12 اگست سے قوم ایک ہیجان میں مبتلا ہے۔پی ٹی آئی اور
عوامی تحریک کے کارکنان نے دھرنے اور احتجاج کے نام پر غنڈہ گردی اور
بدمعاشی کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس موقع پر حکومت کے فیصلے کی داد نہ دینا
زیادتی ہوگی۔حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سبق لیتے ہوئے اس بار مزاحمت اور
سختی سے گریز کرتے ہوئے ان دونوں کو کھلی چھوٹ دیدی ، اور اس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ یہ دونوں حضرات ( عمران خان ، طاہرالقادری ) قوم کے سامنے بے نقاب
ہوتے چلے گئے۔ مارچ، مارچ کے بعد شاہراہِ دستور پر دھرنا، پھر پارلیمنٹ
ہاؤس کے سامنے دھرنا اور پھر وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے دھرنے کے نام پر قبضے
کی کوشش کرنا۔
مطالبات، مذاکرات لیکن دونوں کی ہٹ دھرمی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیے رہی
تھی ،دونوں حضرات کسی کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے ایک دو
مطالبات کے علاوہ سارے مطالبات مان لیے گئے تھے لیکن ان دونوں کی ضد ختم
نہیں ہورہی تھی ۔ لیکن۔۔۔۔۔
لیکن اب تو سارا کھیل واضح ہوتا جارہا ہے۔ معلو م ہوا کہ اس سارے کھیل کے
پیچھے تو وردی ہے۔منتخب پارلیمنٹ، اور منتخب حکومت کو پابند کیا جارہا ہے
کہ وہ ان مظاہرین ( دراصل ریاست کے باغیوں ) کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے،
انہیں فری ہینڈ دیا جائے۔ سترہ اٹھارہ روز کے صبر کے بعد جب حکومت نے
مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی تو وردی والوں کو یہ بات سخت
ناگوار گذری، انہوں نے ایک دن پہلے ہی اپنا اجلاس بلا کر حکومت کو یہ پیغام
دیدیا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس بات
سے شہہ پاکر اگلے روز باغیوں نے سرکاری ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کرکے نشریات
بند کرادیں۔
ادھر جاوید ہاشمی نے بروقت پریس کانفرنس کرکے عمران خان کے غبارے سے ہوا
نکال دی اور سارا راز طشت از بام کردیا کہ اس کھیل کے پیچھے آرمی ہے ،
عمران خان اور طاہرالقادری آرمی کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔ان کی پریس
کانفرنس سے برافروختہ ہوکر عمران خان نے انہیں پارٹی سے نکال دیا لیکن دیر
ہوچکی تھی، جاوید ہاشمی نے درست وقت پر پریس کانفرنس کرلی ۔ یوں کہہ لیں کہ
گھوڑے نے پہلے پھونک ماردی ۔وقت کے فرق سے عمران اور جاوید ہاشمی کی بات
میں زمین آسمان کا فرق ہوگیا۔ اگر عمران خان جاوید ہاشمی کو پہلے برخواست
کرتے اور بعد میں وہ پریس کانفرنس کرتے تو جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس اور
ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور لوگ یہ کہتے کہ عمران نے ان کو
الگ کردیا اس لیے اب یہ ایسی باتیں کررہے ہیں لیکن جاوید ہاشمی کی پریس
کانفرنس کے بعد اب عمران خان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔
سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر قبضہ کرنا بغاوت کے ذمرے میں آتا ہے ۔ دنیا میں
جہاں جہاں بھی حکومت کا تختہ الٹا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے سرکاری ٹی وی ،
ریڈیو اور ذرائع ابلاغ پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے پی ٹی وی پرقبضہ کرنا
اور نشریات معطل کرنا دراصل ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان ہے لیکن حیرت
انگیز طور پر ریاست اور آئین کی وفاداری کا حلف اٹھانے والی فوج نے سرکاری
ٹی وی پر قبضہ کرنے والے باغیوں کو اطمنان سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا،
باغی آرمی کے جوانوں کے سامنے نعرے بازی کرتے ہوئے چلے گئے اور کسی ایک کو
بھی گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ
عمران خان اور طاہر القادری آرمی کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے اور آرمی کو اتنا لمبا کھیل چلانے
کی کیا ضرورت ہے؟ ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے میں چاہوں گا کہ ذرا ماضی
قریب کی کچھ بات کرلی جائے۔
زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب جامعہ حفصہ کی باپردہ طالبات نے فحاشی کے اڈوں کے
خلاف حکومت کو درخواست دی اور جب ان درخواستوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو ان
بچیوں ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا لیے تھے۔ یہ بچیاں نہ تو مشرف کے استعفے کا
مطالبہ کررہی تھیں نہ ان کے کوئی لمبے چوڑے مطالبات تھے۔ ان کا مطالبہ صرف
یہ تھا کہ مساج سینٹرز کے نام پر فحاشی کے اڈے اور فحش سی ڈیز کا کاروبار
ختم کیا جائے۔ان بچیوں کے یہ مطالبات سامنے آتے ہی منافق میڈیا میں ایک
