غلام شبیر
پیدائش پانی پت :1927 وفات جھنگ :25جولائی1999 ۔مدفن کر بلا حیدری ۔جھنگ
شہر
حامد علی شاہ کے والد کا نام بشارت علی شاہ تھا،ان کاآبائی وطن پانی پت
تھا۔ بشارت علی شاہ ایک عالم با عمل تھے اور اپنے زہد و ریاضت کی وجہ سے
انھیں معاشرے میں بہت عزت اوروقار حاصل تھا۔ انھوں نے مسلمان بچوں کی تعلیم
و تربیت اور انھیں قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کے سلسلے میں بہت محنت کی اور
نئی نسل کو نیکی اور فلاح کا درس دیا۔وہ ظالم و سفاک ،موذی و مکار غاصب
برطانوی استبدادسے بہت نفرت کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ تاجروں
کے روپ میں آنے والے برطانوی درندوں نے طاقت کے بل بوتے پر بر عظیم میں
مسلمانوں کی جائز حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اپنے مکر کی چالوں سے تاج ور
بن بیٹھے۔متحدہ ہندوستان میں بشارت علی شاہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں کی
بڑی تعداد رہتی تھی۔بشارت علی شاہ اور مولانا الطاف حسین حالی کے خاندانی
مراسم کی وجہ سے دونوں خاندان بر عظیم کی ملتِ اسلامیہ کی فلاح کے لیے
سرگرمِ عمل تھے۔علی گڑھ تحریک کاآغاز ہوا تو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں
کوسمجھتے ہوئے بشارت علی شاہ کے والد اوران کے عقیدت مندوں نے سر سید احمد
خان اور ان کے نامور رفقائے کار کا بھر پور ساتھ دیا ۔ بشارت علی شاہ کے
والد کے سر سید احمد خان کے ساتھ بھی بہت قریبی خاندانی مراسم تھے۔ وہ پا
نی پت کے جس محلے میں مقیم تھے ،مولانا الطاف حسین حالی کا خاندان بھی اسی
محلے میں رہتا تھا ۔ مولانا الطاف حسین حالی کے خاندان کے ساتھ اس سادات
خاندان کے بہت قریبی تعلقات تھے ۔ سر سیداحمدخان جب بھی پانی پت آتے بشارت
علی شاہ کے والد اُن سے ملتے اور بر عظیم کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے
لیے علی گڑھ تحریک کے مقاصد پر اعتماد کا اظہار کرتے۔ بشار ت علی شاہ نے
تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔قائد اعظم اورمسلم لیگ کا بھرپورساتھ دیا اور
مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کرکے آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچانے میں اہم
کردارادا کیابر عظیم کی ملت اسلامیہ میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے میں
ایسے خاموش کارکنوں کی خدمات تاریخ کا ایک اہم باب ہیں ۔علامہ اقبال نے
1930میں الہ آباد کے مقام پر جو تاریخی تقریر کی بشارت علی شاہ نے وہ
خودسنی تھی۔ اس کے بعدوہ یہ بات برملا کہا کرتے تھے کہ اب انگریزوں کا جانا
ٹھہر گیاہے۔23مارچ 1940کو مسلم لیگ کا جوتاریخی جلسہ منٹو پارک (موجودہ
اقبال پارک) لاہور میں ہوا تھا ،اس میں بشارت علی شاہ اپنے کم سِن بیٹے
حامد علی شاہ کو بھی ساتھ لائے ۔ حامد علی شاہ زندگی بھر اس بات پر ناز
کرتے تھے کہ انھوں نے بر عظیم کی ملت اسلامیہ کے قائدین کو دیکھا ،ان کی
تقاریر سُنیں اور کاروانِ آزادی کے ایک معمو لی کارکن کی حیثیت سے مقدور
بھر قربانیاں دیں۔ بشارت علی شاہ نے 1941میں داعی ء اجل کو لبیک کہا۔ قیام
پاکستان کے وقت حامد علی شاہ راول پنڈی پہنچے اورراجا بازار کے عقب میں
واقع ایک کچی آبادی میں قیام کیا۔کچھ عرصہ بعد چنیوٹ کے شہر لالیاں آ گئے
پھر مستقل طور دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم پر واقع ہیر کی دھرتی
جھنگ میں منتقل ہو گئے۔اس شہرِ سدا رنگ میں اس نے محنت مزدوری کر کے اپنی
انا اور خود داری کا بھرم قائم رکھا ۔وہ دامن جھاڑ کر یہاں پہنچااور پھر
دانہ دانہ جمع کر کے اسے خرمن بنانے کی سعی کی ۔محنت کی عظمت اس کا شعار
تھااور وہ رزقِ حلال کمانے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ۔ایک مقامی کارخانے
میں وہ دریاں بنانے کے کام میں لگ گیا اور اپنا پیٹ کاٹ کر اس نے نہ صرف
اپنا مکان بنا لیا بل کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی ہمہ تن مصروف
ہو گیا ۔اس کی اہلیہ بھی اس کے ساتھ تعاون کرتی اس نے سلائی کڑھائی شروع کی
اور گھرکا نظام نہایت خوش اسلوبی سے چلنے لگا۔ اپنی کُٹیا میں وہ چین سے
رہتے ،رُوکھی سُو کھی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر وہ اﷲ کریم کا شکر ادا
کرتے اور حرص و ہوس سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیتے۔
