محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جیسے مسلم لیگ (ن) کی قیادت
نے یا تو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی حکمت عملیوں کو سمجھنے میں غلطی
کی یا پھر حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نے اسے مسئلے کی نزاکتوں اور اس کے
متوقع نتائج کو سمجھنے نہیں دیا۔
اصل صورتحال یہ ہے کہ نہ تو مظاہرین کے تمام مطالبات ناجائز ہیں اور نہ ہی
مسلم لیگ (ن) کا موقف مکمل طور پر غیر منطقی ہے۔ اگر اس مسئلے پر سنجیدگی
کے ساتھ غور کر کے کوئی بروقت فیصلہ کر لیا جاتا، تو حالات اس نہج تک نہیں
پہنچ پاتے جہاں غلط حکمت عملیوں کے باعث جا پہنچے ہیں لیکن ساتھ ہی فریقین
نے بھی ایک دوسرے پر عدم اعتماد کرتے ہوئے بے لچک رویے کا مظاہرہ کیا۔
جب ایک حکمران کی حکومت ختم ہوکر دوسرے حکمران کے ہاتھ آجاتی ہے اور اگر
نئی آنے والی حکومت عوام سے گہرا تعلق قائم نہیں رکھتی تو عوام بہت جلد
بدظن ہوکر پرانی حکومت کو یاد کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔یہی کلیہ طرزِ حکومت
میں تبدیلی پر بھی پورا اترتا ہے۔مثال کے طور پر آمریت سے جمہوریت کی طرف
تبدیلی ۔اِس کلیے کی دو واضح مثالیں ماضی قریب اور حال دونوں میں موجود ہیں
۔ ماضی قریبِ میں مصر اور حال میں ہمارا اپنا پیارا پاکستان ۔پہلے مِصر کی
جانب چلتے ہیں۔
محمد مرسی۔ 30 جون 2012ء کو مصر کے پانچویں صدر منتخب ہوئے۔ یہ مصر کی
تاریخ کے پہلے صدر تھے جو جمہوری طریقے سے آزادانہ انتخابات میں 51.07فی
صد ووٹ حاصل کر کے صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے۔
محمد مرسی کا بطور صدر انتخاب بلاشبہ مصر میں ایک نئے سیاسی اور سماجی دور
کا آغاز تھا ۔ لوگ ابھی جمہوریت کے ثمرات کے مُنتظر تھے کہ 3جولائی 2013کو
محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو ختم کردیا گیا اور مصری افواج کے سربراہ جنرل
عبدالفتح السیسی نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ۔عرب بہار کی صورت میں
ملک میں جوانقلاب آیا تھا وہ اب ختم ہوچکا تھا۔التحریر اسکوائر جو ایک وقت
میں حُسنی مبارک کی آمریت کے خلاف لوگوں کی جدوجہد کا ایک نمونہ تھا اب
ایک مرتبہ پھر آمریت کے خلاف لوگوں سے بھرا ہوا ہونا چاہیے تھا مگر ایسا
نہیں ہوا ۔
ایسا کیوں نہیں ہوا؟ جب مرسی نے مصر کا اقتدار سنبھالا تو انھوں نے تمام تر
طاقت اپنی ذات تک محدود کرنے کی ٹھان لی، بطورصدر مرسی نے خود کو یہ اختیار
دے دیا کہ وہ کوئی بھی قانون بنا سکتے ہیں جوکہ ملک کی سپریم عدالت میں نہ
ہی چیلنج ہو سکتا ہے اور نہ ہی عدالت سے اسے منظور کروانے کی کوئی قانونی
بندش تھی۔ نومبر 2012میں مرسی مذہب کی بنیاد پر ایک انتہائی متنازعہ اور
امتیازی آئین ترتیب دینے کے بعد اُسے ملک بھر میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔
اِس کے خلاف ملک بھر کی لبرل جماعتوں اور غیرمسلم اقلیتوں نے پورے ملک میں
احتجاج کرنا شروع کیے ۔مرسی نے اِن احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کے بجائے
طاقت کے زور پر بات کرنا چاہی۔ملک بھر میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا
گیا ۔
میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں ۔فوج حرکت میں آئی ۔جنرل سیسی نے مرسی حکومت
کو 48گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ۔48گھنٹے گزر گئے ۔مرسی لچک پیدا نہ کر سکے
اور مذاکرات کامیاب نہ ہوئے ۔مرسی کو گرفتار کرلیا گیا ۔ مصر میں مارشل لاء
نافذ ہوگیا اور ایک جمہوری حکومت محض ایک سال میں ختم ہوگئی ۔عوام نے فوج
کا استقبال کیا-
جمہوریت وہ طرزِحکومت ہے جِس میں اختیار بانٹنے سے طاقت بڑھتی ہے۔ جب کہ
بادشاہت میں اختیارات تفویض کرنے سے حکمران کمزور ہوجاتاہے۔یہی بات پاکستان
اور مصر کے جمہوری حکمرانوں کو محسوس کرنا چاہیے تھی۔ مگر افسوس ایسا نہیں
ہوا۔پاکستان میں 2008ء کے انتخابات کے بعد ملک میں ایک طویل مارشل لاء کے
بعد جمہوری حکومت قائم ہوئی ۔ اس جمہوری حکومت سے قبل پاکستان پر جنرل
پرویز مشرف کی حکومت تھی ۔مشرف بلاشبہ اپنے دورِ حکومت کے ابتدائی سالوں تک
ملک بھر میں انتہائی پسندیدہ حکمران ہواکرتے تھے۔مگر پھر 2007میں پرویز
مشرف سے چند غلطیاں ہوئیں۔اُس وقت کے چیف جسٹس سے زبردستی استعفیٰ لیاگیا ۔
میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں ۔
یہ دونوں اقدام قانون کے خلاف تھے۔ عوام کی یہ فطرت ہے کہ وہ مقبولیت سے
زیادہ قانون کی پاسداری کو ترجیح دیتے ہیں۔کوئی حکمران چاہے کتنا ہی مشہور
اور پسندیدہ کیوں نہ ہو مگر جب وہ کوئی کام ماورائے عدل وانصاف کرتا ہے تو
عوام اُسے فوراً مسترد کرتے ہیں ۔ مشرف سے مصر کے مُرسی کی طرح یہی غلطی
ہوئی ۔ یکایک پاکستان کا سب سے من پسند حکمران ناپسندیدہ شخص بن گیا۔
عوام کے فاقوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو عوام جمہوریت پر آمریت کو ترجیح
دینے لگتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت اصلی نہیں نقلی ہے جس میں پاکستانی عوام کی
قسمت میں حکمرانوں کی اولادوں کی بھی غلامی لکھ دی گئی ہے۔ عوامی تحریک اور
تحریک انصاف کے کارکن اسی غلامی سے نجات کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے
لیے بے تاب ہیں اور اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ اسی وجہ سے ہوا۔ |