سیاست کا ظالمانہ نظام: میرے ملک میں کروڑوں غریب پیدا کرنے والے ۲۲ سیاسی خاندان
(Chaudhry Muhammad Rashid, Jeddah)
۱۹۸۸ سے لے کر ۱۹۹۹ تک اور پھر
پچھلے پانچ سال میں پاکستان نے اس دنیا میں اپنا سب کچھ کھو دیا۔ عزت،
وقار، احترام، شرافت، نیکی حتی کہ نیکی کرنے کی خواہش بھی اس کے ساتھ ساتھ
ان سالوں میں حاصل عوامی ٹیکس اور اربوں ڈالر کا لیا بیرونی قرضہ بھی- ہم
نے جو کچھ پایا وہ ہے سیاست کے نام پر دغا بازی، کرپشن، اندھیر نگری، جھوٹ
و فریب کی لت، جہالت، ہر چیز میں ملاوٹ، چور سیاسی خاندانی نسل-
اللہ جانتا ہے ان الفاظ میں میرا درد چھپا تھا یا بے حسی۔ جب میں یہ لفظ
لکھ رہا تھا اس وقت میں ''سن'' بے حرکت تھا۔ میرے لفظ میرے معاشرے کی بے
رحمی، ناانصافی کو ظاہر کر رہے تھے اور ایک ظالمانہ نظام مجھے منہ چڑا رہا
تھا-زندگی کی تلخ حقیقت کو دیکھ کر میں جاننا چاہتا ہوں وہ کون اشخاص تھے
جنہوں نے میری کتابوں کا نصاب ترتیب دیا۔ سچ اگر ملا تو کتابوں میں، علامہ
اقبال کی شاعری میں، قائد کے اقوال میں، میرے دادا کی باتوں میں اور ہاں اس
میرے نصاب میں شامل اسلامیات کی قرآنی آیات میں۔ نظریہ ضرورت نے مجھ سے
میرے چودہ سال کی محنت چھین لی، اقبال اور قائد کا کردار چھین لیا، میرے
دادا کی تربیت چھین لی اور تو اور قرآنی آیات بھی- میں ان کی لکھی کتابوں
پر عمل کر کے کچھ نہیں پا سکا- احترام، سچائی اور اصولوں کے بدلے بے رحمی،
ناانصافی اور ایک ظالمانہ نظام دیکھ دیکھ میں نفرت کرنے لگا ہوں، ان لوگوں
سے جنہوں نے میری کتابوں کا وہ نصاب ترتیب دیا۔ میں ان لوگوں کو کاٹ ڈالنا
چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے برا بننے کی بجائے ایک اچھا انسان بننے کا
راستہ دکھایا- ان کتابوں کے علاوہ میری تربیت میں اخباراور ٹیلی ویژن کا
بہت بڑا ہاتھ ہے- لیکن میں ان آوازوں کو بھی خاموش کر دینا چاہتا ہوں کہ
میرا معاشرہ ان کی آوازوں پر کان دھرنے کو آمادہ نہیں- 24 سال کتابوں،
اخباروں اور خبر دینے والوں نے مجھے کوئی رستہ نہیں دیا سوائے لاچاری اور
بے بسی کے۔ آج میرے پاس دو راستے ہیں- ایک: میں بھی بے رحم، ناانصاف اور
ایک ظالمانہ نظام کا حصہ بن جاوں جو کہ میری عقل اور سوچ میں کبھی نہیں سما
سکتا- دوسرا میں ایک قاتل بن جاوں، جو بے رحموں پر بے رحم ہو
ظالموں پر ظالم بن جائے
آج میں ایک قاتل بن جانا چاہتا ہوں- بس قاتل جو خون کے دریا بہا دے یہاں تک
کہ ایک بھی ظالم باقی نہ رہے- |
|