تحریک ختم نبوت
(M WAQAS SAEED, RAWALPINDI)
*مئی 1934 ء میں مبلغ اسلام
مولانا عنائت اللہ چشتی صاحب کو قادیان میں مبلغ احرار کی حیثیت سے تعینات
کیا گیا ۔
*22,21 جولائی 1934 ء کو رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی
قادیان تشریف لے گئے اور مجمع عام سے خطاب فرمایا ۔
*23,22,21 اکتو بر 1934 ء کو مجلس احرارِ اسلام کے زیر انتظام قادیان میں
ایک عظیم الشان احرار کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
*20 اپریل 1935 ء مجسٹریٹ گورداسپور نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ
بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو قادیان میں کی گئی تقریرکی پاداش میں چھ ماہ قید
بامشقت سنائی ۔
*31 جنوری 1936 ء کو مجلس احرارِ اسلام نے ہند وستان کی تمام مسلمان
جماعتوں اور انجمنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تنظیموں سے قادیانیوں کا
اخراج کریں ۔
*28 فروری 1936 ء کو قادیان کے مسلمانوں کے اہم ترین معاون حاجی عبدالغنی
رئیس بٹالہ وصدر مجلس احرارِ اسلام گورداسپور شہید کردیے گئے۔
*1948 ء میں پنجاب کے گورنر سر فرانسس موڈی کی خصوصی مہربانی سے چنیوٹ کے
قریب 1034 ایکڑ اراضی کوڑیوں کے مول قادیانیوں کو الاٹ کردی گئی ۔
*18,17 مئی 1952 ء کو سر ظفر اللہ خان قادیانی نے ہم مسلک قادیانیوں کے
ایک اجتماع میں اسلام کو سو کھے ہوئے درخت اور قادیانیوں کو خدا کے لگائے
ہوئے پودے سے تشبیہ دے کر اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا ۔
*3 جون 1952 ء کو مجلس احرارِ اسلام نے کراچی میں مختلف مکاتبِ فکر کے
علماء کرام کا ایک اجلاس طلب کیا ۔ جس میں تین مطالبات مرتب کئے گئے ۔
i) ( قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔
(ii) چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ کے عہد ے سے سبکدوش کیا جائے ۔
(iii) تمام کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹا یا جائے ۔
*13 جولائی 1952 ء کو مجلس احرارِ اسلام نے پنجاب میں مذکورہ بالا مطالبات
کو منوانے کی غرض سے آل مسلم پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں ایک مجلس عمل
تشکیل دی گئی ۔
*18 جولائی 1952 ء کو مجلس عمل نے اپنے مذکورہ مطالبات کی منظوری کے لئے
یوم نجات منایا ۔
*14 اگست 1952 ء کو مجلس عمل کے رہنما مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری
،شیخ حسام الدین اور ماسٹر تاج الدین انصاری وغیرہ نے قادیانیوں کے متعلق
اپنے مطالبات کی غرض سے کراچی میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کی
۔
*جولائی ،اگست 1952 ء مجلس احرارِ اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجے میں
ان دو ماہ کے دوران ایک سو قادیانی مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
*3 اکتوبر 1952 ء بروز جمعہ کو پنجاب میں آل پارٹیز مجلسِ عمل کے فیصلے کے
مطابق حکومتی قادیانیت نوازی کے خلاف ’’یومِ احتجاج‘‘منایا گیا۔
*14 جنوری 1953 ء کو کُل جماعتی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کا ایک اجلاس کراچی
میں ہوا ،جس میں مشرقی ومغربی پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے ڈیڑھ سوسے
زائد علماومشائخ نے شرکت فرمائی۔
*22 جنوری 1953 ء کو مولانا عبدالحامد بدایوانی ،ماسٹر تاج الدین انصاری ،پیر
ابو صالح محمد جعفر اور سید مظفر نے خواجہ ناظم الدین___اس وقت کے وزیراعظم
___ سے ملاقات کی،مذاکرات کے دوران وفد نے آل پارٹیز مسلم کنونشن کی قرار
دادیں اور مطالبات کی منظوری کے لئے ایک ماہ کا نوٹس دیا جس پر خواجہ ناظم
الدین نے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر میں قادیانیوں کے خلاف آپ کے
مطالبات مان لوں تو امریکہ ہمیں ایک دانہ گندم کا نہیں دے گا ۔
*6 مارچ 1953 ء تک پنجاب بھر میں 390 جلسے ہوچکے تھے جن میں سے 167 کاا
ہتمام خالصتاََ مجلس احرارِ اسلام نے کیا تھا ۔
*21 فروری 1953 ء کو الٹی میٹم کی مدت مکمل ہوگئی اس دِن مجلس عمل کے وفد
