اسلام آباد میں دو سیاسی دھرنے
چل رہے ہیں، سیاسی دھرنے دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ان دو سیاسی
دھرنوں کی پورئے ملک میں حمایت بھی ہورہی ہے اور مخالفت بھی، دھرنے دینے
والوں میں سے ایک کا مطالبہ ہے موجودہ حکومت کا خاتمہ، جبکہ دوسرئے کا
مطالبہ نہ صرف حکومت کا خاتمہ اور وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کی گرفتاری
کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام میں وسیع تبدیلی۔ ایک دھرنا
پاکستان تحریک انصاف کا ہے جس کی قیادت عمران خان کررہے ہیں جبکہ دوسرا
دھرنا پاکستان عوامی تحریک کا ہے جس کی قیادت علامہ طاہر القادری کررہے
ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف حکومت اور اُسکے حلیف ہیں جو اس نظام
میں تبدیلی لانے پر تو رضامند ہیں، لیکن وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کو
اپنے عہدوں سے الگ کرنے پر قطعی راضی نہیں، نواز شریف حکومت پہلے تو ان
مطالبات پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھی لیکن اب پوری کوشش میں ہے کہ بگڑی
ہوئی سیاسی صورتحال کو جلد از جلد ٹھیک کیا جائے۔
اس سال 14 اگست کو حکومت نے اس دن کو "حکومت بچاو" کے طور پر، تحریک انصاف
اور پاکستان عوامی تحریک نے "یوم تبدیلی" اور "یوم انقلاب" کے طور پر منایا
اور لاہور سے اسلام آباد کی طرف نواز حکومت کے خاتمہ کےلیےخاص 14 اگست کے
روز "تبدیلی اور انقلاب مارچ" شروع کیا، ان دونوں مارچوں کے رہنماوں نے یوم
آزادی کی اہمیت کو ختم کرکے رکھ دیا۔ باقی رہے عوام اُنہوں نے 14 اگست
کو"یوم چھٹی" کے طور پر منایا، پورئے ملک میں کہیں بھی سرکاری یا غیر
سرکاری طورپر 14 اگست عوام کو ساتھ ملاکر "یوم آزادی" نہیں منایا گیا۔ 6
ستمبر کو بھی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنما عمران
خان اور طاہرالقادری اپنے اپنے دھرنے کا دفاع کرینگے۔ عمران خان اور طاہر
القادری تبدیلی اور انقلاب مارچ کے نام پر اسلام آباد میں دھرنے دینے
پہنچے، ان دھرنوں کو اسلام آباد لانے کے ذمیدار نہ تو عمران خان ہیں اور نہ
ہی طاہرالقادری بلکہ ان کے اصل ذمیدار شریف برادران اور اُنکی مرکزی
اورصوبائی حکومت کے وزرا ہیں۔ چار انتخابی حلقوں کو دوبارہ چیک کرنے کا
مطالبہ آج بڑھکر نوازشریف کے وزیراعظم کے عہدئے سے استعفی، دوبارہ الیکشن،
آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات اور دوسرئے مطالبات تک جاپہنچا، اگر نواز شریف
شروع میں ہی اس معاملےکو دیکھ لیتے تو آج اسلام آباد میں عمران خان کا
دھرنا نہ ہوتا۔ شیخ رشید جو خود لیڈر خود عوام ہیں اور اُنکی قومی اسمبلی
کی سیٹ بھی عمران خان کی حمایت سے حاصل ہوئی ہے، وہ اپنی نام نہاد پارٹی کے
سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کے سیاسی حلیف ہیں، جبکہ عمران خان نے اپنی
ضداورشیخ رشید جیسوں کے غلط مشورئے مان کرجاوید ہاشمی جیسے سیاستدان کو
اپنے سے دور کرلیا۔ عمران اپنی کرکٹ فلاسفی کا اپنی سیاست میں بےانتہا
استمال کرتے ہیں لہذا وہ اپنے دھرنے کے شرکا کو کافی دفعہ یہ کہہ چکے ہیں
کہ امپائر انگلی اٹھانے والا ہے، ابھی تک تحریک انصاف والے امپائر کی انگلی
اٹھانے کا انتظار کررہے ہیں مگر شاید کپتان کو امپائر نے ملاقات کے وقت
بتادیا کہ اُسکا ابھی انگلی اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
علامہ طاہر القادری بھی لاہور میں ہی ہوتے کیونکہ انہوں نے کنیڈا سے اپنی
پاکستان آمد کے اعلان کے ساتھ ایک دس نکاتی اصلاحات کا ایجنڈا دیا اور اس
ایجنڈئے کی تکمیل کےلیے انہوں نے انقلاب کا نعرہ لگایا، باربار سوال کرنے
پر بھی علامہ نے انقلاب کی کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، لیکن اُنکے آنے سے
قبل ہی منہاج القران ماڈل ٹاون لاہور کا واقعہ ہوگیا جس میں 14 بےگناہ
لوگوں کو پولیس نے بڑی بےدردی سے قتل کردیا اور 80 سے زیادہ افراد زخمی
کردیے گے اور پھر حکومت کی طرف سے تو ایک ایف آئی آرکاٹی گی لیکن لواحقین
کی طرف سے ایف آئی آر کٹنے میں دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا، طاہرالقادری