پانی پت میں حامد علی شاہ کا ایک کشادہ آبائی مکان اور دو دکانیں بھی
تھیں۔اپنے آبائی پیشے تجارت سے وہ خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن
ارض ِ پاکستان پہنچنے کے لیے اس نے ہر قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ا س کا
کہنا تھا کہ آزادی کے لیے اس کے خاندان نے نوے بر س تک جد و جہد کی۔ صبر
آزما جد و جہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعدغلامی کی شبِ تاریک کا خاتمہ ہوا
جب طلوعِ صبح آزادی کی نیک ساعت آئی تو وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک آزاد وطن کی
جانب عازم سفر ہوا ۔ جب اس نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا تومکان اور دکانوں
کے کلیم اور دیگر تمام دستاویزاس کے پاس تھیں ۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ انسان گردشِ حالات کے سیل رواں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے
۔ تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں وہ شہنشاہ کہ کہ جن کی خاکِ پا بھی زر
و جواہر کے مانند تھی انھیں کی آنکھ میں سلائیاں پھرتی دیکھی ہیں ۔ تقدیر
کے زخم سہہ کر قصر و ایوان اور جاہ و جلال کا دماغ رکھنے والے در بہ در اور
خاک بہ سر تقدیر دیکھے گئے ہیں۔ ہوائے جورو ستم اور سیلِ زماں کے مہیب
تھپیڑوں کی زد میں آ کر تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے
ہیں ۔ تقدیرکے چاک کوسوزنِ تدبیر سے رفو کرنا کسی طرح ممکن ہی نہیں ۔تقدیر
اگرہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں نہ اُڑ ا دے تو وہ تقدیر کیسے
کہلا سکتی ہے۔ارض ِ پاکستان کی جانب سفر کے دوران امرتسر کے قریب حامد علی
شاہ کے قافلے پر بلوائیوں نے حملہ کر دیا۔ کئی بے بس اورنہتے مہاجرین اس
حملے میں لقمہء اجل بن گئے ،مہاجرین کے پا س جو کچھ بھی تھا وہ لُوٹ
لیا۔حامد علی شاہ کی آبائی رہائش، کمرشل پلاٹ اور میراث کے کاغذات اور
زندگی بھر کااثاثہ لُٹ گیا۔ وہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر آگ
اور خون کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچا۔ مطلوبہ دستاویزات نہ ہونے کے
باعث مہاجرین کی آباد کاری اور بحالیات کے محکمے کی طرف سے پاکستان میں
حامد علی شاہ کو سر چُھپانے کے لیے کوئی جھونپڑی تک نہ مِل سکی۔صبر و تحمل
،قناعت اوراستغنا کے اس پیکر نے نئے عزم کے ساتھ اپنا آشیانہ بنانے کا
فیصلہ کر لیا ۔ قیام پاکستان کے بعد متعدد خاندان جو بھارت میں خوش حالی کی
زندگی بسر کررہے تھے،ہجرت کے بعد انھیں کٹھن مراحل سے گُزرنا پڑا لیکن وہ
کبھی دل برداشتہ نہ ہوئے اور نہ ہی کبھی حرفِ شکایت لب پر لائے۔حامد علی
شاہ کے خاندان کو بھی اسی قسم کے حالات کاسامنا کرنا پڑا۔ارضِ پاکستان کی
محبت میں انھوں نے ایثار کی وہ مثال قائم کی جو دلوں کو ایک ولولہء تازہ
عطا کرتی ہے۔
حامد علی شاہ نے اپنے فقر اور درویشی کو ہمیشہ دنیا داری کے پردہء اخفا میں
رکھا۔اہلِ نظر اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اس کا اقلیم ِ معرفت کے پُر اسرار
بندوں کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔اس کے ہم نوا لوگوں میں سب کے سب اپنے عہد کے
درویش ،فقیر اور ولی تھے۔جھنگ میں یہ مقربِ بارگاہ خداوندی مردانِ حق پرست
اپنے فیضانِ نظر سے لوگوں کے مقدر بدل دیتے ۔حامد علی شاہ کے ان دیرینہ
ساتھیوں اور معتمدرفقا میں ڈاکٹر محمد کبیر خان ،ملک محمد عمر حیات ،غلام
علی چین ، رانا سلطان محمود ،شیر محمد ،محمد شیر افضل جعفری ، محمد بخش
آڑھتی ،سید جعفر طاہر ،ڈاکٹر سید نذیر احمد ،حاجی محمد یوسف ،اﷲ دتہ
سٹینو،حاجی احمد بخش ،حکیم احمد بخش نذیر (چار آنے والا حکیم) ،میاں مراد
علی ،کرم دین (عرف کرموں موچی)،اﷲ دتہ حجام (بابا آنے والا)،مرزا محمد
وریام ،اﷲ داد ،حکیم محمد اسماعیل،ڈاکٹر محمد عمر ،رانا نذر محمد اوررام
ریاض شامل تھے۔ان احباب کے ساتھ اس کا دردمندی اور خلوص پر بنی جو قلبی
تعلق تھا وہ زندگی بھر بر قرار ہا۔یہ سب اس کے محرم ِراز بھی تھے اور غم
گُسار بھی جو اس کے نام پر کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے۔حامد علی شاہ کو
اکثر جھنگ میں مقیم اقلیمِ معرفت کے تابندہ ستاروں کے جُھرمٹ میں دیکھا
گیا۔اقلیمِ معرفت کی اس کہکشاں میں جن پُر اسرار بندوں کی تابانیاں ایک
