لانگ مارچ، آزادی مارچ، سونامی مارچ قرآن والسنۃ کے عائینے میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اکتیس اگست سن دو ہزار چودہ

پاکستان میں جو لانگ مارچ یا آزادی مارچ یا انقلاب مارچ یا جو کچھ ہو رہا ہے، اسکے بارے میں قرآن والسنۃ کیا کہتا ہے:

پاکستان میں نہ تو پی ٹی آئ، نہ ہی پیٹ اور نہ ہی مسلم لیگ نواز گروپ اور نہ ہی کوئ اور جمہوری سیاسی پارٹی یا کوئ اور تنظیم یا لشکر کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ ان سب کا نظریہ اور اقدام اللہ عزوجل کے قرآن کے مخالف ہے، آۓ دیکھتے ہیں کہ اللہ کا قرآن تین مختلف آیات میں کیا فرماتا ہے. اللہ عزوجل مؤمنین سے خطاب کرتے ہوۓ فرماتا ہے:

"وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ..."

اس آیت کا مفہوم:

تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔

(حوالہ: سورۃ النور سورۃ نمبر 24 آیت نمبر: 55)

اس آیت میں اللہ نے مؤمنین سے خطاب فرماتے ہوۓ کہا کہ آپ چار کام کریں اور اسکے جواب میں اللہ دو امور فرماۓ گا. مؤمنین کا کام ہے کہ وہ:

1. متواتر توحید (ربوبیت، الوہیت اور اسماء والصفات) کی دعوت دیں
2. متواتر ایمانیات پر قائم رہیں
3. اچھے اور نیک اعمال کریں
4. ہر قسم کے شرک سے براءت کریں

جب مؤمنین یہ کام من حیث القوم کریں گے تو اللہ عزوجل اس کے جواب میں اپنا وعدہ پورا فرماۓ گا کہ:

1. اس قوم کو خوف سے امن عطا فرماۓ گا
2. اس قوم میں شرعی خلافت لے آۓ گا.

اور یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا

آئیں دو اور آیتیں بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ کیا فرماتا ہے. اللہ عزوجل نے فرمایا:

إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ‌ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ‌وا مَا بِأَنفُسِهِمْ ..."

ترجمہ و مفہوم:
کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وه خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے۔

(حوالہ: سورۃ الرعد سورۃ نمبر: 13 آیت نمبر: 11)

اور دوسری جگہ فرمایا:

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرً‌ا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ‌وا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ومفہوم:
یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وه خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی اور یہ کہ اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے

(حوالہ: سورۃ الانفال سورۃ نمبر: 8 آیت نمبر: 53)

ان تیں آیات کو پڑھنے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اللہ عزوجل ہمیں فرماتا ہے کہ اگر ہم اور میں اپنے اندر تبدیلی نہ لاۓ تو اللہ ھمارے حالات نہیں بدلے گا. ہم بحثیت قوم اپنے آپ کو نہیں بدل رہے، ہم توحید کو جانتے بھی نہیں، اور نیک اعمال، اور ایمانیات اور شرک سے براءت کرنا ہمارے لیے ضروری امر ہے. کچھ ہم میں سے وہ ہیں جو غیر اللہ سے مانگتے ہیں اور غیر اللہ کی نیاز کرتے ہیں حتی کے غیر اللہ کے سامنے سجدہ میں پڑ جاتے ہیں، ولعیاذ باللہ اور اسکو شرک تک نہیں گردانتے. جبکہ ہمیں صرف اللہ سے مانگنا چاہیے.

شائد آپ یہ بھی سمجھیں کہ قرآن کی ان آیات سے یہ فہم میرا ذاتی ہے؟ جی نہیں بلکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فہم تھا. اس سلسلہ میں دو مثالیں تاریخ کے آئینے سے. جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں دعوت شروع کی تو یہ نہیں کہا مکہ کے کافرو کرپشن اور دھاندلی ختم کرو، نہ ہی دھرنے دیے بلکہ تیرہ سال تک ہر نہ مساہد حالات میں صبر واستقامت سے توحید و عقیدہ و ایمان کی اور شرک سے براءت کی دعوت دی. جب مکی دور کا یہ گروہ توحید و ایمان پر اور شرک سے براءت پر تیار ہوگیا تو مدنی دور میں اس نے حاکم وقت کی اطاعت پر کفار کے خلاف جہاد وقتال بھی کیا، اور اللہ نے اس گروہ کو کامیاب کیا.

اسی طرح دوسری مثال الشیخ ابن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا شاہ سعود رحمہ اللہ کو توحید و ایمان و نیک اعمال کی طرف اور شرک سے براءت کی ان ہی اصولوں پر دعوت تھی جو اسنے قبول کی اور اللہ کی مدد سے آج بھی مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ امن سعودی عرب میں ہے.

ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کے تیونس، مراکش، الجزائر، مصر، لبیا، یمن عراق و شام اور اب پاکستان میں اپنی اپنی نوعیت کے خروج کیے گیے کہیں شرعیت کے لیے اور کہیں خلافت کے لیے اور کہیں حکام کے ظلم کے خلاف، کہیں مظاہرات کی صورت میں مگر ایک نقطہ سب میں مشترک ہے کسی نے توحید و صحیح عقیدہ و نیک اعمال کی دعوت اور شرک سے براءت کا نعرہ نہیں لگایا، اسی لیے کشت و خون کی ہولی تو کھیلی گئ مگر مکمل کامیابی کسی کو نہیں ہوئ

یاد رکھیں کے امت میں عام طور پر اس وقت دو طرح کے فتنہ ہیں:

1. شہوات کا فتنہ: یعنی دنیا حاصل کرنے کے لیے اور دنیا کے حقوق حاصل کرنے کا فتنہ، دنیا کے لیے مال، دولت آسائیشات، قتل و مقاتلہ، عورتوں کا بے پردگی میں آنے کا فتنہ، شراب و زنا کا فتنہ وغیرہ.

2. دوسرا فتنہ شکوک و شبہات کے فتنہ ہے، انکا تعلق دین سے ہے. یعنی دین میں بدعات وخرافات پھیلانا، غلط عقائد کی ترویج، دین میں غلو اور افراط و تفریط کرنا، دین کے نام پر دنیا کمانا وغیرہ.

اسی تناظر میں آج کل کے وقت میں ایک فتنہ جو امت میں بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے اور جس کا پاکستان میں بھی ظہور ہوچکا ہے وہ ہے حکمران وقت کے خلاف خروج یا جلسے جلوس اور مظاہرات کا فتنہ ہے، ایسا عمل کیوں کرنا ہے؟ کیونکہ ظالم فاسق حکمران ہمارا حق کھا رہا ہے، اگر ہم جلسہ جلوس نہ کریں اور اس سے اپنا حق نہ مانگیں تو وہ ہمیں ہمارا حق نہیں دیتا. اس لیے ہم ظالم فاسق اور فاجر حکمران کے خلاف مظاہرات کرتے ہیں آواز اٹھاتے ہیں. آئیں دیکھتے ہیں کہ ایسے فتنہ کے وقت میں صحیح احادیث کیا کہتی ہیں:

ایسے فتنہ کے موقع پر متفق علیہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، مفہوم:

عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں تمہارے حقوق کھائے جائیں گے اور دوسروں کو تم پر مقدم کیا جاۓ گا اور ایسے امور آئیں گے جس کا تم انکار کرو گے.

ایک دوسری روایت میں اس موقع کے لیے ہے، کہ، مفہوم: صبر کرو حتی کے ہماری ملاقات حوض کوثر پر نہیں ہوتی (دوسرے لفظوں میں موت تک صبر کرو)

(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3534)

دوسری متفق علیہ روایت میں ہے، مفہوم:

حکمران کی فرمانبرداری کا حق اسے واپس دو (یعنی اسکے ظلم کے باوجود اسکی فرمانبرداری کرو) اور اپنا حق اللہ تعالی سے مانگو

اس فتنہ کے وقت کے علاج پر ایک روایت:رسول اللہ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

امسک علیک یا پھر املک علیک لسانک ولیسعک بیتک وابک علی خطیئتک

رواہ ترمذی رقم:2406

اس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا. اگر چہ بعض دوسرے علماء کی تحقیق کے مطابق اس میں راوی عبید اللہ بن زحر اور علی بن یزید ہیں اسلیے یہ روایت ضعیف ہے. اس روایت کا مفہوم:

"اپنی زبان کو روک لو، اپنے گھر میں مقیم ہوجاؤ، اور اپنے گناہ پر رو لو."

اگر اسکو امام ترمذی و شیخ البانی رحمہا اللہ کی تحقیق سے حسن یا صحیح سمجھا جاۓ یا دیگر علماء کی تحقیق سے ضعیف سمجھا جاۓ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ بالکل صحیح ہے کہ فتنوں کے وقت فتنوں پر بغیر علم کے نہ بولنا اور غیر ضروری طور پر اپنے گھر سے نہ نکلنا اور اپنے گھر کو اپنا مسکن بنانا اور اپنے گناہوں پر اپنے رب سے استغفار کرنا اور اپنے گناہوں پر رونا جو دوسرے دلائل سے ثابت ہے اور یہ فتنوں کا علاج ہے جیسا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے وقت کے فتنوں پر ایسا ہی کیا

