دوسرا رخ

ان دنوں پاکستانی عوام بد ترین ڈپریشن کا شکار ہے ہر شخص اپنے اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہے ۔ بے سکونی کا یہ سلسلہ ہماری 68 سالہ تاریخ میں بغیر کسی وقفے کے موجود روا ہے۔ فکر معاش ہو یا فکر روزگار، فکر مستقبل ہر یا فکر حال المختصر کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جس میں ہم بے فکر ی اور سکون حاصل کر سکیں۔ ہمارے ہاں فلم انڈسٹری تو اچھے رائٹرز اور ڈائیریکٹر ز نہ ہونے کی وجہ سے زوال پزیر ہو گئی مگر گم نام ڈائیریکٹرز اور رائٹرز ایسے سیاسی تھیٹر منعقد کر تے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اب بھی ایس ہی ہوا ۔ اسلام آباد میں انقلاب اور آزادی کے نام پر عین جشن آزادی کے دن چند ایسے سیاسی اداکاروں نے جن کے سپورٹنگ ایکٹرز اپنے علاوہ سب کو غلب اور بد کر دار سمجھتے ہیں۔ ایس تھیٹر رچا رکھا ہے جسے چند ہوار لوگوں کا مجمع با امر مجبوری دیکھنے پر مجبور ہے مگر اس سکرپٹ میں بعض ٹی وی چینلز کے لیے تھی کچھ ایسی کشش شامل کی گئی ہے کہ وہ اشتہارات کو بھول کر اسے فُل ٹائم کوریج دے رہے ہیں اور وہا ں ایسے جدید کیمرے موجود ہیں جو ایک کے پانچ دیکھتے ہیں۔ پُر تعیش کنٹینرز جو تمام سہولیات سے بھرپور ہیں۔ ان میں بیٹھے انقلابی اپنی تقریروں سے نہ صرف ملک کو انتشار بلکہ بد اخلاقی کا ایسا درس دے رہے ہیں جو کل ناسُور بن کر ان کے گلے پڑے گا۔ یہ وہ تصویر ہے جس کے بہت سے بھیانک رخ ہماری تاریخ پر بد نما دھبا بن کر ہمیشہ اسے دھندلا رکھیں گے۔ اس جی ٹی روڈ گیم شوکی خاص بات یہ ہے کہ سندھ، بلوچستان، گلگت،کشمیر، جنوبی پنجاب کو نکال کر باپی علاقوں کے چند ہزارلوگ ایسا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جس میں جیو اور آج جیسے چینلز کے صحافیوں کیمرہ مینز کو محض اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ان انقلابیوں کے گیت نہیں گا رہے بلکہ تصویر کے دونوں رخ دکھا رہے ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ اس مہم میں شریک چینلز کے صحافیوں کی سرے عام گلے لگا کر جانب دارانہ صحافت پر غیر جانب داری کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اس درامے میں استعمال کی جانے والی زبان سٹیج ڈراموں کے وولگر ڈائیلاگ سے زیادہ بد تر اور رویے افسوس ناک ہیں۔کیا ہم یہ طے کر لیں کہ ریاست کو ابنا کمزور ہونا چاہیے کہ جو بھی چند ہزار کا مجمع اکٹھا کر سکے وہ ریاست کے معاملات تہس نہس کر دے اگر یہ طے ہو گیا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان شاید انہی دونوں جماعتوں کو ہو۔ کیونکہ P T I سے زیادہ ورکرز توM Q M جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب کے مریدین سے بڑے گروپ بھی یہاں مو جود ہیں۔ جس طرح اس جشن آزادی کو حجان برپا کیا گیا ہے شاید دوسروں کی سیاسی قبر کھودنے والے خود سیاسی یتیم ہو چکے ہیں۔