عالم کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئیں اُن میں حامد علی شاہ کا نام نمایاں حیثیت
رکھتا ہے ۔اب اس کے یہ سب ساتھی عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر چکے
ہیں ۔
وہ صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
حامد علی شاہ ایک ایسا درویش تھاجو سدا اپنی دنیا میں مگن رہتااور مزدوری
کے بعد اپنا زیادہ وقت ذکر الٰہی میں گُزارتا۔ وہ با وضو ہو کر کام کرتا
اور کام کے دوران زیرِ لب درود پاک کا وِرد بھی جاری رکھتا۔وہ ایک راسخ
العقیدہ مسلمان تھا اور ہر قسم کی عصبیت سے بالاتر رہتے ہوئے اُس نے دِلوں
کومرکزِ مہر و وفا کرنے کی دعا کی۔وہ جس فیکٹری میں مزدوری کے لیے جاتا
وہاں کے مالک اس کا بے حد احترام کرتے اور اسے سر آنکھوں پر جگہ
دیتے۔مزدوروں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ حامد علی شاہ کے آنے سے فیکٹری کے شب
و روز ہی بدل جاتے ۔کاہل،بد دیانت اور منشیات کے عادی مزدوروں کی اصلاح پر
وہ توجہ دیتا۔ اس کی یہ کوشش ہوتی کہ ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست
پر لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ حامد علی شاہ کا خلوص ، ایثار،بے لوث
محبت اور دردمندی پر مبنی مشاورت ایسے لوگوں کے لیے خضر راہ ثابت ہوتی اور
وہ جلد ہی اپنی قبیح حرکات سے تائب ہو جاتے ۔اس اصلاحی اقدام کے نتیجے میں
منشیات کے عادی محنت کشوں کی زندگی بے ثمر ہونے سے بچ جاتی ۔اس کی تحریک پر
سب محنت کش با جما عت نماز ادا کر تے اور اﷲ کریم کے فضل و کرم سے خسارے
میں چلنے والی فیکٹری بھی منافع ظاہر کرتی ۔اس کی فلاحی اور اصلاحی مساعی
کے اعجاز سے فیکٹری کا ماحول جلد ہی روحانیت کی پر کیف فضا میں ڈھل
جاتا۔حامد علی شاہ نے اپنے تقویٰ اور زہد و ریاضت کے اعجاز سے اﷲ کریم کی
معرفت حاصل کی ۔اس کی فغانِ صبح گاہی ہمیشہ باریا ب ہوتی۔اس کی دعائیں
مقبول ہوتیں اسی لیے وطنِ عزیز کے طول وعرض سے اس کے ہزاروں عقیدت مند ا س
کے پاس آتے اور دعا کی التجا کرتے ۔وہ آیات قرآن مجید کی تلاوت کر کے دم
کرتا اور پروردگارِ عالم کے فضل و کرم سے درد مندوں کی اُمیدیں بر آتیں
۔دعا ؤں کا یہ سلسلہ سدا بے لوث رہا ،اس نے کسی عقیدت مند سے کبھی کوئی
نذرانہ قبول نہ کیا۔
نئی نسل کی تعلیم و تربیت کو حامد علی شاہ نے ہمیشہ اہم سمجھا ،تعلیم نسواں
کی اس نے ہمیشہ حمایت کی اور نوجوان لڑکیوں کو پردے کا پابند بنانے پر
اصرار کیا۔ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اس نے ایسے تعلیمی
اداروں کا انتخاب کیاجہاں قابل ،محنتی اور جذبہء محبت سے سرشار اساتذہ
تدریسی خدمات پر مامورتھے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ نئی نسل کی رہ نمائی کے
لیے اگرکوئی شعیب ؑمیسرآجائے تو شبانی سے کلیمی محض دو قدم ہے۔تہذیبی و
ثقافتی میراث،زندگی کی درخشاں روایا ت ،اقدار عالیہ اورعلم و ادب سے اس کی
والہانہ محبت اورقلبی وابستگی اس کا بہت بڑا اعزازو امتیاز رہا۔وہ اہلِ
کمال کی خدمات کا ہمیشہ معتر ف رہااور ان کے وجود کو اﷲ کریم کی بیش بہا
نعمت سے تعبیر کیا۔جھنگ کے جن نامور اساتذہ کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات اور
دردمندی کاتعلق تھا، ان میں ڈاکٹر سید نذیر احمد،رانا عبدالحمید خان، دیوان
احمد الیاس نصیب، فیض محمد خان ارسلان، محمد امیر خان ڈب، اﷲ بخش نسیم
،عبدالحلیم انصاری،محمد منیر،نواز انجم،میاں رب نوازبھٹی ،سمیع اﷲ
قریشی،گدا حسین افضل ،مہر بشار ت خان،عاشق حسین فائق،میاں محمد علی،ظہور
احمد شائق اور عبدالستار چاولہ شامل تھے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جن کی تدریس کے
معجز نما اثر سے خاک کو اکسیر بنانے میں مدد ملی۔اس کا خیال تھا کہ اگر
پتھر کو بھی صدقِ دِل سے تراشا جائے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے۔
معاشرتی زندگی میں حامد علی شاہ نے فعال کردار ادا کیا۔ جب کسی عزیز کی کسی
خوشی کی اطلاع ملتی تو حامد علی شاہ خوشی سے پُھولے نہ سماتا ۔ شادی والے
گھر میں پہنچ کر وہ اپنی بساط کے مطابق تحفے بھی دیتا اور دعا بھی کرتا۔ اس
دنیا میں شادی اور غم توام ہیں ۔شہر میں جب کوئی بیمار ہوتا تو حامد علی
شاہ اس کی عیادت کے لیے پہنچتا اور اس کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا۔جب کسی
