وزیراعظم کا استعفیٰ اور پٹھان کا قالین
(Muhammad Shafiq Malik, )
میرے ساتھ آپ میں سے تقریباً ہر
کسی کو واسطہ پڑا ہو گا ان دوپٹھانوں سے جو کسی دن اچانک سڑک پر آپ کے
سامنے آ جاتے ہیں یا گارڈز چوکیدار کے روکنے کے با وجود آپ کے دفتر میں آ
دھمکتے ہیں،ان دونوں کے کندھوں پر ایک نیلا پیلا قالین ہوتا ہے جسے ایک نے
آگے سے جبکہ دوسرے نے پیچھے سے کندھے پر ڈال رکھا ہوتا ہے آپ کے پا س
پہنچتے ہی آپ کو نوید سناتے ہیں کہ صیب یہ خالص ایرانی قالین ہے جو آپ کے
لیے لیکر آئے ہیں،آپ ریٹ پوچھتے ہیں کہ کتنے کا ہے جواب ملتا ہے تیس
ہزار،آپ فوراًکانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں نہیں بابا نہیں لینا،تو بہ توبہ اتنا
ریٹ،وہ کہتے ہیں آپ بولو آپ کہیں تین ہزار وہ ایک دم اچھل پڑتے ہیں کبھی
قالین دیکھا بھی ہے نہیں جی نہیں،چلو آپ پچیس دے دو،آپ انکار کریں توریٹ
گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اورتین پہ ہی اچھا دیوکہہ کر قالین آپ کے متھے مار
دیا جاتا ہے اور بعض اوقات بندہ جان چھڑانے کے لیے چالیس ہزار کی بجائے چار
ہزار کہہ دیتا ہے اور عموماًپھر چار ہزار کا لینا پڑتا ہے،مگر پہلا بول
پٹھان کا ہمیشہ آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے یہاں ایک واقعہ او ر بھی سن لیجیے،
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا تھا،عمران کپتان جبکہ وسیم
اکرم باؤلنگ کروا رہا تھا،بیٹسمین سری کانت تھا،وسیم اکرم کی ایک تیز گیند
جو سری کانت کے پیڈ پر لگی،ایل پی ڈبلیو کی زورداراپیل ہوئی اور ایمپائر کی
انگلی عمران خان کے حق میں کھڑی ہو گئی سری کانت کو آؤٹ قرار دے دیا
گیا،سری کانت نے اس فیصلے پر سخت احتجاج کیا ،تھرڈ ایمپائر کا رواج نہیں
تھا،عمران خان نے ایمپائر سے کہا کہ اپنا فیصلہ واپس لیں اور سری کانت کو
دوبارہ بیٹنگ کی دعوت دے دی،وسیم اکرم نے خان کے اس فیصلے پر برا بھی منایا
تاہم بادل نخواستہ گیند لیکر اپنے باؤلنگ اینڈ کی طرف چل دیا،اور جب غصے
اور جوش سے اگلی گیند پھینکی تو سری کانت کلین بولڈ ہو گیا،بعد ازاں کسی
اور میچ میں وسیم اکرم نے اسی سری کانت کو باؤنسر مار کر زخمی کر دیا اور
اسے 14ٹانکے لگے تھے،اگر ان دونوں واقعات کو ان دھرنوں کے پس منظر میں
دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے،ایک طرف قادری
ہیں اور دوسری طرف خان،دونوں کے مطالبات فی الحال آسمان کی بلندیوں کو چھو
رہے ہیں،عجیب لیڈر ہیں جواپنے کارکنوں کے یوں خیر خواہ ہیں کہ ان کے بال
بچوں سمیت جذباتی طور پر یرغمال بنا کر بیٹھے ہیں اورلگ بھگ چودہ پندرہ دن
ہونے کو ہیں،مطالبات کا کوئی سرہے نہ پیر،ایک طرف نوجوانوں کو نئے نظام میں
نوکریو ں کے وعدے اور لارے دو سری طرف کفن اور قبروں کی تیاری،کیا یہ
نوجوان اگلے جہان جا کے ان کے انقلاب سے مستفید ہوں گے یا عالم رویا میں
پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں گے،انقلاب کے ایک طرف
شاہ محمود قریشی ہیں تو دوسری طرف خورشید قصوری اسٹیج پنڈی کے شیخ چلی کے