جن کے پاس ایک دس نکاتی اصلاحات کا ایجنڈا تھا، آج انکے ہاتھ میں 14 افراد
کے قتل کی ایف آئی آر ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف کے علاوہ
انیس اور افراد شامل ہیں، اب علامہ کے مطالبات حکومت کا خاتمہ اور وزیراعظم
اور وزیراعلی پنجاب کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام
میں وسیع تبدیلی ہے جو ناممکن ہے، اسلام آباد دھرنے میں اُنکے سیاسی حلیف
پاکستان مسلم لیگ ق کے کرتا دھرتا چوہدری شجات اور چوہدری پرویزالہی ہیں ۔
ایک تازہ خبر یہ ہے کہ مشرف دور کے بادشاہ گر چوہدری شجات اور موجودہ حالات
میں طاہرالقادری کے انقلابی ساتھی، اُنہوں نے دوسروں کے علاوہ جنرل کیانی
پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ وہ بھی انتخابات کی دھاندلی میں شامل تھے ،
یقینا یہ الزام طاہرالقادری کے انقلاب کا دفاع کرئے گا، یہ بھی ہوسکتا ہے
کہ طاہرالقادری جو فوج کے حق میں زوردار نعرئے لگواتے ہیں شاید کہہ دیں
چوہدری صاحب اس الزام پر مٹی پاوُ۔
دوسری طرف حکومت اور خاصکر نواز شریف دھرنوں والوں سے اپنی حکومت کا دفاع
کررہے ہیں، لیکن پارلیمینٹ میں جو سیاسی اتحاد ہوا ہے اُسکو دو چوہدریوں کی
ذاتی لڑائی اور بدکلامی کے باعث جو خطرہ ہے اُسکا دفاع کرنے کےلیےاُنکواپنے
منہ چڑھے اور مغرور وزیرداخلہ کا منہ بند کرنے میں کامیاب ہونا لازمی ہے تب
ہی وہ اس سیاسی اتحادکا دفاع کرپاینگے۔ویسے جس سسٹم کے زریعے پیپلز پارٹی
لوٹ مار کے ریکارڈ توڑ چکی ہوتو اُسکو بچانے کےلیے وہ نواز شریف کی قدرتی
ساتھی ہے۔ 11 ستمبر کو بابائے قوم کو یاد یوں بھی نہیں کیا جائے گا کہ
وزیراعظم نواز شریف کے دو بہت ہی قریبی سیاسی حلیف مولانہ فضل الرحمان اور
محمود خان اچکزئی کے نزدیک قائداعظم ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ مولانہ فضل
الرحمان کے والد مفتی محمود کھلے الفاظ میں پاکستان کی مخالفت کرتے تھے،
مولانا فضل الرحمان کی سوچ اپنے والد سے مختلف نہیں وہ آج بھی ہندوستان کی
تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، حالیہ پارلیمینٹ کے اجلاس میں
بھی وہ دھرنوں کے حوالے سے بھارتی پارلیمینٹ کا ذکر فرماچکے ہیں، یہ اور
بات ہے کہ سارئے پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کو ایک مفاد پرست اور
موقعہ پرست سیاستدان کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
نواز شریف کے دوسرئے سیاسی حلیف محمود خان اچکزئی کے باپ خان عبدالصمد
اچکزئی نے 1973ء کے آئین کو تسلیم نہیں کیا تها اور اپنی پوری زندگی خان
عبدالصمد اچکزئی یہ درس دیتا رہا کہ پختون قوم کی آزادی کے لئے آزاد
پختونستان کا قیام ضروری ہے۔ لیکن خان عبدالصمد اچکزئی کا بیٹا اور اُس کا
سیاسی جانشین محمود خان اچکزئی نے اپنے باپ کی قوم پرستی کی سیاست چھوڑی
اور مفاد پرستانہ سیاست کو اپنا لیا یہ ہی وجہ ہے نواز شریف حکومت میں اُس
کے خاندان کے دس افراد مختلف حکومتی عہدوں پر موجود ہیں، خودیہ وزیراعظم کا
مشیر خاص ہے اور ایک بھائی گورنر بلوچستان ہے، باقی دوسرئے عہدوں پرہیں۔ جب
13 جون 2013ء کو زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی کو دہشت گردوں نے بم دھماکوں
سے تباہ کیا تو محمود خان اچکزئی نے اس دہشت گردی کی مذمت کرنے سے انکار
کردیا جس پر آج بھی قائم ہے۔محمود خان اچکزئی جوغریبوں اور مظلوموں کا
ہمدرد بنتا ہے اور اپنے آپ کو ایک اصول پسند سیاستدان کہتا ہے، افسوس یہ
دھرنے میں آئے ہوئے غریب لوگوں کو خانہ بدوش کہتا ہے۔
اسلام آباد کے تین ہفتے سے جاری دو دھرنوں کی دو تصویریں بنتی ہیں جن میں
سے ایک سیاسی ہے جبکہ دوسری معاشی۔ سیاسی تصویر آپ اوپر پڑھ آئے کہ کون کیا
ہے اور کیا کررہا ہے، لیکن اسکی معاشی تصویر بہت پریشان کن ہے جس کے خراب
اثرات جلد ہی پاکستانی عوام کے سامنے ہونگے جسکی وجہ سے غربت کی لکیر سے
نیچے زندگی گذارنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ کوشش
ہوگی کہ اگلے مضمون میں دوسری تصویر یعنی دھرنوں کے معاشی اثرات پر تفصیل
سے لکھونگا۔ |