کی رحلت کی خبر ملتی تو حامد علی شاہ میت کو کندھا دیتا،نمازجنازہ میں شرکت
کرتا اور مرحوم کے احباب جب میت کو سپردِخاک کرکے گھر آتے تو یہ بھی ان کے
ساتھ ہوتا اور لواحقین کے غم میں شریک ہو کر تعزیت کرتا۔مرحوم کے سوئم تک
وہ تعزیت کے لیے جاتا رہتا اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا۔وہ سب لوگوں کو
یہ نصیحت کرتا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اسے کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
حامد علی شاہ کو اس بات کا قلق تھا کہ صدیوں پرانے پیشے اور محنتی اہلِ
حرفہ اب رفتہ رفتہ نا پید ہوتے جا رہے ہیں۔بر صغیر میں برطانوی استعمار کے
نوّے سال ایک ایسی تاریک اور بھیانک رات کے مانند تھے جس نے منزلوں کو
سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ہماری زبان اب پرانے پیشوں سے نا ٓشنا ہو چُکی
ہے۔وہ اکثر مثال دیتا کہ ماضی کا کنجڑااب ویجی ٹیبل مر چنٹ ، مشاطہ اب
بیوٹیشن ،صراف اب جیولر ،سقہ اب واٹر مین،نان بائی اب بیکر اور خیاط اب
ٹیلر بن گیاہے۔کئی پھل اب اجنبی بن چُکے ہیں اب تو کسی کو ڈیہلوں ،
سنجاونا،پیلوں،لسوڑوں ،مکو، تاندلہ ،الونک ،اکروڑی،باتھو،حنظل، منڈوا ،چینا
،سوانک ،جو،کھمبی اور جنگلی پودینے کی تاثیر کا علم ہی نہیں۔قدرتِ کاملہ نے
نہایت فیاضی سے یہ اثماردیہات اوران کے قُرب و جوار میں اُگا دئیے ہیں۔
جہاں یہ بلا قیمت حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن کوئی شخص اس طرف توجہ ہی نہیں
دیتا ۔قدرتِ کاملہ کو اپنے حسن کی عطا کے لیے شہروں سے بن زیادہ عزیز ہیں
۔اب تو ہر کوئی شہروں کا رخ کر رہا ہے اور دیہات اپنی دل کشی کھو رہے
ہیں۔اس کا خیال تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے افراد کے لیے
آسائشوں اور تن آسانی میں اضافہ کر دیا ہے اور کٹھن زندگی کی باتیں اب نا
پید ہیں ۔فریج کی فراوانی سے گھڑوں اور گھڑونچیوں کا قصہ ختم ہوا ۔ اب
ماشکی ،مشکیزے اور ساقی کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔اب تو چکنے گھڑوں کی
فراوانی ہے آج کی سوہنی کو دریائے چناب میں تیرنے کے لیے کوئی گھڑا دستیاب
نہیں۔لوٹوں اور لٹیروں کا جھمکا دیکھ کر ہر شخص یاس و ہراس کا شکار
ہے۔سگریٹ اور پائپ کا چلن کیا ہوا کہ چلمیں اور حقے عنقا ہو گئے۔ مکانوں
میں ا ئیرکنڈیشنر کی تنصیب اور برقی پنکھوں کی فراوانی کے باعث ہاتھوں سے
بنائی جانے والی شیشوں سے سجی پنکھیاں بنانے والی اور ہوا دینے والی لڑکیاں
اب کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مشین گن کی ایجاد کے بعد نہ تیر رہے نہ ترکش،
نہ تیرانداز نہ کمان باقی ہے نہ ہی کمان گر کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ ایٹم بم
کی ایجاد کے بعد آلاتِ حرب بھی بدل گئے ہیں، زرہ بکتر ،گُرز اور شمشیر و
سناں سب ماضی کا قصہ بن چُکے ہیں۔سٹین لیس سٹیل کے برتنوں کا چلن عام ہوا
تو پیتل ،تانبے اور جست کے برتن ، ان برتنوں کو تیا رکرنے والے اوراس صنعت
سے وابستہ دست کاراور صناع سب تاریخ کے طوماروں میں دب گئے۔اب برتنوں پر
نقاشی کرنے والے ماہرینِ فن کہیں دکھائی نہیں دیتے۔پیتل اور تانبے کے
برتنوں کو قلعی کر کے چمکانے والے قلعی گر بھی اپنی دُکان بڑھا گئے۔موٹر
سائیکل ر کشے جب سڑکوں پر ظاہر ہوئے تو کوچوان اور تانگے غائب ہو گئے
۔زندگی کی برق رفتاریوں نے ہمیں اپنے ماضی کی نشانیوں سے محروم کر دیا
ہے۔اس کا قیاس تھا کہ ماضی کی یہ نشانیاں اب عجائب گھروں کا حصہ بن جائیں
گی اورآنے والی نسلیں حیرت سے انھیں دیکھیں گی۔
اپنی تہذیب و ثقافت اور مشرقی اقدار سے حامد علی شاہ کو بہت محبت تھی۔سرسبز
و شاداب کھیت ،بُور لدے چھتنار اور ہری بھری فصلیں دیکھ کر س کے دِل کی کلی
کِھل اُٹھتی ۔وہ طائرانِ خوش نوا کو زمزمہ سنج دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔زندگی
کے آخری ایام میں وہ گلزارِہست و بُود کی بدلتی ہوئی کیفیت پر دل گرفتہ سا
رہتا تھا ۔اس کا کہنا تھا کہ موجودہ دور قحط الرجال اور ضعف بصارت کا دور
ہے ،لوگوں کی بے بصری کا یہ حال ہے کہ آندھی اُٹھے تو لوگ اسے گھنگھور گھٹا
قراردیتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس ٓندھی سے جل تھل ایک ہو جائے گا
۔جب مسافت کٹ جاتی ہے اور مطلع صاف ہو جاتا ہے تواس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے
