ایک پڑوسی نے اپنے دوسرے پڑوسی
سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے ہر وقت آپکے گھر سے ہنسنے ہنسانے کی آوازیں آتی
رہتی ہیں لگتا ہے آپکی اور آپکی بیگم میں مثالی محبت ہے۔ ان صاحب نے جواب
دیا اجی محبت کی کیا بات کرتے ہو اصل میں جب بھی میری بیوی مجھے بیلن مارتی
ہے اور وہ مجھے نہین لگتا تو میں ہنستا ہوں اورجب میں بیوی کو چپل مارتا
ہوں اور وہ اسے نہیں لگتا تو وہ ہنسنے لگتی ہے۔ کہا جاتا ہے ہنسی ایک
بہترین دوا ہے مگر اگر تو آپ بغیر کسی وجہ کے ہنس رہے ہیں تو آپکو یقینی
دوا کی ضرورت ہے۔
انسان خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے مگر ایک کام ہمیشہ ہی مشکل بلکہ
ناممکن رہے گا اور وہ یہ کام ہے کہ ایک وقت میں سب کو ہی کود سے راضی کرلیا
جائے۔ نہ صرف یہ کہ راضی کر لیا جائے بلکہ اپنے سے باغیوں کو بھی قریبی کر
لیا جائے اگر آپ ایک شخص کو قریبی کرنا چاہتے ہیں تو اسکے کام آئیے اور
اتنا کام آتے رہئے کہ آپکا اپنا کام تمام ہو جائے اگر کسی دوسرے کے ماتھے
کے بل دیکھ کر آپکے اپنے دل میں بل پڑنا شروع ہو جاتے ہیں تو اسکا مطلب ہوا
کہ واقعی میں آپ کا دل دوسروں کے لئے بہت غم خوار اور ہم درد ہے۔ مگر بٰض
اوقات یہ درد ، درد دل تک بھی لے جاتا ہے۔
انسان ساری زندگی ہی خواہ کسی بھی رنگ و نسل، جنس و قبیلے سے ہو کسی نہ کسی
کو خوش کرنے اور مسکرانے پر ہی تیار بیٹھا رہتا ہے پیدا ہوتے سے ہی ماں باہ
کو خوش کرنے میں جی حضوری کے لئے کمر بستہ رہتا ہے۔ ان کو کسی طرح راضی
کرلیا جائےبس ہر بات اور ہر حکم پر بلا چوں چرا عمل کیا جائے اور کوئی شکوہ
شکایت نہ پیش آنے دیں۔ پھر بہن بھائیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنے کے
کوششیں ہمہ وقت جاری رکھی جاتیں ہیں۔
اس کے علاوہ خاص طور پر اگر مشرقی معاشرے میں دیکھا جائے تو فیملی بونڈنگ
خاصی مضبوط ہوتی ہے تو سب کو عام طور پر خوش رکھنے کی ذمہ داری کوئی دو تین
فرد اٹھا لیتے ہیں جو دوسروں کی پیشانی پر آںے والے بل کو قربانیوں کی
استری سے اور کبھی فرمائشوں کے ڈھیر کو پورا کرنے کے چکر میں پورا کرنے میں
ہی لگے رہتے ہیں۔ خاص طور پر رشتہ دار کہ کبھی کبھار ان کو شریکا بھی کہہ
کر مخاطب کر لیا جاتا ہے۔ ان کو خوش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ذیادہ
ہے مگر ان کو بھی خوش کرنے کا ٹھیکہ بخوشی اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر سب سے
اہم بات یہ ہے کہ جب کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ کوئی اس کو خوش کرنے کے چکر
میں ہے تو اس غریب کو لمبا چکر لگوانا بھی ضروری سمجھ لیا جاتا ہے۔
عام طور پر اپنے بارے میں سوچنے کو ہمارے ہاں ایک خود غرضی شماار کیا جاتا
ہے۔ درحقیقت ایک انسان کی فطرت ہے کہ جب تک وہ خود خوش نہ ہو اسکو کوئی
دوسرا کتنا ہی خوش کرنے میں کیوں نہ لگے رہے وہ خوش نہیں ہو سکتا ہے۔
اسکی مثال ہم آجکل کسی بہو، باس یا ہمیشہ نا خوش شریک حیات کی شکل میں دیکھ
سکتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنا آپ مٹا کر دوسروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا،
اگردوسروں کا وجود بھلا کر خود کو خوش کرنا چاہیں تو دونوں روئے ہی انتہا
پر ہیں اور انتہا پسنددی کے روئیے کبھی بھی توازن کی طرف نہیں لے کر جاتے
زندگی میں توازن کے لئے انتہا پسندی کی بجائے ایک درمیانی رویہ رکھنا بے حد
ضروری ہوتا ہے ورنہ حال اوپر بیان کی ہوئی مثال جیسا ہوتا ہے کہ آپ کو
دوسروں سے کچھ نہ کچھ پڑتا رہتا ہے اور آپ کتنا ہی خوش کیوں نہ کرنا چاہیں
پر دوسروں کو خوشی بھی تب ہی ہوتی ہے جب وہ آپ پر حملہ کر سکیں اور بغیر
وجہ کے آپ کو تنگ کر سکیں اور خود ہنس سکیں۔ مگر وجہ آپکو بے آرام کرنا بھی
ہو سکتی ہے ۔
|