ماسٹر صاحب کہا کرتے تھے۔ان میں جوخصوصیات موجود تھیں وہ
سب اکتسابی خصو صیات تھیں اور ان کے رکھ رکھاؤ سے ان کے ایک انتہائی لائق
اور محنتی استاد ہونے کی خصو صیت نمایاں تھی۔جہاں تک مجھے معلوم ہے اپنی
خدمات کے آٹھ سال کے دوران کسی سے غصے میں بات کرتے انہیں نہیں دیکھا‘
ماتحت کارکنوں کے ساتھ ان کا سلوگ ایک معیاری سربراہ کا سلوک رہا۔ رفقائے
کار میں کسی کو کبھی ان کا شاکی نہیں پایا۔فن میں مہارت اور مثالی عملی
قابلیت کے حامل افراد میں بردباری اور انکساری کا س طرح یکجا ہونا میرے
خیال مین اگر معدوم نہیں تو نادر ضرور ہے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے اعمال کا
بہتر صلہ عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور رشید الدین احمد مرحوم کاتصور آنکھوں کے
سامنے ہے۔ لمبا قد جس کے باعث کمر قدرے جھکی ہوئی ‘ سنجیدہ اور بردبارچہرہ‘
کشادہ پیشانی‘ روشن آنکھیں‘ گندمی رنگ‘ بچے بالوں میں قدرے سفیدی اور سلیقہ
سے اوپر کی جانب ستے ہوئے‘ گرمیاں ہیں تو قمیض پتلون ٹائی ‘ جاڑے ہیں تو
صاف ستھرا سوٹ‘ لہجے میں نر می ‘ آواز اعتماد اور دھیما پن‘ گفتگو میں
شائستگی] کسی بھی بات پر
قہقہ لگا نے کی ضرورت ہوئی تو زیر لب مکراہٹ پر کتفا کرنا‘ ہر شخص سے جھک
کر ملنا‘ محبت سے پیش آناآپ کا روز مرہ کا معمول تھا۔جب کبھی میرا ہمدر
لائبریری جانا ہوتا خندہ پیشانی سے ملتے ۔ کبھی کوئی ہلکی یا ناروا بات آپ
کی زبان سے نہیں سنی۔ کیا خوب شخص تھا، ﷲ مغفرت کرے آمین۔
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔ جلد ۳۴، شمارہ ۱۔۲، مارچ ۔ جون ۲۰۰۳ء) |