اس سلسلہ میں فتنوں اور خاص کر پاکستان کے واقعات میں ڈاکٹر مرتضی بخش حفظہ اللہ کے چونتیس مینٹ پر محیط یہ بیان کمپیوٹر پر ضرور سنیں:

https://ashabulhadith.com/Khutbaat/Khutbaat_MP3/249.mp3

اور بہتر یہ ہے کہ اس بیان کو آج کل کے فتنوں کے تناضر میں ہر روز سنیں، تاکہ فتنوں کے باب میں آپ کو کوئ گمراہ نہ کرسکے. اس سلسلہ میں آخری نقطہ یہ ہے کے ہم تبدیلی تو چاہتے ہیں مگر اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتے اس عنصر کو ان شاء اللہ بیان کیا جاۓ گا
اب چند ایک چیزوں کا ذکر جو عموما مردوں میں پائی جاتی ہے:

ہم وہ مرد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں نہ تو ہم پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں، مسجد میں باجماعت تو دور کی بات، الا من رحم اللہ. داڑھی رکھنا تو جیسے گالی ہو، لمبی داڑھی تو دور کی بات. غیر محرم عورتوں کی طرف بلا عزر دیکھنا ھمیں برا ہی نہیں معلوم ہوتا حالانکہ وہ آنکھوں کا زنا ہے. اللہ مجھے اور دوسروں کو ھدایت کی راہ پر رکھے، آمین. اسی طرح موبائیل سے انسانوں کی تصویر بنانا، گانے سننا، گالیاں دینا یہ سب حرام ہے جس میں ہم مرد عمومی طور پر شامل ہیں.

اسی طرح مسلمان عورتوں میں بھی نہ تو نماز کو اپنے وقت پر پانچ وقت پڑھنا اور نہ اپنے حجاب وجلباب کی پرواہ کرتی ہیں اور غیر مردوں سے پردہ نہ کرنا یا معمولی کیفیت واسباب میں پردہ توڑ ڈالنا، گانے بجانے سننا اور غیر مردوں کی طرف دیکھنا ٹی وی ڈرامے، فلمیں دیکھنا، خاوند کی جائز امور میں اتباع نہ کرنا اور اسکو حرام تک نہ سمجھنا

اسی طرح سود خوری، جس کو اللہ نے اللہ سے جنگ قرار دیا، ایسی انتہائ نوعیت کے گناہ میں پھنسنا، اپنے والدین کے ساتھ برا سلوک اور عزیز و اقارب کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرنا، بیویوں کا اپنے خاوند کی اتباع نہ کرنا، یا خاوندوں کی بیوی کی تو ہر بات ماننا مگر والدین کے ساتھ برا سلوک، اولاد کو دنیا کے علوم سیکھانا مگر دین پر قطعا کوئ محنت نہ کرنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی کرنا وغیرہ وغیرہ تو گویا ہم من حیث القوم اپنے دین کو اپنے گھر میں نہیں لارہے، اسلام کو اپنے اوپر اور اپنے گھر پر لاگو نہیں کر رہے اور وہ کام نہیں کر رہے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا الا من رحم اللہ. تو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا نہیں فرما رہا.

اور کیا وہ دونوں گروہ جو پاکستان میں تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لے کر آۓ ہیں، کیا وہ ان امور میں مبتلا ہیں یا نہیں، اگر وہ ان امور میں مبتلا نہیں ہیں پھر تو واقعی انکا نعرہ صحیح ہے

اور اگر وہ خود ان امور میں مبتلا ہیں جن کا پہلے ذکر کیا گیا تو انکا نعرہ باطل ہے. اللہ ہمارے حالات نہیں بدلے گا جب تک کہ ہم اپنے ان اوصاف کو نہ بدل لیں دیکھیں: سورۃ الرعد: سورۃ نمبر: 13 آیت نمبر:11)

جیسا کہ ہم نے اس آیت کو پہلے بھی ذکر کیا تھا تو اگر ہم نے اللہ کا وعدہ پورا ہوتا ہوا دیکھنا ہے، تو توحید و ایمان کی دعوت اور نیک اعمال پر استقامت و شرک سے براءت کے ساتھ اپنے ان اوصاف کو بدلنا ہوگا، جن کا ذکر کیا گیا

جس دن ہم نے وہ کرنا شروع کیا جس کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں دیا تو اللہ ہم پر وہ صالح حکام لے آۓ گا جو ہم پر صلاۃ اور زکوۃ کا نظام نافذ کریں گے ٹیکس نہیں اور اس دن اللہ اپنا وعدہ پورا فرماۓ گا کیونکہ اللہ جھوٹ نہیں بولتا...

اللہ مجھ پر اور ہر مسلمان پر رحم فرماۓ اور ہمیں قرآن والسنۃ کو سمجھنے اس پر پر عمل کرنے والا بناۓ، اور اسکی ترغیب دینے اور پھیلانے والا بناۓ، آمین.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.