کہ سفر کی دُھول ہی نے پیرہن کی صورت اختیار کررکھی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے
کہ جہاں پہلے سرو و صنوبر کی فراوانی تھی اب وہاں حدِ نگاہ تک پوہلی،کریر
،زقوم ،حنظل،اکڑا ،بھکڑا اوردھتورا اُگا ہے۔عقابوں کے آشیانوں میں زاغ و
زغن گھس گئے ہیں ۔ہر شاخ پہ بُوم اور چُغد کا بسیرا ہے اور در دیوار پر سر
شام شپر منڈلانے لگتے ہیں۔حامد علی شاہ ایک خاک نشیں درویش تھاجو اپنے
فقیرانہ مسلک کی وجہ سے محبوب خلائق تھا۔اس نے بلند و بالا ایوانوں کی جانب
کبھی للچائی ہوئی نظر سے نہ دیکھا،دنیا میں کوئی ہمالیہ کی چوٹی پر براجمان
ہونے کا داعی ہوتا تو بھی وہ اس کی لاف زنی کی پروا نہ کرتااور اپنی مٹی پر
چلنے کا قرینہ یاد رکھتا۔مٹی کی محبت میں اس نے اپنی جان پر واجب الادا سب
قرض ادا کیے یہاں تک کہ وہ قرض بھی ادا کر دئیے جو واجب بھی نہیں تھے۔ وہ
جب تک زندہ رہا اس کے پاس ہر مکتبہ ء فکر کے لوگ آتے اور اس سے دعا کی
استدعا کرتے ۔وہ سب کی باتیں پوری توجہ سے سُنتا اور ان کے مسائل کے جلد حل
کی دعا کرتا ۔اﷲ پاک کے فضل و کرم سے جب لوگوں کے مسائل حل ہو جاتے تو ان
کی حامد علی شاہ کے ساتھ عقیدت میں اضافہ ہو جاتا۔ اس کے ہزاروں عقیدت مند
پاکستان کے طول و عرض میں موجود ہیں۔وہ صبر اور قناعت کو زادِ راہ بنا کر
پیمانہء زیست بھر گیامگر اب اس کے عقیدت مند اس کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ اب دنیا میں ایسی ہستیا ں جنھیں حامد علی شاہ جیسا کہا جا
سکے۔
حامد علی شاہ کی گُل افشانی ء گفتار سے محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔اس کے
پڑوسی کا بچہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں سالِ دوم میں زیر تعلیم تھا ۔یہ نوجوان
طالب علم ڈٹ کر کھاتا مگر ورزش بالکل نہ کرتا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
نوجوان موٹاپے کے باعث پھول کر کُپا ہو گیا ۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ وہ کام
سے جی چراتا،بُری صحبت میں پھنس گیا اورساراد ن آوارہ گردی میں گزار
دیتا۔کالج میں وہ آرٹس کے مضامین پڑ ھتاتھا جن میں فزیکل ایجوکیشن کا مضمون
بھی شامل تھا۔یہ طالب علم باقی تمام مضامین میں تو بہت اچھی کا ر کردگی
ظاہر کرتا لیکن فزیکل ایجوکیشن کے مضمون میں اُسے ہمیشہ ناکامی کا منہ
دیکھنا پڑتا ۔ اس کے گھر والے بہت پریشان تھے ،ایک دن اس کا والد اسے لے کر
حامد علی شاہ کے پاس آیا اور بولا :
’’میرا یہ بیٹا انگریزی اور دوسرے تمام مضامین میں تو جیسے تیسے پاس ہو
جاتا ہے لیکن فزیکل ایجوکیشن کے مضمون میں بُری طرح فیل ہو جاتا ہے ۔مجھے
تویہ کسی جادو ،ٹونے ،حسد یا آسیب کا اثر دکھائی دیتا ہے۔کوئی عمل یا منتر
بتائیں کہ ایک دو حرف پڑھ جائے اور یہ فزیکل ایجوکیشن میں بھی پاس ہو
جائے۔‘‘
حامد علی شاہ نے اُس بے حد فربہ نوجوان کو دیکھ کر کہا’’اس نوجوان کی فزیکل
کنڈیشن ہی ایسی ہے کہ یہ فزیکل ایجوکیشن میں پاس نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے
ٹونے ٹوٹکے، منتر یا کسی عمل کی ضرورت نہیں بل کہ ایک سخت کفش کی احتیاج ہے
جو اسے بُری صحبت پر تین حرف بھیجنے پر آمادہ کرے۔‘‘
پیٹو اورکام چور نو جوان بہت نادم ہوااور شرم کے مارے پانی پانی ہو گیا
،بُری صحبت سے کنارہ کش ہو کر آئندہ پوری توجہ ،محنت اور لگن سے کام کرنے
کا وعدہ کیا۔اس نصیحت کا مثبت نتیجہ بر آمد ہوا اور سالانہ امتحان میں وہ
طالب علم تمام مضامین میں پاس ہو گیا۔
’’گھڑے بھن‘‘ کی بستی جھنگ کی ایک کچی آبادی ہے۔یہاں کا ایک نوجوان گندے
ٹوڑے (گندے پانی کاجوہڑ)کے کنارے رہنے والے بھانڈوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ سب
بھانڈ منشیات کے عادی اور جرائم پیشہ تھے ۔ا س نوجوان کے سر میں موسیقار
اور گلوکاربننے کا خناس سما گیا۔وہ ہر وقت بانسری کی دُھن پرگیت گاتا اور
آہ و فغاں میں اپنا وقت ضائع کرتا رہتا۔گھڑے بھن کے سب مکین اس نوجوان کی
بے راہ روی سے عاجز آ گئے ۔لڑکے کا والد بھی اپنے بیٹے کے اس مسخرہ پن سے
تنگ آ گیا اور اس کو خوب زد و کوب کرنے لگا۔لڑکے کا والد حامد علی شاہ کا
عقیدت مند تھا ۔ایک دن وہ لڑکا حامد علی شاہ کے پاس پہنچا اور اپنے والد کے
سخت رویے کی شکایت کرتے ہوئے بولا:
’’میرا والد مجھے طبیب بنانا چاہتا ہے مگر مجھے تواپنے حبیب کی جستجو
ہے۔میں گلوکار بن کر اپنے دل کے ارمان رقص ِمے اور ساز کی لے پر بیان کرنا
