خون اور پانی

کسی محلے میں ایک بدمعاش رہتا تھا جو کہ ہر وقت لوگوں کو ناجائز تنگ کرتا تھا۔ اُس محلے کے دو لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ اُس بدمعاش کا مقابلہ کریں اور اس طرح نہ صرف اس کی بدمعاشی ختم ہوجائے گی بلکہ اس کی جائیداد پر بھی ہم قبضہ کرلیں گے۔ دونوں نے محلے کے کچھ لوگوں سے مل کر اس پر حملہ کردیا۔ لیکن چونکہ اُن کی اپنی نیت ٹھیک نہیں تھی اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے اور سوچے سمجھے یہ حملہ کیا گیا تھا لہذا یہ حملہ ناکام ہوگیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بدمعاش پہلے سے زیادہ طاقتور اور کھلم کھلا بدمعاشی کرنے لگا اور اب اُس کو روکنے اور ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ جن میں روکنے کی ہمت تھی وہ پہلے ہی اپنی غلطیوں سے اپنا سب کچھ گنوا چکے تھے۔

یہی حال عمران خان اور طاہر القادری کا ہے اور جو کچھ وہ اب نواز شریف کے ساتھ کررہے ہیں وہ اب ناکام ہوتا صاف نظر آرہا ہے اور نواز شریف اب پہلے سے زیادہ طاقتور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے گا اور کھل کر کرپشن کرے گا جس کو روکنے والا اب کوئی نہیں ہوگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں نوازشریف کا بہت بڑا سپورٹر ہوں لیکن یہ بات سراسر غلط ہے۔ میں نے اب تک جو کچھ لکھا وہ 95% نوازشریف کے خلاف لکھا۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ پچھلے الیکشن میں ووٹ دیا اور صرف عمران خان کو ووٹ دیا کیونکہ عمران خان واحد لیڈر تھے جن سے پاکستانی قوم کو بہت زیادہ اُمید تھی کہ وہ مستقبل میں پاکستان کیلئے کچھ کرسکتے ہیں۔ اس الیکشن میں لوگوں نے نوازشریف کو یہ آخری چانس دیا تھا جس پر وہ پورا نہیں اُترے اور اگلا الیکشن عمران خان کا تھا۔

لیکن عمران خان نے بہت جلدبازی کی اور دوست نما دشمنوں اور کچھ قوتوں کے اُکسانے پر گرم گرم حلوہ کھانے کے چکر میں اپنا منہ جلا بیٹھے۔ عمران خان نے شروع میں ہی اپنا ایجنڈا بہت غلط رکھا تھا وہ صرف اور صرف کچھ حلقوں کی بات کرتے رہے اور عوامی مسائل پر کبھی بات نہیں کی۔ اگر خان صاحب اس بات پر دھرنا دیتے کہ بجلی کی قیمتیں کم کی جائیں، اگر اس بات پر دھرنا دیتے کہ کرپشن زدہ لوگوں کو سزائیں دی جائیں، اگر اس بات پر دھرنا دیتے ہیں جی ایس ٹی کی شرح کم کی جائے تو پوری قوم اُن کے ساتھ ہوتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اب عوام کے حقوق کی باتیں کررہے ہیں لیکن اب کیوں پہلے کیوں نہیں؟ اب تو مجبوری ہے۔ اگر نوازشریف شروع میں عمران خان کی چار حلقوں میں دوبارہ الیکشن والی بات مان لیتے تو کبھی بھی عمران نے یہ دھرنا نہیں دینا تھا۔ پھر یہ سب عوامی مسائل کہاں جانے تھے۔

رہے طاہر القادری صاحب تو میں اُن کو کسی کھاتے میں نہیں گنتا کیونکہ اُن کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، ان کو کبھی کوئی سیٹ پورے پاکستان سے نہیں ملی۔ اُن کے ساتھ صرف اور صرف اُن کے مریدین ہوتے ہیں جو کہ اُن کی خاطر اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔ قادری صاحب پہلے بھی نادیدہ قوتوں کے کہنے پر اور ہوس اقتدار کی خاطر دھرنا دیتے رہے ہیں۔ اب کی بار جو ایجنڈا انہوں نے پیش کیا ہے وہ تو کوئی بچہ بھی پیش کرسکتا ہے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ یہ ایجنڈا پورا کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟ قومی حکومت میں کون کون سے فرشتے ہونگے یہ بھی نہیں بتایا انہوں نے۔

عمران خان کا سیاسی کیریئر تو اب ختم ہوچکا ہے اور اگلا الیکشن اُس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور یہ بات اگلا الیکشن اور وقت ثابت کردے گا۔ عمران خان کا موجودہ لب و لہجہ صاف بتا رہا ہے کہ وہ ایک ایسے ہارے ہوئے جواری ہیں جو اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں۔ عمران خان نے جلدبازی میں اپنی زندگی کی بہت بڑی سیاسی غلطی کی ہے اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے سوچے سمجھے نوازشریف جیسے کرپٹ انسان کو اتنا طاقتور اور مضبوط بنا دیا ہے کہ اب وہ چار سال تک قوم پر مسلط رہیں گے اور ملک کو کھاتے رہیں گے۔ (جاری ہے)
Kashif Shahzad
About the Author: Kashif Shahzad Read More Articles by Kashif Shahzad: 7 Articles with 4662 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.