حکومتوں کے چل چلاﺅ کا وقت

میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کی آخری تقریر جلال پور جٹاں میں کی تھی۔ اپنی معزولی سے چند گھنٹے قبل میاں نواز شریف نے کہا تھا حکومت مضبوط ہے اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ قومی اتحاد کے مذاکرات کے دوران بھٹو صاحب نے بھی یہی کہا کہ یہ کرسی(وزارت عظمیٰ) بہت مضبوط ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، اور نواز شریف کے جن دو ادوار میں حکومتیں ختم کی گئی۔ ان میں کسی بھی حکمران کو آخری وقت تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی حکومتوں کے چل چلاﺅ کا وقت آ گیا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ماسوائے جنرل یحییٰ خان تمام ہی فوجی انقلاب کے بانیوں کا خیر مقدم کیا گیا۔ یہ بھی ہمارے لئے شرمناک بات ہے کہ فوجی حکمرانوں کے عرصہ اقتدار میں طویل عرصے تک لب کشائی نہ کرنے والے سیاست دان، جمہوری حکومتوں کے برسراقتدار آنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد کرپشن، بد عنوانی، لوٹ مار، اقرباء پروری، غیر شفاف حکمرانی، اور عوام کو ریلیف نہ دینے کے معاملے میں اسقدر بدنام ہوجاتے ہیں، کہ سنتا جا شرماتا جا۔۔ کے مصداق یہ داستانیں ہر جگہ ان کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ پھر یہ بھی بدنصیبی کی بات ہے کہ یہ سیاست دان، عدم اتفاق، انتشار، غیر ذمہ داری، اور ہوس اقتدار میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ عوام ان سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ پھر سیاستدانوں میں کشمکش ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام لگتے ہیں سیاست دان رسوا ہوتے ہیں۔ اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو کوئی چشم پر نم نہیں ہوتی، کوئی آواز بلند نہیں ہوتی، اور ان کو طویل عرصے کے لئے اقتدار کی راہداریوں سے دور کردیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی کرپشن پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہی سے سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی درپردہ سازش ہوتی رہی ہیں۔اسکندر مرزا، ایوب خان نے جو گڑھا دوسرے سیاست دانوں کے لئے کھودا، خود اسی گھڑے میں گرے۔ ایوب خان کی بدنامی میں ان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب اور گندھار انڈسٹریز کی داستانیں تھیں۔ بھٹو کی آمرانہ روش انھیں لے ڈوبی۔ جبکہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں کرپشن کی ہوشربا داستانیں منظر عام پر آئی۔ ان سیاست دانوں کے احتساب کا نعرہ لگانے والے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سب سے زیادہ قرضے معاف کر کے ایک ایسی بدعنوانی کا ارتکاب کیا گیا جس سے پورے معاشرے کا نظام تلپھٹ ہوگیا ہے۔ ان اندازے کے مطابق ان کے دور میں جو قرضے معاف کئے گئے ان کی کل مالیت تقریباً 108 ارب روپے تھی۔ 1982 ء میں معاف کرائے گئے قرضوں کی مالیت صرف 8 ارب روپے تھی جو 1999 ء میں بڑھ کر 164 ارب روپے ہو گئی تھی۔ نواز شریف کے دونوں ادوار میں 22.35 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ ان کے پہلے دور میں تقریباً 2.5 ارب روپے اور دوسرے دور میں تقریباً 20 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ شہید بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں کل ساڑھے سات ارب روپے کے قرضے معاف ہوئے جن میں سے 45 کروڑ روپے پہلے دور میں اور پونے سات ارب روپے دوسرے دور میں معاف ہوئے۔ یہ قرض معاف کرانے والے کون تھے۔ اور قومی خزانے پر یہ بوجھ کیوں ڈالا گیا۔ سیاست دانوں کے یہی شب و روز ہیں جن کے سبب پاکستان کرپشن میں دنیا میں بدنام ہورہا ہے۔

عالمی ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے بد عنوان ممالک کی 2009 ء کی جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 42 واں نمبر ہے جبکہ سال 2008 ء کی رپورٹ میں پاکستان کا نمبر 43 واں تھا۔ عالمی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی پوزیشن گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے اور اب یہ اس فہرست میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس سے پہلے سال 2001 ، 2002 اور 2003 میں یہاں کرپشن بہت زیادہ تھی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دہشت گردی کے نتیجہ میں نہ صرف غربت بلکہ کرپشن بھی بڑھتی ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سال 1991 سے 2007 کے دوران قانونی اور غیر قانونی طریقے سے فوجی حکومتیں اور پاور کا غلط استعمال بھی کرپشن کی وجہ بنا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرپشن، بد انتظامی، کے باعث پاکستان کی ساکھ دنیا میں تقریباً ختم ہو گئی پاکستان کرپشن کے باعث شدید مالی مشکلات کا شکار ہے غربت، مہنگائی، خوراک اور بجلی کی کمی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو اچھی حکومت شفاف انتظامیہ اور کرپشن کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ پاکستان انحطاط کا شکار رہے گا۔ عوام کی حالت پتلی ہو۔ اور بے چینی بڑھ رہی ہو تو حکومتوں کو سمجھ جانا چاہئے کہ ان کے اقتدار کو عرصہ تیزی سے ختم ہورہا ہے
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418835 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More