پاس ہے ، جبکہ انقلاب کے دائیں طرف چوہدری ہیں توبائیں طرف مصطفےٰ کھر، نہ
جانے کیوں ان دونوں حضرات نے قوم کو نشئی سمجھ رکھا ہے، کیا یہ طریقہ ہے
نئے پاکستان کی تعمیر کا ،کیا اس طرح انقلاب آتے ہیں کہ اپنے ماننے والوں
کو جن کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ ہو لیکرایک جگہ پڑاؤ ڈال لینے سے نظام
بدلتے ہیں،ہم نے تو پہلے دن ہی کہا تھا کہ کچھ نہیں بدلنے والا یہ سارا
سلسلہ دو مداریوں کے گرد گھومے گا ،نئے ریٹ لگیں گے نئے وعدے ہوں گے کچھ
نئی قسمیں اٹھائی جائیں گی،اور آج دیکھ لیں ابھی تک پوزیشن کھایا پیا کچھ
نہیں گلاس توڑا بارہ سے زیادہ کچھ نہیں،اگر کبھی حساب کرنے کا وقت ملا
دھرنا بازوں خصوصاًخان کو تو وہ ضررور سوچیں گے کہ کیا کھویا اور کیا پایا
،اور یہ بھی کہ انہیں دھکا دیا کس نے تھا،یقین کریں اس جماعت کے لیڈرکے پے
درپے یوٹرن نے اس جماعت کا عوام میں اپنا رہا سہا وقار بھی کھو دیا،یہ سب
آنیوالے الیکشن میں پتہ چلے گا،اب دوبارہ اس جماعت کو سابقہ لہر میں آنے کے
لیے خان صاحب کو شدید محنت کرنا پڑے گی،اوریہ ضروری نہیں کہ ساکھ بحال ہو
بھی یا نہ،جب نستعلیق شیخ رشیداور دوسری طرف گجرات کے چوہدری ہوں تو عقل پہ
پردہ پڑنا فطری ہے،ان دونوں حضرات کے مطالبوں پر ذرا غور کریں تو ساری بات
واضح ہو جاتی ہے ان دونوں کا سارا زور نواز شہباز کے استعفوں تک محدود ہے
یعنی اقتدار کا حصول اور اس کے لیے یہ کسی بھی حد سے گذرنے اور کسی بھی حد
تک جانے کو تیار ہیں،جبکہ دوسری طرف نواز شریف ہیں اور جس نواز شریف کو میں
جانتا ہوں وہ مر جائے گا مگر یوں استعفیٰ نہیں دے گا،استعفیٰ دینا ہوتا
توجب اٹک قلعہ میں قید تھا تو چار جرنیلوں کو دے دیتا جنہوں نے کہا تھا کہ
سائن کرو اور رائے ونڈ جاؤ مگر اس نے نہیں دیا تھا آج تو سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا کیوں کہ پیچھے پوری پارلیمنٹ ،سپریم کورٹ اور لگ بھگ ڈیڑ کروڑ ووٹر
ہیں،خان اور قادری کے بقول پچاس لاکھ ووٹ جعلی مان بھی لیں تب بھی ان
دھرنوں کی تعداد سے سو گنا زیادہ ،ادھرکسی کی بات نہ سننے ماننے والوں کی
باڈی لینگیویج آرمی چیف کے بلاوے پر بہت کچھ سمجھا اور بتا رہی تھی،مگر
افسوس کہ ملا وہاں سے بھی کچھ نہیں،کیوں کہ اب حالات اور زمانہ کافی حد تک
بدل چکا ہے ایسے کسی بھی سر پھرے شخص کے سر پر آرمی ہاتھ نہیں رکھ سکتی جس
کو اپنی ہی کہی ہوئی بات کا پاس نہ ہو ،ایک سرکار، خواب پہ چلتے ہیں جبکہ
دوسرے کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کہنا اور کب کہنا ہے،جس شخص نے جمہوریت
اور جمہوری نظام کی بات کی یہ دونوں لٹھ اٹھا کر اس کے پیچھے پڑ گئے،کبھی
کہتے ہیں میڈیا بک گیا،کبھی کہتے ہیں وکیلوں کو بھی کروڑوں روپے دے دیے گئے
اور جب ثبوت مانگے جائیں تو ــ:پیارے افضل: کی طرح کہتے ہیں کہ ثبوت تو
ہمارے پاس کوئی نہیں،کاش یہ دونوں ملکرحکومت کو ایک ڈیڈ لائن دیتے کہ آپ کے
پاس چھ ماہ کا وقت ہے زرداری دور میں شروع ہونے والی پاک ایران گیس پائپ
