جاوید ہاشمی کی ایک اور بغاوت.... نیا پنڈورا بکس کھل گیا

 حکومت مخالف جماعتوں کا اسلام آباد میں دھرنوں کا تیسرا ہفتہ جاری ہے۔ پوری قوم کے اعصاب پر مسلط پریشان کن کیفیت رفتہ رفتہ مزید پریشان کن ہو رہی ہے۔ ہفتے کے روز سے سیاست کی جنگ تشدد کی جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے اور ملک کا دارالحکومت اسلام آباد میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔ پہلے طاہر القادری اور عمران خان کے ڈنڈوں، پتھروں ، پیٹرول بمبوں اور غلیلوں سے لیس کارکنوں نے وزیر اعظم ہاﺅس پر دھاوا بولا،اہم سرکاری عمارتوں کے گیٹ توڑ ڈالے اور روکنے پر پولیس سے جنگ ہوئی ، جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت چھ سو کے لگ بھگ افراد زخمی اور تین جان سے گئے۔ پیر کی صبح کو مظاہرین کی جانب سے ڈی چوک سے آگے کی جانب پیش قدمی شروع کی۔ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جانے والے راستے پر پاکستان سیکرٹریٹ کا علاقہ جھڑپوں کا مرکزبنا رہا۔ مظاہرین پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں پر پتھراؤ اور غلیلوں سے کنچے برساتے رہے، شدید پتھراؤ کے بعد پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے نتیجے میں ایس ایس پی اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو بھی زخمی ہوئے۔ پتھراؤ کے بعد مظاہرین نے پاک سیکرٹریٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے موجود کنٹینر کو آگ لگانے کے بعد سیکرٹریٹ دروازہ بھی توڑ دیا اور اس کے بعد عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار اور پٹرول بموں سے لیس بلوائی پاکستان ٹیلی ویژن نیوز کا گیٹ، کھڑکیوں اور دروازوں کے شیشے توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ پی ٹی وی کے سیکورٹی سٹاف سے بندوقیں چھین کر عمارت کے اندر داخل ہوکر عملے کو یرغمال بنا لیا۔ مظاہرین نے پی ٹی وی کے آلات اکھاڑ دیے اور نشریاتی کیبلز بھی توڑ دیں، جس کے بعد پی ٹی وی ورلڈ اور پی ٹی وی نیوز کی نشریات تقریباً ایک گھنٹہ بند رہیں، قومی نشریاتی ادارے پر قبضہ کر کے مظاہرین نے پاکستان کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کر دیا۔ پی ٹی وی کے ایم ڈی محمد مالک کے مطابق مظاہرین نے ہیڈ کوارٹر کی کیبلز کو نقصان پہنچایا اور کروڑوں روپے کے کیمرے بھی چوری کیے ہیں۔ حالانکہ پی ٹی وی حکومت کی نہیں، ریاست کی نشانی ہے، ریاست کا چینل بند ہونے سے دنیا میں پاکستان کا غلط تاثر گیا۔ اس بلوے کو روکنے کے لیے رینجرز اور پاک فوج کو طلب کیا گیا، تو انہوں نے پہنچ کر مظاہرین کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر خالی کرنے کے اعلانات کیے، جس کے بعد مظاہرین باہر نکلنا شروع ہوئے اور پی ٹی وی کی نشریات بحال کر دی گئیں۔ ذرائع کے مطابق بلوائیوں کے قومی نشریاتی ادارے پر دھاوا بولنے سے قبل دونوں جماعتوں کے لیڈروں نے اشتعال انگیز تقاریر کر کے مظاہرےن کو مشتعل کیا تھا اور بہت سے لوگ پہلے سے ہی باقاعدہ طور پر مسلح ہوکر آئے تھے، ان کے پاس کٹر تھے، جن سے وہ خاردار تار اور لوہے کی چادریں کاٹ رہے تھے، وہ ڈنڈوں سے مسلح تھے جو وہ سرکاری عمارتوں، پولیس اور میڈیا اداروں کی گاڑیوں پر برسا رہے تھے اور اپنے بچاؤ کے لیے پولیس اہلکاروں کی جانب بھی پھینک رہے تھے۔