چاہتا ہوں ۔ جب میں مخنچومیراثی سے موسیقی سیکھنے جاؤں تو میراظالم باپ
ڈنڈوں سے میری پٹائی کرتا ہے۔میں نے راگ بھیرویں اور دیپک راگ سیکھ لیا ہے
۔میرا باپ آپ کا عقیدت مند ہے ،میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ اسے تشدد سے
روکیں اور مجھے موسیقی سیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔میری سُراورتان سن کر آپ
میری دادرسی کریں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی نوجوان نے بانسری کی دُھن پر یہ تان اُڑائی:
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہارآئی ہے
یہ سن کر حامد علی شاہ نے نوجوان کو غصے سے ٹوکا اور کہا:
’’یہ بے ہودہ گفتگو اور بے وقت کی راگنی بند کرو ۔تم جہاں موسیقی سیکھنے
جاتے ہو وہاں سے عفونت اورسڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔تمھاری باتیں سن کر
مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تمھارا باپ سچا ہے ۔میرا تو جی چاہتاہے کہ تمھارے
باپ کے ساتھ مِل کر تمھاری خوب دُھنائی کروں تا کہ تمھارا دماغ ٹھکانے آ
جائے۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ نوجوان وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔حامد علی شاہ نے اس کے لیے
دعا کی ۔چند روز بعد معلوم ہوا کہ وہ نوجوان ایک حکیم کے مطب میں طب یونانی
کی تعلیم حاصل کرنے پہنچ گیا۔
میلاد چوک جھنگ شہر کے سامنے ایک معمر بزرگ رہتے تھے ۔لوگ انھیں میر صاحب
کہہ کر پُکارتے تھے۔میر صاحب اور حامد علی شاہ پڑوسی بھی تھے اور ان کے
دیرینہ مراسم بھی تھے۔میر صاحب کی اولاد روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک
منتقل ہو گئی ۔میر صاحب اپنے وسیع و عریض مکان میں تنہا رہتے تھے جہاں
مستقل سناٹے ،اُداسیوں اورجان لیوا تنہائیوں کا راج تھا۔ اس وسیع مکان پر
آسیب زدہ کھنڈر کا گُمان گُزرتا تھا۔اپنی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے لیے
میر صاحب نے بڑی بڑی موٹی بطخیں پال رکھی تھیں،ان بطخوں کی آواز سن کر وہ
بہت خوش ہوتے اور کہتے کہ اب تو ان کی تنہائیوں کے ساتھی یہی پرندے ہی رہ
گئے ہیں ۔ میر صاحب بطخوں سے بہت پیار کرتے تھے وہ بطخوں کے سامنے بیٹھ کر
گھنٹوں ان کی مختلف آوازیں سُنتے اور پھر ان سے ہم کلام رہتے ۔اداس بام اور
کُھلے در کس قدر جان لیوا ہوتے ہیں اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
سب لوگ یہی کہتے تھے کہ اب تو یہ بطخیں ہی میر صاحب کی جانگسل تنہائیوں کی
رفیق اور شب و روز کی غم گُسار تھیں ۔ایک مرتبہ میر صاحب اچانک علیل ہو گئے
،ان کی تیمار داری اور بطخوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔حامد علی
شاہ نے شہر کے ممتاز معالج ڈاکٹر محمد کبیر خان کو میر صاحب کی علالت کے
بارے میں بتایا ۔میر صاحب ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو گئے تھے،ان کا باقاعدہ
علاج شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر محمد کبیر خان کے شفاخانے میں میر صاحب کی ہمہ وقت
خدمت ،نگہداشت ،علاج اور غذا کا انتظام کیا گیا ۔ بطخوں کی غذا اور نگہداشت
کی ذمہ داری حامد علی شاہ نے ازخود سنبھال لی۔میر صاحب ایک ماہ بیمار رہے
،اس عرصے میں حامد علی شاہ نے میر صاحب کی اور بطخوں کی خدمت میں کوئی کسر
اُٹھا نہ رکھی۔میر صاحب کی علالت پرنہ صرف ان کے پڑوسی فکر مند تھے بل کہ
اُن کی پالتو بطخیں بھی پریشان تھیں، انھوں نے کھانا پینا بہت کم کر دیا وہ
میر صاحب کی چارپائی کے گرد خاموش کھڑی رہتیں ۔حامد علی شاہ نے ان بطخوں کی
خورا ک پر پوری توجہ دی اور جلد ہی وہ پھر سے اپنے معمول کے مطابق کھانے
پینے اور گھومنے پھرنے لگیں۔بعض واقفِ حال لوگوں کا خیال ہے کہ حامدعلی شاہ
نے بھی میر صاحب کی طرح بطخوں کی زبان اچھی طرح سمجھ لی تھی۔میر صاحب کی
صحت یابی کے بعد جب بھی حامد علی شاہ اس طرف سے گزرتا سب بطخیں سر جھکا کر
چونچیں نیچی کر کے اپنے محسن کی خدمت میں آداب بجا لاتیں اور حامد علی شاہ
ان پرندوں کو دعا دے کر آگے بڑھ جاتا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس دنیا میں
ہر مخلوق حتیٰ کہ کوہسار اور اثمار و اشجار کی بھی اپنی زبان ہے۔ بچہ جب
ایک برس کا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی زبان سے قابل فہم الفاظ کی ادائیگی پر