لائن پہ نہ صرف مکمل کرو بلکہ اسے فعال کر کے سی این جی کا بحران ختم
کرو،ایٹمی ملک ہو بجلی کا بحران دسمبر 2014تک ختم ہو جانا چاہیے ورنہ اگر
کسی غریب کے جھونپڑے میں بلب اور پنکھا نہ چلا تو تم بھی اپنے محل میں سکون
نہیں لے سکو گے،آج کے بعد پورا ملک گرین زون ہوگا کہیں کوئی ریڈ زون نہیں
ہو گا ،ہر پاکستانی پاکستان میں آزاد ہو گا آزادی مارچ کا پتا بھی
چلتا،انقلاب کہتا آج کے بعد کہیں کوئی سڑک کسی وی آئی پی کے لیے بند نہیں
ہو گی،کسی ریل اور جہاز میں وی آئی پی کلاس نہیں ہو گی،کسی ائر پورٹ اور
پلیٹ فارم پہ وی آئی پی لاؤنج نہیں ہو گا،غریب امیر کے لیے نظام تعلیم اور
سلیبس ایک ہو گا،ہر پاکستانی کو علاج معالجے کی یکساں سہولیات فراہم کی
جائیں گی،ایف آئی آر درج ہونے ک بعد کاپی صارف کے گھر پر فراہم کی جائے
گی،پٹواری کسی کسان کا استحصال نہیں کر سکے گا،تھانیدار کا ڈنڈا صرف مجرموں
اور چوروں کے سر پر ہی برسے گا،یوٹیلٹی بلز صرف میٹر ریڈنگ کے مطابق ہی
آئیں گے،پٹرول کی قیمت عام افراد کی پہنچ میں لائی جائے،اور سب سے بڑھ کر
وہ کام جس سے کسی بھی نام نہاد جمہوری حکمران کی جان نکلتی ہے جی ہاں لوکل
باڈیز کے الیکشنز ،آپ یقین کریں آج بلدیاتی انتخابات ہو جائیں ن لیگ کو دن
میں تارے نظر آجائیں گے،مگر آپ دیکھ لیں نہ کوئی ایسا مطالبہ ہے نہ کوئی
ایسی ڈیڈ لائن،اور تو اور اس بارے کوئی بات تک نہیں کی جا رہی،بظاہر امریکہ
کو للکارنے والے اندر سے کیا ہیں اس بات کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ
پاک ایران گیس پائپ لائن کا نام لیتے ان کی جان جاتی ہے،نجانے کیوں یہ اس
قوم ک دشمن بنے ہوئے ہیں ان کی ان باکمال اور مست ناچتی شاموں کی وجہ سے اس
ملک کو لوٹنے والے ازلی دشمن یک جان ہو چکے ہیں،آپ کیوں میاں برادران کو
سیاسی شہید بنانا چاہتے ہیں کہ یہ کل پھر نئے رنگ و روپ میں قمیص پر خون
لگا کر مظلوم بن کے پھر ہمارے سروں پر آدھمکیں،انہیں وقت دیں جناب اور پھر
فیصلہ قوم کو کرنے دیں،آپ ایک طرف استعفوں کی بات کرتے ہیں مگر اپنا ابھی
تک سنبھا ل کر بیٹھے ہیں ،تھوڑی ہمت کریں اور خیبر پختونخواہ اسمبلی کو گھر
بھیجیں کسی دھرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، یہ اسمبلی کوئی بھینہیں توڑ
سکتا آپ کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ ، اس اسمبلی کو توڑنے کا مطالبہ ااپ کس سے
کر رہے ہیں،کیا آپ کا مطالبہ قائم علی شاہ اور ڈاکٹر مالک بھی مان لیں گے،
پورے ملک میں آپ نے احتجاج اور دھرنے کی کال دی مگر جہاں آپ کی حکومت ہے
وہاں کا آپ نام نہیں لے رہے،خدارا اپنے کارکنوں اور اس قوم کے جذبات سے
کھیلنا بند کر دیں ،انقلاب اور آزادی کے لیے دھرنوں کی بجائے عملی طور پر
کچھ کریں ،قوم بڑی سمجھدار ہے ایمپائروں کی طرف دیکھنے کی بجائے قوم کی طرف
دیکھیں اور ان کے لیے کچھ کریں اور ہاں لگے ہاتھوں شیخ رشید کا استعفیٰ بھی
لینا نہ بھولیئے گابہتر ہے اپنے پاس ہی منگوا لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مڑ کے
دیکھیں تو،،،،،،،، |
|