عیسائی مصنفہ کرن آرمسٹرونگ (Keran Armestrong)کی عالمی
شہرت یافتہ کتاب ’’محمد ۔ اے بائیو گرافی آف دی پرافٹ (Muhammad-A
Biography of the Prophet) میں مصنفہ نے ضمنی طور پر ایک مشہور واقعہ نقل
کیا ہے کہ چند جاپانیوں نے پہلی بار مغربی ممالک کا دورہ کیا، ان کی ہمیشہ
سے یہ عادت رہی کہ وہ جہاں جاتے وہاں کے مذہب کے بارے میں جاننے کی بھر پور
کوشش کرتے۔ اس حیثیت سے انہوں نے عیسائی مذہب کو جاننے کے لیے بائبل
کامطالعہ کرنا شروع کیا، کافی مطالعہ کے بعد انہیں بڑی مایوسی ہوئی، جب وہ
لوگ مطالعہ کے ساتھ دورہ کرتے ہوئے امیریکہ پہنچے تو ان کی ملاقات ایک بہت
بڑے عیسائی اسکالر سے ہوئی توانہوں نے اس سے عیسائی مذہب کے تعلق سے اپنی
مایوسی کااظہار کیا اور کہا کہ ہزار کوششوں کے باوجو د وہ بائبل میں کسی
مذہب کو نہ پاسکے۔ یہ سن کر وہ بڑا متعجب ہوا اور اس نے جواب دیا وہ وسیع
تناظر میں غور و فکر کا متقاضی ہے:
"Unless one approached these scripture in a particular frame of mind, it
was indeed difficult to find any religious or transcendent in its
account of the history of the ancient Jewish people. (P:49)
’’جب تک کوئی ان الہامی کتابوں کو ایک خاص زاویۂ نظر سے نہیں پڑھتا، ان کے
لئے واقعتا یہ ایک مشکل ترین مسئلہ ہے کہ وہ قدیم یہودیوں کی تاریخ کو
سمجھنے میں کوئی مذہبی یا ماورائی چیز کو پا سکے۔‘‘
لیکن قرآن اپنی حقانیت کو منوانے کے لئے کسی خاص زاویۂ نظر(Frame of mind)
کے ساتھ اپنے آپ کو مطالعہ کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ وہ نہایت اعتماد کے
ساتھ کہتاہے: سَنُرِیْھِمْ ءَ اَیٰتِنَا فِی الْاَفَاقِ وَفِیٓ أَنْفُسِھِمْ
حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَھُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ (الفصلت:53) ترجمہ: عنقریب
ہم کائنات اور خود ان کے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر
واضح ہو جائے گا کہ حق وہی( قرآن) ہے۔
دراصل یہ اعتماد حق کی بنیاد پر حاصل ہوتاہے۔ خواہ انسان کسی بھی زاویۂ نظر
سے پڑھے فطرت کے مظاہر خود اس کی اہمیت و معنویت کو تسلیم کروا لیتے ہیں۔
جیسا کہ :
اکیسویں صدی میں سوئٹزرلینڈ کی سوئس پیپلز پارٹی(Swiss People Party) سے
تعلق رکھنے والے معروف سیاست داں ’’ڈینیل اسٹیچ ‘‘ (Dainielstech) نے
سوئٹزر لینڈ میں مسجدوں کے میناروں پر پابندی لگانے کی آواز بلند کی تھی
پورے ملک میں مخالف شدت پسندی کے جزبات ابھار نے میں اس نے نمایا کردار ادا
کیا تھا۔
مشہورعالمی عربی انگلش چینل الجزیرہ کی طرف سے فروری 2010 ء میں پیش کردہ
رپورٹ کے مطابق اس کاایمان بیدار ہوگیا اور اس نے اسلام قبو ل کرلیا۔ بلا
آمیز قرآنِ کریم کا تجزیاتی مطالعہ اس کے قبولِ اسلام کا سبب بنا۔ اس نے
سوچا تھا کہ وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے گا کہ میناروں کے خلاف
چلائی جانے والی مہم کی حمایت میں وہ قرآن سے دلائل حاصل کرے گا اور قرآنی
تعلیم کی روشنی میں اپنے اسلام مخالف موقف کو مضبوط ثابت کرنے کے لئے
مسلمانوں سے مباحثہ کریگا۔ جب اس نے اس مقصد کے لئے نورِ ہدایت کامطالعہ
کرنا شروع کیا تو اپنی نیت کے بر عکس وہ قرآنی آیات کا قائل ہوتا چلا گیا
اور اسلام اس کی روح میں اترتا چلا گیا۔ الجزیرہ کے رپورٹ کے مطابق اسلام