قدرت حاصل کر لیتا ہے۔زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا حصول کہ کسی خاص
موقع پر کون سا لفظ منہ سے نکالنا ہے اس میں انسان کی پُوری زندگی صرف ہو
جاتی ہے۔حامدعلی شاہ کی مقبولیت، مستحکم شخصیت اور احباب کے ساتھ معتبر ربط
کا راز بردباری ،تحمل اور انکسار میں پوشیدہ تھا۔اسے معلوم تھا کہ اس دنیا
میں کوئی بھی شخص عیب سے خالی نہیں اس لیے اس نے اپنے احباب کے ساتھ ٹُوٹ
کر محبت کرتے وقت اُ ن کے عیوب کی ٹوہ لگانے میں کبھی وقت ضائع نہ کیا بل
کہ جو شخص جیسا بھی ہے اسے سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اسی مثبت سوچ کے اعجاز سے
وہ تنہائیوں کے مسموم ماحول سے بچ نکلا اور اس کے مخلص احباب میں روز بہ
روز اضافہ ہونے لگا۔
اپنی عملی زندگی میں حامد علی شاہ نے اپنے ذہن و ذکاوت اور بصیرت کو ہمیشہ
خِضر راہ بنایا ۔قرآن حکیم ،حدیث ِ پاک اور تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ اس کا
معمول تھا۔وہ یہ بات بر ملا کہتا کہ اگر آج بھی انسان کو ایمانِ کامل کی
دولت نصیب ہو جائے تو آگ بھی اندازِ گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔بے یقینی کے وہ
سخت خلاف تھااس لیے اس نے جو کام بھی کیا پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کیا
۔اس کی دیانت داری ،صداقت ،امانت داری اور خلوص کا ایک عالم معترف تھا۔جبر
کا ہر انداز مسترد کرکے حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنانے والے اس درویش نے
سدا اس بات پر اصرار کیا کہ کبھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی جائے۔اسے معلوم
تھا کہ ان بوسیدہ اور فرسودہ کھنڈرات میں حنوط شدہ لاشیں لرزہ خیز اور
اعصاب شکن بے حسی کی تصویر پیش کر رہی ہیں ۔قصرِ فریدوں کے رخنوں میں مظلوم
انسانیت کے استخواں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔ہمارے ساتھ سانحہ یہ ہوا کہ اب
اس قصر و ایوان میں چلتے پھرتے ہوئے مُردوں نے اندھیر مچا رکھا ہے ۔ بے بس
و لاچار انسانیت کی آہ و فغاں محرابِ زر سے اُٹھنے والے بلند قہقہوں کے شور
میں دب جاتی ہے۔اس نے ہمیشہ اس جانب توجہ دلائی کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے
کوئی محفوظ نہیں ،تبسموں سے لدے طا قچے اور تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلے
نیست و نابود ہو جائیں گے۔استحصالی عناصر کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی
چاہیے کہ انھیں اپنی فردِ عمل کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔خالقِ کائنات کے
ہاں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن وہاں اندھیرہر گز نہیں ۔ بے رحم استحصالی عناصر
فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ کر رہیں گے اور تا دیر فطرت کی گرفت تپاں سے
اپنی ساعدِناز ک نہیں بچا سکیں گے۔ وہ اس بات پر آزردہ تھا کہ معاشرتی
زندگی میں مجبوروں ،مظلوموں اورفقیروں کے حالات توجوں کے توں رہے جب کہ
بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنا اُلو سیدھا کرنے والے ابن الوقت بے ضمیروں
کے وارے نیارے ہو گئے۔وہ اﷲ کی رحمت سے نا اُمید نہیں تھااور ہرحال میں اﷲ
کی رضا پر راضی رہنا اس کا شیوہ تھا۔
کاروانِ ہستی کے ایک آبلہ پا مسافر کی حیثیت سے حامد علی شاہ نے جس استغنا
،استقامت اور صبر و تحمل کے ساتھ صعوبتوں اور کٹھن حالات کے صحرا کا سفر
جاری رکھا،وہ اس کی عظمت اور بردباری کی دلیل ہے۔ماہرین علم بشریات کا خیال
ہے کہ ایامِ گزشتہ کی تلخ یادیں انسان کے زخموں کو روئی کے گالوں کے مانند
دُھنک کر رکھ دیتی ہیں۔حامد علی شاہ جب بھی اپنی تسبیح ِ روز و شب کا دانہ
دانہ شمار کرتا تو ضبط کا دامن تھا م لیتا۔وہ اس جانب متوجہ کرتا کہ قحط
الرجال کے موجودہ دور میں مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ کارواں
کے دل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگا ہے۔ہر طرف خود غرضی ، دہشت گردی ،ہوسِ
زر ،اقربا پروری ،استحصال اور جبر کا عفریت منڈلا رہا ہے۔ہوائے جور و ستم
کے مسموم بگولوں نے امیدوں کی فصل کو غارت کر دیا ہے جس کے نتیجے میں بے بس
انسانوں کی زندگی بھر کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔اس جان لیوا مسموم ماحول
میں غریبوں کے مقدر کی تاریکیاں بڑھ رہی ہیں۔ان سفاک ظلمتوں اور مہیب