بھونچا ل آگیا اور جامعہ حفصہ کو اس طرح پیش کیا گیا گویا کہ یہ لوگ ریاست
اور پارلیمنٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک ایسا ہیجان برپا
کردیا گیا اور جامعہ حفصہ و لال مسجد کی آڑ میں شعائر اسلام پر حملے شروع
کیے گئے اور دوسری جانب فوج نے جامعہ حفصہ کا محاصرہ کرلیا، کسی کو اس جانب
جانے کی اجازت نہیں دی گئی، کوئی مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دیئے گئے اور
بالآخر جامعہ حفصہ کی ان طالبات پر فاسفورس بموں سے حملہ کیا گیا، سینکڑوں
کا شہید کیا گیا، درجنوں لاپتہ ہوگئیں، مسجد گولیوں سے چھلنی کردی گئی ،
رات کی تاریکی میں درجنوں شہیدوں کی تدفین کی گئی اور عمل کو ریاست بچانے
کے لیے لازمی قرار دیدیا گیا۔
طالبان کو اٹھتے بیٹھے گالیاں دینے والے میڈیا کو آج عمران خان اور طاہر
القادری کا طالبان ازم نظر نہیں آرہا ۔ اگرکوئی مذہبی جماعت حکومت کی
برطرفی کا مطالبہ کرتی اور کارکنان کو اسلام کی جانب لاتی تو اب تک ان کے
کارکنوں کا دسواں بھی منایا جاچکا ہوتا لیکن آج بیس دنوں ہونے کو آئے ہیں۔
دار الحکومت میں یہ باغی قبضہ کیے بیٹھے ہیں ، حتیٰ کہ انہوں نے بغاوت کی
علامت یعنی سول نافرمانی اور سرکاری ٹی وی پر قبضہ جیسے کام بھی کرلیے ہیں
لیکن چند ایک کو چھوڑ کر تمام میڈیا اور فوج ان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
اب ہم اس جانب آتے ہیں فوج کا ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے؟ حتمی طور پر تو ہم کچھ
نہیں کہہ سکتے لیکن تمام صورتحال اور عمران خان کا نیا پاکستان کا ذو معنی
نعرہ سے کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔عمران خان کو یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اگر
وہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتخابات کے ذریعے وزیر بننے کی کوشش کرتے ہیں
تو اس عمل میں بہت زیادہ وقت لگے گا اور عمران خان زیادہ دیر صبر کرنے کے
لیے تیار نہیں ہیں، اسی لیے فوج سہار ا لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انکے دھرنے
میں ناچ گانا، خواتین کا رقص اور آزادی اور ان کا نعرہ نیا پاکستان ہماری
ناقص رائے کے مطابق 1973کے متفقہ آئین کو معطل کرکے ایک نیا آئین بنانا ہے۔
فوج کا بھی یہی ایجنڈا ہے کہ تہتر کے آئین کو معطل کردیا جائے۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ تہتر کو آئین کو معطل کیوں کیا جائے؟ اور آرمی سیدھے سادھے
طریقے سے قبضہ کیوں نہیں کررہی ؟ جواب ہے کہ پاکستان کے آئین کا لازمی حصہ
قرارداد مقاصد ہے جس کے مطابق پاکستان میں قرآن و سنت کے منافی کوئی بھی
قانون سازی نہیں ہوسکتی اور ایسی کسی بھی کوشش کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ تہتر کا آئین متفقہ آئین ہے اور اس کی غیر موجودگی میں
دوبارہ تمام صوبوں اور پارٹیوں کا کسی ایک آئین پر متفق ہونا ناممکن نہیں
تو بہت زیادہ مشکل ضرور ہے یعنی قوم متحد ہونے کے بجائے منتشر ہوسکتی ہے
اور ایسی صورتحال میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں اور خاکم بدہن
سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحات رونما ہوسکتے ہیں۔تیسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ تہتر
کے آئین میں قادنیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔اس آئین کی موجودگی میں
قادیانی کواپنی مکروہ سرگرمیوں اور گمراہ کن عقائد کی تبلیغ میں مشکل پیش
آتی ہے اس لیے بھی تہتر کے آئین کو معطل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
(طاہر القادری تو بارہا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کسی آئین کو نہیں
مانتے ) -
اب رہ گئی یہ بات کہ فوج براہ راست حکومت پر قبضہ کیوں نہیں کرلیتی ؟ اس کا
جواب یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بار فوج براہ راست
تختہ الٹنے کے بجائے ایسے حالات پیدا کررہی ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں،
سیاستدانوں اور جمہوری عمل سے متنفر ہوجائیں اور ان کے غیر آئینی اقدام کو
غلط کہنے کے بجائے درست کہا اور سمجھا جائے اور انکے غیر اقدام کے خلاف جب
سیاسی رہنما عوام کے پاس جائیں تو عوام ان کی بات نہ سنیں اور بغاوت کے
خلاف کوئی عوامی تحریک یا مؤثر احتجاج نہ کیا جاسکے۔
بہرحال صورتحال کا جائزہ لینے سے تو یہی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ حالات اب
کیا کروٹ لیتے ہیں؟ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے البتہ میری
رب پاک سے یہی دعا کہ میرے اندازے اور خدشات بالکل غلط ثابت ہوں تو بہت
اچھا ہے، اور یہ بحران اور بے یقینی کی کیفیت جلد از جلد ختم ہوجائے ۔ |