قبول کرنے کے بعد اس عیسائی سیاست داں نے کہا: اسلام نے مجھے زند گی کے کئی
اہم معاملات میں مثبت جواب دیا ہے۔ ان سوالات کے تشفی بخش جوابات میں نے
عیسائیت میں نہیں حاصل کئے۔ سابق ڈینیل اسٹیچ اس وقت ایک راسخ العقیدہ
مسلمان اور پنج وقتہ نمازی ہے۔ آج وہ خود میناروں پرپابندی کی شدت سے
مخالفت کررہاہے۔ اوریورپ کی سب سے خوبصورت مسجد تعمیر کر نے کا منصوبہ بنا
رہا ہے جو سوئٹزر لینڈ کی پانچوین مسجد ہوگی۔
11۔ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد امریکہ میں غورو فکر کا ایک نیا رجحان پیدا
ہوا ہے۔ ہر کوئی اسلامی کتابوں، جرائد ومجلات،اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر
لکھی جانے والی کتابوں میں دلچسپی لے رہا ہے۔ ان میں جو کتاب سب سے زیادہ
توجہ و دلچسپی کا مرکز بنی ہے وہ قرآن ہے۔ نیویارک، واشنگٹن، شکاگو اور نیو
جرسی سے لاس اینجلس تک جن کتب خانوں پر قرآن شریف کے نسخے پچھلے کئی سالوں
سے فروخت نہیں ہوئے تھے وہ بہت جلد فروخت ہوگئے اور انہیں قرآن کے نئے
ایڈیشن شائع کرنے پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے قرآن امیریکہ میں سب سیزیادہ
پڑھی جانے والی کتاب بن گیا۔ دراصل اس کے پیچھے یہ ذہنیت کار فرماں ہے کہ
آخر قرآن میں میں ایسی کیا بات ہے کہ جس کو پڑھنے کے بعد انسان دہشت گرد بن
جاتاہے،وہ جہادکے نام پر انتہا پسندی کی حدوں کو پار کرجاتاہے۔ آخر اسلام
میں کون سی تعلیم دی گئی ہے جو انسان کو ایسے دہشت گردانہ اعمال کے ارتکاب
پر آمادہ کرتی ہے۔ جب اس ارادہ سے وہ قرآن کامطالعہ کرتے ہیں اور قرآن میں
ان کا مطلوب ملتا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس کا سابقہ اِس قسم کی آیتوں
سے پڑتا ہے۔
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسِ اَوْ فَسَدَ فِیْ الاَرْضِ
فَکَاْنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاْنَّمَا
اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا۔ترجمہ: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے
یا زمین میں فساد کئے توگویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان
کو جِلایا اس نے گویا سب کو جِلالیا۔(المائدہ:33)تو اسلام کی جاں بخش اسیر
بن جاتا ہے۔ قرآن اس کے فکر و شعور کو جھنجھوڑتاہوا نظر آتا ہے۔
معرف پبلشر ـ"Penguin Book"نے ۱۱؍ستمبر کے واقعہ کے بعد قرآن کریم کے ۲۰
ہزار سے زائد نسخے تقسیم کئے۔ امریکہ اخبار یو ۔ایس۔ اے۔ ٹو ڈے (U.S.A
Today) نے لکھاتھا: لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور اس رجحان نے
امیریکہ میں قرآن کو سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنا دیا ہے کیونکہ
کے غیر مسلموں نے محسوس کیا ہے کہ ایک مسلمان یا کوئی شخص اس کتاب کا کوئی
بھی صفحہ کھول کر اس زندگی کا کوئی نہ کوئی راز جان سکتا ہے۔
اس لئے ہمیں بھی چاہئے دنیا کی مختلف زبانوں میں اسلام کے تعارف پر مشتمل
لٹریچر سادہ و عقلی انداز میں تیار کرکے مفت تقسیم کئے جائیں۔ قرآنِ مجید
کے تراجم ہر غیرمسلم کے گھروں میں بطور تحفہ پہنچائے جائیں۔ حکمراں طبقہ سے
لے کر عوام تک اسلام کی پرامن تعلیمات پہنچائی جائیں۔ جو تنظیمیں مسلسل
مسلمانوں کے خلاف کام کررہی ہیں مثلاً بجرنگ دل، شیوسینا، وشوہندو پریسد
وغیرہ ان کے افسوں میں بھی اسلام کے تعارف پرمشتمل کتابیں بھیجی جائیں۔ |