سناٹوں میں ظالم و سفاک اور موذی و مکار استحصالی عناصر پُھنکارتے ہوئے
ناگوں کے مانند مظلوم انسانیت کے در پئے آزار ہیں۔ان سے نجات کے لیے اعصائے
موسیٰؑ کی اشد ضرورت ہے۔اس کی زندگی کے شب و روز کا بہ نظر غائر جائزہ لینے
کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ایام کا مرکب نہیں بل کہ ایام کا
راکب تھا ۔مذہب کی ابدی اور آفاقی تعلیمات پر عمل کر کے وہ اس بصیرت سے
متمتع ہوگیا کہ ا س مردِ حق پرست کی نگاہ سے لوگوں کے مقدر بدل جاتے ۔حامد
علی شاہ مطالعہ کتب کا دل دادہ تھا۔اس نے علمی ،ادبی اور دینی کتب کا
مطالعہ کیا اور اپنی یادداشتیں بھی قلم بند کیں۔اس کی خود نوشت ’’زندگی
صبرِ مسلسل کی طر ح کاٹی ہے‘‘حرف ِصداقت کا اعلا معیار پیش کرتی ہے۔اس
خودنوشت کا تعارف جھنگ کے نامور شاعر رام ریاض نے لکھا تھا۔حامد علی شاہ کا
بیٹا ساجد علی یہ چاہتا تھا کہ اس کے والد کی یہ خود نوشت شا ئع ہو اور لوگ
ایک خادمِ خلق کی زندگی کے ناخواندہ اوراق پر بھی نظر ڈالیں ۔نوجوان ساجد
علی کو اپنے باپ سے بہت محبت تھی،اسی محبت سے سر شار ہو کر وہ اپنے باپ کی
زندگی کے افسانے کی جلد اشاعت کا آرزو مند تھا۔ بڑے شہر کے ایک ناشر نے
ساجد علی سے یہ مسودہ ہتھیا لیا اور اس کی جلد اشاعت کا وعدہ کیا ۔اس کے
ساتھ ہی ناشر نے طباعتی اخراجات کے لیے سا جد علی سے کچھ رقم بھی اینٹھ
لی۔تقدیر ہر لحظہ،ہر گام اور ہر مرحلے پر انسانی تدبیرکی دھجیاں اُڑا دیتی
ہے اور جب وقت اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو وہ ہاتھ ملتا رہ جاتاہے۔ ساجد
علی اپنے والد کی وفات پر بہت دِل گرفتہ رہنے لگا۔ جس طرح ایک سر بہ فلک
درخت کو جب دیمک لگ جاتی ہے تو وہ زمیں بوس ہو جاتا ہے اسی طرح جب کسی
انسان کے دلِ میں غم مستقل طور پر ڈیرہ ڈال لے تو پھر یہ غم اس کی جان لے
کر ہی نکلتا ہے ۔ حیف صد حیف حامد علی شاہ کی وفات کے ایک برس بعد نو جوان
ساجد علی اچانک حرکت قلب بند ہونے کے باعث داغِ مفارقت دے گیا ۔ حامد علی
شاہ کی خود نوشت شائع کرنے کا وعدہ کرنے والے اس جعلی ناشر کا اب کہیں اتا
پتا نہیں ملتا اور سب حقائق سرابوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یہ ناشر بھی
لُٹیرا تھااس قماش کے چوروں ،ٹھگوں اور اُچکوں نے زندگی کی تمام حسین رُتیں
بے ثمر کر دی ہیں۔ حامد علی شاہ کی زندگی کے حالات کی امین اس خود نوشت کے
اوراق سیلِ زماں کی مہیب مو جیں بہا لے گئیں ۔اب المیہ یہ ہے کہ ماضی کے
تمام واقعات پر ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد پڑ گئی ہے اورکچھ سُجھائی نہیں
دیتا ۔
25جولائی 1999کو علی ا لصبح مجھے حامد علی شاہ کی شدیدعلالت کی اطلاع ملی۔
اسی روز سہ پہر کے وقت میں پروفیسر غلام قاسم خان کے ہمراہ حامد علی شاہ کے
گھر پہنچا ۔ اس کے گھر سے زار و قطار رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ہمیں معلوم
ہوا کہ حامد علی شاہ نے زینہء ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی
جانب رختِ سفر باندھ لیا تھا۔ اس سانحے کو دیکھ کر روح زخم زخم اور دل کرچی
کرچی ہو گیا۔ہم نے پُر نم آنکھوں سے اس عظیم انسان کا آخری دیدار کیا۔ اس
کے چہرے پر اطمینان اور لبوں پر ہمیشہ کی طرح سدا بہار مسکراہٹ تھی۔ ہزاروں
افراد اس کی نماز جنازہ میں شامل تھے جن کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح
برس رہی تھیں ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ ایسے نایاب لوگ اب دنیا میں
کہاں۔اس کے جاتے ہی دیوار و در کی صورت ہی بدل گئی۔ اب دل کی ویرانی کا کیا
مذکور ہے ،پورا شہر سائیں سائیں کرتا محسوس ہو تا ہے۔تقدیر کے ایسے چاک
سوزنِ تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے۔اس کے عقیدت مندوں کے جب تک دم میں
دم ہے،وہ اس کے حضور آنسوؤں اور آہوں کی صورت میں اپنے جذباتِ حزیں کا
نذرانہ پیش کرتے رہیں گے۔ جس سرعت کے ساتھ زمین عظیم اور فیض رساں انسانوں
سے خالی ہوتی چلی جا رہی ہے ،آسمان کا یہ رنگ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے
۔ اﷲ کریم حامد علی شاہ کوجوارِ رحمت میں جگہ دے ۔کر بلا حیدری جھنگ شہر کے
شمالی گوشے میں لبِ سڑک یہ درویش آسودہء خاک ہے ، اس کی لحد پر اس کے نام
کا کتبہ نصب ہے۔
لوح ِ مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے سا تھ فقط سنگ رہ گیا |