بلوائیوں کے حملے کے بعد ملک بھر کے رہنماﺅں نے قومی نشریاتی ادارے پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔جس کے بعد دونوں لیڈروں نے یہ بیان دیا کہ قومی نشریاتی ادارے پر حملہ کرنے والے افراد ہمارے کارکنان نہیں تھے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ چینلز کی آنکھ سے ساری دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کے پاس عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کے جھنڈے تھے اور وہ اپنی جماعتوں کے حق میں اور حکومت کی مخالفت میں نعرے لگا رہے تھے، اگر وہ ان جماعتوں کے کارکنان نہیں تھے تو کیا وہ آسمان سے نازل ہوئے تھے؟ اس معاملے کے بعد قائم مقام آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی مدعیت میں تھانہ سیکرٹریٹ میں عمران خان اور طاہرالقادری کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں انسداد دہشت گردی، قتل، اقدام قتل اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، ایف آئی آر میں جتھہ بنا کر پولیس پر حملہ کرنے کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ایف آئی آر میں شامل تمام دفعات ناقابل ضمانت ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کے علاوہ تحریک انصاف کے ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی، صدر تحریک انصاف پنجاب چودھری اعجاز، عوامی تحریک صدر رحقیق عباسی، خرم نواز گنڈا پور اور دیگر مرکزی قائدین کے ساتھ ساتھ سیکڑوں کارکنوں کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن پوری دنیا سے پاکستان کا رابطہ منقطع کرنا چاہتے ہیں، چند ہزار لوگ پاکستان کو تباہی کی کھائی میں پھینک رہے ہیں۔ جس طرح سے پاکستان کے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر قبضے اور توڑ پھوڑ سے پتہ چل گیا کہ یہ لوگ کس قدر پر امن اور جمہوری ہیں، عمران خان نے تو جاوہد ہاشمی کو اختلاف کرنے پر پارٹی سے نکال دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کس قدر جمہوری ہیں، جب کہ طاہرالقادری صاحب کا تو جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو ایک ون مین شو ہے، انھوں نے مذہبی بنیاد پر ایک گروپ بنایا ہوا ہے۔ جبکہ سراج الحق نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں مظاہرے سے عوام کرب میں مبتلا ہیں۔ تحریک انصاف کے چھ میں سے پانچ مطالبوں کو ہم نے حکومت سے منظور کرایا پھر کوشش کی کہ تحریک انصاف اور حکومت میں براہ راست ملاقات ہو، جس میں حکومت نے پانچ مطالبے تسلیم کیے اور ڈیڈ لاک ہوگئے، ہم نے پھر تعاون کیا اور وزیراعظم کے استعفے کو دھاندلی کی تحقیقات سے مشروط کر دیا، لیکن اس کے باوجود معاملہ کو حل نہیں کیا گیا۔ ہمارے مطالبے پر حکومت نے دونوں جماعتوں کو احتجاج کی اجازت دی۔ اجتماعی مطالبے کی بدولت حکومت نے کنٹینرز ہٹائے۔ قومی قیادت تماشا کرنے کی بجائے قیادت کرے۔ ملکی معیشت تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جس معاشرے میں تشدد کی حکمرانی ہو وہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جبکہ فوج نے پیر کے روز وزیر اعظم سے ملکی معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے طویل گفتگو کی اور اس سے ایک روز قبل بھی پاکستان آرمی نے ملک میں جمہوریت کے لیے حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں جاری بحران کو جلد سے جلد سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا تھا کہ کورکمانڈرز کانفرنس میں موجودہ سیاسی صورت حال کا گہری تشویش کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے اور سیاسی بحران نے تشدد کا رخ اختیار کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی جانی نقصان ہوا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ طاقت کے مزید استعمال سے مسئلہ شدت اختیار کرے گا۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے میڈیا کے سامنے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کے سامنے کھڑا ہوں جہاں کلمہ لکھا ہوا ہے، جھوٹ نہیں بولوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں کل بھی پارٹی کا صدر تھا اور آج بھی ہوں، مجھے پارٹی سے نکالنے کا آئینی راستہ اختیار نہیں کیا گیا، عمران خان پارٹی کے آئین کے خود مالک ہیں، وہ اپنی مرضی کے آدمی