مجمعے میں موجود لوگوں کے صبر کو داد دینا پڑے گی کہ وہ بھوک پیاس کی شدت میں اپنے لیڈران کو بریانیاں کھاتے دیکھ کر ان پر ٹوٹ نہیں پڑے۔ شاہ راہ ِ دستور پہ سجنے والی رقص کی محفلیں بتا رہیں ہیں کہ نیا پاکستان کیسا ہو گا اور ان محفلوں میں جھومتے ہوئے قائدین کی حرکتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نئے پاکستا ن کو بنا کر کون کیا کرنا چاہتا ہے۔اس سارے منظر نامے میں حکومت کی نا اہلی اور نادانی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔حکومت کے اقدامات بھی اس بات کا مظہر ہیں کہ وہ کسی انجانے خوف کا شکار ہے کہ یہ چند ہزار لوگ کسی تیسرے ہاتھ کے ذریعے ہمیں اقتدار سے محروم نہ کر دیں حالانکہ وہ تیسرا ہاتھ جمہوریت کا محافظ ہے۔

60ڈگری ٹھنڈی حکومت کی تاخیر نے شاہ راہ دستور کو شالامار باغ بنا دیا ہے۔ مذاکرات کے نام پر کیا جانے والا مذاق اور آئے دن ایک نئی تاریخ اور ایک نیا الزام بھارتی ڈرامے’’کم کم‘‘ کی طرح طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے جس سے معاشی اور اقتصدی نقصان ہورہا ہے۔ ایسے میں پروفیسر لجپال سے اپیل کی جا سکتی ہے کہ وہ فوراََ کینیڈا پہنچیں اور اسلامی انقلاب کا اعلان کر دیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں وٹے سٹے کی رسم عام ہے ایک انقلابی کینیڈا سے آیا تو بدلے میں ہم ایک بھیج بھی رہیں ہیں ۔ رہا سوال 58سالہ نوجوان کا جو نیا پاکستان بنا کر شادی کر نا چاہتا ہے تو اس نوجوان کو پاکستان نیا ہو یا پرانا شاید گولڈ سمتھ نہ مل سکے ۔ اس تمام صورتحال کے بعد میں اپنے قارئین سے چند سوال پوچھتی ہوں جن کے جواب وہ صرف اپنے ضمیر کے مطابق دیں۔

کیا انقلاب ایسے آیا کرتے ہیں؟کیا انقلابی اور تبدیلی کے نام لیوا ان جیسے ہوتے ہیں؟کیا نیلسن منڈیلا، یاسرعرافات ، مصطفیٰ کمال جیسے انقلابیوں کی کوئی ایک خوبی ان میں یا ان کے ساتھیوں میں ہے؟کیا یہی تبدیلی ہے کہ میاں صاحب کو اُتار کر خود کرسی پر چڑھ جانا؟ جو لوگ اپنے کردار سے اس دھرتی کا نام روشن کرتے رہے ہیں ایسے باوقار ججز اہل قلم کو یوں رُسوا کر نا کیا انقلابیوں کے شایان شان ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہر شخص کو اپنا قائد مان کر اسکے پیچھے لگ جانا اس کا ماضی حال دیکھے بغیر اس سے مستقبل کی اُمیدیں وابستہ کر نا ریاست کو غیر مستحکم کرنا کیا سلجھے ہوئے لوگوں کو زیب دیتا ہے اور کیا میڈیا کو اس لیے آزادی دی گئی تھی کہ وہ جب چاہے کسی غیر پارلیمانی اور غیر معروف شخصیت کو نجات دہندہ بنا کر ایسی صورت حال پیدا کریں کہ ملک خانہ جنگی کی جانب چل پڑے۔

تبدیلی خود کو ٹھیک کرنے سے آتی ہے اگر ہر شخص تبدیلی کا خواہش مند ہے تو سب سے پہلے اپنے اندر موجود منفی رجحانات کو مثبت میں تبدیل کرے۔ معاشرہ بتدریج تبدیل ہو جائے گا اور انشااﷲ معاشرہ انارکی سے امن میں ضرور تبدیل ہو گا مگر ان سیاسی اداکاروں کے ذریعے نہیں۔

Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 24023 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.