مسئلہ اعتبار کا ہے

ایک بچہ بہت شرارتی تھا اور وہ اکثر بے جا ضد بھی کیا کرتا تھا اس کے ایسے مطالبات بھی ہوتے تھے جن کے کوئی سر پیر نہیں ہوتے ۔ایک دفعہ اس بچے نے رونا اور شور مچانا شروع کردیا ،باپ نے پوچھا کیا بات ہے کیوں رو رہے ہو بچے نے کہا میں گرگٹ لوں گا یہ اس کی بلا وجہ کی ضد تھی ،بہر حال باپ نے کسی نہ کسی طرح اس کو گرگٹ لا کر دے دیا ،بچہ بہت خوش ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر رونے لگا باپ نے کہا اب کیا بات ہے بچے نے کہا اس کو گھی میں تلو باپ نے اس کی یہ ضد بھی پوری کردی گرگٹ تل کر اسے دے دیا بچہ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا مگر کچھ ہی دیر بعد وہ پھر رونے لگا اور کہا اس کے دو ٹکڑے کرو باپ نے چھری سے اسے دو حصوں میں کردیا بچہ اس پر خوش ہو ا کہ اس کی یہ ضد بھی پوری ہو گئی تھوڑی دیر بعد وہ پھر رونے لگا اور پیر پٹخنے لگا باپ کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اس نے کہا میں نے تیری ساری ضدیں پوری کردیں اب کیوں رو رہا ہے اس نے روتے ہوئے کہا ایک ٹکڑا تم کھاؤ ،باپ کو گھن آنے لگی اس نے کہا نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا مجھے تو دیکھ کر متلی ہو رہی ہے میں اسے نہیں کھا سکتا بچے نے اور زور سے چلانا شروع کردیا باپ نے بادل نہ خواستہ اس کی یہ ضد بھی پوری کردی بچہ حسب معمول بہت خوش ہوا لیکن کچھ دیر بعد اس نے پھر رونا اور چلانا شروع کردیا اب تو باپ پھٹ پڑا غصے سے چلاتے ہوئے کہا تو نے گرگٹ لانے کی بے جا ضد کی پوری کردی اسے تلنے کہا تل کر دے دیا پھر مجھ سے کھانے کو کہا میں دل پر جبر کرکے اسے کھا لیا اس نے سر پیٹتے ہوئے کہا کہ میرے باپ بتا اب تو کیوں رو رہا ہے ،بچے نے روتے ہوئے کہا تم میرا والاکھا گئے ۔ یہ لطیفہ مجھے اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری بے جا اورغیر ضروری مطالبے پر ضد اختیار کرنے پر یاد آیا طاہر القادری کا یہ مطالبہ تو ٹھیک تھا ان کے کارکنوں کے قاتلوں میں جن 21افراد کے نام دیے گئے ہیں جن میں وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے نام بھی شامل ہیں ان کے خلاف ایف آئی آردرج کی جائے وہ مطالبہ پورا ہو گیا لیکن جس انقلاب کی وہ بات کرتے ہیں وہ سمجھ میں نہیں آتا اگر مراد اسلامی انقلاب ہے تو وہ ایسے آسکتا ہوتا تو جماعت اسلامی کب کا اسلامی انقلاب لے آتی اس کے پاس ان سے کہیں زیادہ انقلابی کارکنان ہیں البتہ عمران خان کے مطالبات سیاسی اور جینوین ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کے استعفا کے معاملے میں وہ ضد اور انا کا شکار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن شاید اس ضد کی پشت پر نواز شریف کی سابقہ وعدہ خلافیاں ہیں جو انھوں نے سیاست کے میدان میں کی ہیں ویسے تو الا ماشاء اﷲ ہمارے اکثر معروف سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے۔چند مثالیں پیش خدمت ہیں جب عبدالوحید کاکڑ نے درمیان میں ثالث کا رول ادا کرکے وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحق خان سے بیک وقت استعفا لیا اس وقت بے نظیربھٹو نے صدر غلام اسحق سے خفیہ ڈیل کی تھی جس کے نتیجے میں وہ استعفا پر تیار ہوئے تھے کہ جب بے نظیر انتخاب جیت جائیں گی تو وہ غلام اسحق صاحب کو دوبارہ صدر بنالیں گی جب بے نظیر انتخاب جیت گئیں جس دن انھوں نے حلف اٹھایا اس روز دن بھر غلام اسحق اپنے داماد کے گھر بیٹھے بے نظیر کے فون کا انتظار کرتے رہے ،ادھر بے نظیر فاروق لغاری کو صدر بنانے کا اعلان کررہی تھیں ۔چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں شروع شروع میں پیپلز پارٹی بھی بڑی فعال تھی اس پارٹی کے کارکن اور بالخصوص وکلا حضرات پولیس کے تشدد سہہ رہے تھے ایر ایک دفعہ تو ان کے احتجاجی کیمپ کے سامنے ایک دھماکا بھی ہوا جس میں پی پی پی کے کئی کارکنان جاں بحق ہوئے تھے لیکن جب پی پی پی کی حکومت آئی تو آصف زرداری صاحب اپنے وعدے سے پھر گئے اور یہ کہا کہ میرا وعدہ کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہے اور یہ مسئلہ کئی سال تک چلتا رہا پھر جب جہاں بحالی کا فیصلہ ہونا تھا وہ جب ہو چکا تو نواز شریف صاحب نے لانگ مارچ کا اعلان کیا اس دن لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے مال روڈ پر پولیس سے مقابلہ کیا تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی اس میں ساتھ دیا لیکن نواز شریف صاحب اپنا جلوس لیے رکے رہے ادھر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکنان نواز شریف کے جلوس کا انتظار کرتے رہے اس لیے کہ پہلے سے طے یہی ہو اتھا کہ نواز شریف صاحب اپنا جلوس لے کر مال روڈ کی طرف آئیں گے اور پھر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اور دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ لانگ مارچ کریں گے ۔ پھر جب نواز شریف صاحب کو کہیں سے فون آیا تو وہ اپنا لانگ مارچ الگ سے لے کر نکلے اور پھر پولیس نے راستے سے ساری رکاوٹیں ہٹادی تھیں ،پھر گجر انوالہ پہنچنے سے پہلے جنرل کیانی کا فون آتا ہے کہ چیف جسٹس کو بحال کیا جارہا ہے ۔نواز شریف نے اس دن جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں کو دھوکے میں رکھا اور چیف کی بحالی کا سارا کریڈٹ خود لے لیا جب کے دنیا یہ جانتی ہے کہ چیف کی بحالی کی تحریک میں سب سے زیادہ جماعت اسلامی نے تحریک انصاف نے اور پی پی پی نے حصہ لیا تھا ن لیگ کا حصہ تو نہ ہونے کے برابر تھا ۔سراج الحق صاحب جب عمران خان سے دھرنے میں ملنے گئے تو عمران نے ان کے سامنے یہی سوال رکھا کہ یہ جو استعفا کے علاوہ دیگر تمام مطالبات پورے کرنے کہہ رہے ہیں اس کی ضمانت کون دے گا ۔اگر ہم ابھی ان کے وعدوں پر اعتبار کر کے اپنا دھرنا ختم کرتے ہیں یہ مختلف بہانے کر کے کوئی مطالبہ بھی پورا نہیں کریں گے ۔نواز شریف کی وعدہ خلافیوں کی ایک پوری تاریخ ہے ۔

جب لندن میں آل پاٹیز کانفرنس ہوئی تہ اس میں یہ طے ہوا تھا کہ کوئی بھی سیاسی اتحاد بنے گا اس میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا جائے گا کہ یہ آمر پرویز مشرف کی حمایتی پارٹی ہے ۔اس کے بعد اے پی ڈی ایم بنی جس نے یہ فیصلہ کیا کہ پرویز مشرف کی نگرانی میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا اور اس فیصلے کے اصل روح رواں نواز شریف صاحب ہی تھے لیکن پی پی پی چونکہ این آر او کا معاہدہ مشرف کے ساتھ کرچکی تھی جس کے تحت بے نظیر وزیر اعظم اور پرویز مشرف کو صدر بننا تھا چنانچہ پی پی پی نے انتخاب میں ھصہ لینے کا اعلان کردیا جب کے اے پی ڈی ایم کی دیگر تمام جماعتوں نے ایک آمر کے تحت ہونے والے الیکشن کو غیر معتبر ٹہرانے کے لیے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا کچھ دنوں بعد نواز شریف صاحب اپنے وعدے انحراف کر گئے اوربے نظیر کہ کہنے پر الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا اس لیے کہ بے نظیر صاحبہ یہ چاہتی تھیں کہ ن لیگ سمیت تمام پارٹیوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے اس انتخاب کو بین الاقوامی سطح پر شاید پذیرائی نہ مل سکے ۔جب کے جماعت اسلامی تحریک انصاف اور علاقائی جماعتیں بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہیں ۔نواز شریف صاحب کے اس طرح پلٹا کھا جانے پر قاضی حسین احمد بہت ناراض ہوئے تھے ۔پھر جب بے نظیر کا قتل ہوا تو اسی دن نواز شریف صاحب نے ایک بار پھر انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن چونکہ زرداری صاحب کی قسمت کا ستارا چمک اٹھا تھا ،انھوں نے نواز شریف صاحب کو انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ کرلیا پہلی مرتبہ تو انھوں نے اے پی ڈی ایم کی جماعتوں سے بے وفائی کی اور دوسری مرتبہ خود اپنے آپ سے بے وفائی کی ،یہ نواز شریف صاحب کی وعدہ خلافیوں اور بے وفائیوں کی تاریخ ہے جس کی وجہ سے عمران خان ان کے استعفا پر اصرار کررہے ہیں ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.