ہیں، لیکن اگر وہ ایک بار اسے پڑھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سے آگے نہیں جائیں گے، لیکن عمران خان نے سیف اللہ کے اشارے پر بات مان لی، عمران خان کو میری اصول باتیں پسند نہیں آئیں، انہوں نے مجھ سے چلے جانے کو کہا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کو درخواست دینے کا کہتے ہوئے کہا کہ آنے والے چیف جسٹس ہمارے اپنے ہیں، ان سے طے ہوچکا ہے کہ وہ اس حکومت کو فارغ کردیں گے اور ان کے حکم پر ستمبر میں الیکشن ہوں گے، عمران خان نے سپریم کورٹ کو بدنام کیا، سپریم کورٹ کو بتانا چاہتا ہوں کہ عمران خان نے بھڑکایا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ ہم فوج کے بغیر نہیں چل سکتے اور جب تک طاہرالقادری نہیں کہیں گے، آگے نہیں چلیں گے، کیونکہ بیج والے کہتے ہیں کہ طاہرالقادری کے ساتھ چلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باہر کے لوگ عمران خان کی حیثیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، کور کمیٹی نے عمران خان کو شیخ رشید سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں تباہ کردیں گے، جبکہ کور کمیٹی نے شیخ رشید کے خلاف قرارداد بھی پیش کیا۔ صدر تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ایک اغوا شدہ تحریک انصاف یہاں آئی ہے، ہم یرغمال ہوچکے ہیں، عمران خان ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد آئے ہیں، یہ تمام اسکرپٹ لکھا ہوا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ کس نے لکھا اور عمران خان کس کی منصوبہ بندی پر کام کررہے ہیں، تاہم اس میں فوج اور آئی ایس آئی کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ عمران خان کو ملک کے آئین وقانون کی پرواہ نہیں، انہوں نے ہر وعدہ تھوڑا ہے، میں بلا وجہ روزانہ ناراض ہوکر نہیں جاتا تھا، اس کے پیچھے کئی وجوہات تھیں، میری ناراضگی کے بعد میرے سامنے چیزوں کو زیادہ نہیں رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے تمام ممبران اسمبلی سے زبردستی استعفے لیے اور اس وقت مجھے تشویش ہوئی، کیونکہ یہ عمل چھوٹی بات نہیں، بلکہ ایک منتخب اسمبلی پر ہتھوڑا مارنے کے مترادف تھا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ اگر فوج ، آئی ایس آئی اور عدلیہ کو لتھاڑ کر اقتدار لیا جائے تو میں ایسے اقتدارکا حصہ نہیں بن سکتا، میں اس سازش کا حصہ نہیں ہوں، عمران خان کی ہرقدم پر مخالفت کی، جبکہ عمران خان نے لکھ کر دیا تھا کہ مارشل لا کی حمایت نہیں کروں گا اور آئین وقانون کی بالادستی کو مانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی ٹیم تھرڈ کلاس ہے، ان کی کارکردگی سب سے زیادہ تباہی لائی ہے، ان لوگوں نے نہ پارلیمنٹ کو چلایا اور نہ ہی لوگوں کے مسائل کو حل کیا، نوازشریف نے ملک کے ساتھ زیادتی کی، وہ قوم کی امنگوں پر پورا نہیں اترے، آج پورا ملک حکومت کی نااہلی کے باعث اس دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے تقدس کے لیے اپنی جان دے دوں گا۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کو بدنام کیا، میں عدالت عالیہ کی توہین نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں وہ اکیلا شخص نہیں تھا، جس نے عمران خان کو وزیراعظم ہاﺅس کی جانب پیشقدمی سے روکا تھا۔ اس فیصلے میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر اور پرویز خٹک کے علاوہ دیگر رہنماءبھی شامل تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ جو ملکی قانون اور آئین نہیں مانتا، وہ شخص پارٹی کا آئین کو کیا مانے گا؟ عمران خان نے سپریم کورٹ کو بدنام کیا۔عمران خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نواز شریف اور شہباز شریف کو فارغ کر دے گی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.