نے وزیراعظم سے ملاقات میں اپنے مطالبات دہرائے جن کی طرف حسب سابق کچھ
التفات نہ کیا گیا ۔
*27,26 فروری 1953 ء کی درمیانی شب دفتر احرار کراچی پر چھا پہ مار کر
مجلس عمل کی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا ۔
*28 فروری 1953 ء کو دفتر احرار لاہور کے باہر قائم رضا کاروں کے کیمپ پر
پولیس نے چھا پہ مار کر سارا سامان ضبط کرلیا ۔
*یکم مارچ 1953 ء کو مولانا احمد علی لاہوری صاحب نے دفتر احرار کے سامنے
ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب فرمایا اور رضا کاروں کے ایک جتھے کے ہمراہ
گورنر ہاؤس جانے کا جانے کا پروگرام بنایا ۔
*2 مارچ 1953 ء کو مولانا اختر علی خان مسجد وزیر خان سے دس ہزار افراد کا
جلوس لے کر نکلے جسے چیرنگ کراس پر روک کر پولیس نے شدید تشدد کا نشانہ
بنایا ۔
*3 مارچ 1953 ء لاہور میں تحریک کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے حکومت نے فوج
کو طلب کرلیا اور عملاََ شہر میں کرفیو کا سماں پیدا ہو گیا،دفعہ 144 کے
باوجود شہر میں جلوس نکلتے رہے اور سینکڑوں رضا کاروں کو گرفتار کیا گیا ۔
*4 مارچ 1953 ء لاہور میں ڈی ایس پی فردوس شاہ کے ہاتھوں قرآن کریم شہادت
وبے حرمتی کا المناک سانحہ پیش آیا۔
*5 مارچ 1953 ء گوالمنڈی لاہور میں پولیس کے دوافسروں نے فائرنگ کرکے شمع
رسالت کے پروانوں کی کثیر تعداد کو شہید کردیا ۔
*6 مارچ 1953 ء جنرل اعظم خان نے لاہور میں مارشل لاء نافذ کردیا ۔غرض
1953 ء کی اس تحریک میں دس ہزار فرزندانِ اسلام نے جام شہادت نوش کیا اور
اس مقدس تحریک کو ریاستی جبرو ستم سے دبا دیا گیا ۔
*1953 ء حکومتِ پاکستان نے تحریک تحفظ ختمِ نبوت چلانے کی پاداش میں مجلس
احرارِ اسلام پر پابندی لگا دی ۔
*5 ستمبر 1958 ء مجلس احرارِ اسلام پر پابند ی کے خاتمے کے بعد حضرت امیرِ
شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے چوک گھنٹہ گھر ملتان میں
مجلس احرار اسلام کے دفتر کا افتتاح کیا ۔
*29 مئی 1974 ء ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں نے نشتر میڈیکل کالج ملتان
کے طلباپر آہنی سلاخوں ،لوہے کی تاروں کے کوڑوں سے حملہ کرکے ان پر انسانیت
سوز تشدد کیا ۔
*30 مئی 1974 ء قادیانی غنڈہ گردی کے خلاف لاہور ،فیصل آباد اور دیگر
شہروں میں ہڑتال رہی ۔
*31 جون مجلس تحفظ ختمِ نبوت کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں ہوا ۔
*9 جون لاہور کے اجلاس میں آغا شورش کشمیری کی تحریک و تجویز پر مولانا
محمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کو مجلسِ عمل کا کنونیئر مقرر کیا گیا ۔مجلس
عمل کے سر کردہ رہنما ؤں نے مولانا محمد یو سف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کی
قیادت میں وزیر اعظم سے ملاقات کی۔
*13 جون وزیر اعظم نے تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے
کا اعلان کیا۔
*14 جون قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی حمایت میں پورے ملک میں ہڑتال
ہوئی ۔
*30 جون ایک قرار داد کے ذریعے پوری اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دے دیا گیا
۔
* 24 جولائی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کافیصلہ ہو گا ،ہمیں
منظور ہو گا ۔
*3 اگست صمدانی ٹربیو نل نے تحقیقات مکمل کرلیں۔
*5 اگست مرزا ناصر پر قومی اسمبلی میں جرح کا آغاز ہوا۔
*20 اگست صمدانی ٹربیونل نے سانحہ ربوہ کے متعلق رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کی
گئی ۔
* 22 اگست رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی گئی ۔
*24 اگست وزیراعظم نے فیصلہ کے لئے 7 ستمبر تاریخ مقرر کی۔
*28,27 اگست لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
*6,5 ستمبر1974 ء اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بجٹ پیش کیا اور
مرزائیوں پر جرح کا خلاصہ پیش کیا ۔
*6 ستمبر 1974 ء مجلس عمل کی راولپنڈی میں ختمِ نبوت کانفرنس اور وزیر
اعظم سے ملاقات کی۔
*7 ستمبر قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ |
|