دوسال قبل انٹرنیٹ پر جب ایک
گستاخانہ فلم چلائی گئی تو دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل
سامنے آیا، یوٹیوب نے گستاخانہ مواد ویب سائٹ سے ہٹانے سے انکار کردیا جس
کی وجہ بہت سارے اسلامی ممالک سمیت پاکستان نے بھی یو ٹیوب پر پابندی عائد
کردی۔اس پابندی کی وجہ سے توہین آمیز مواد تو بند ہوگیا مگر طلبہ و طالبات
اور تحقیق سے وابستہ افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ یوٹیوب
ایک ڈیجیٹل لائبریری کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ
دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیاں اور افراد بھی یوٹیوب پہ مواد اپلوڈ کرنے کو
ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ
یوٹیوب انتظامیہ کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کرکے گستاخانہ اور قابل اعتراض
مواد ہٹوا کر جلد سے جلد یو ٹیوب کو بحال کیا جائے۔یا پھرصرف قابل اعتراض
توہین آمیز مواد کو بلاکردیا جاتا ، پوری ویب سائٹ کو بلاک کرکے ایک علمی
ذریعے سے دوری پیدا کرنا کوئی مسئلے کا حل نہیں تھا ، مریض کو ہی مارڑالنا
مرض کا علاج نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ مرض کا خاتمہ اصل علاج ہے۔
حکومتی سطح پہ تو سوائے باتوں کے کچھ نہ ہوسکا ، مگر سرگودھا یونیورسٹی کے
دو طالب علموں طاہر عمر اور ابصار اکرم نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا، انہوں
نے یوٹیوب کو اس طرح کھولا کہ اب وہاں نہ تو گستاخانہ مواد رہا اور نہ ہی
غیر اخلاقی ۔ سرگودھا یونیورسٹی کے ان طلبہ نے ایک ایسی ویب ایپلی کیشن
تیار کی ہے جس کے ذریعے یو ٹیوب کی تمام ویڈیوز نہ صرف دیکھی جاسکتی ہیں
بلکہ ان کو ڈاون لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔vimow.comنامی اس ویب میں یہ سہولت
بھی دی گئی ہے یوٹیوب کی کسی ویڈیو کالنک بھی پیسٹ کرکے مطلوبہ ویڈیو دیکھی
جاسکتی ہے۔ لیکن کوئی بھی توہین آمیز ویڈیو کو تلاش کرنے یا لنک دینے پر
ویب پہ پیغام آجاتا ہے کہ ایسی ویڈیو میسر نہیں۔ طاہر عمر اور ابصار اکرم
نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس ویب سائٹ کا آئیڈیا
کافی عرصے سے ان کے ذہن میں تھا جو چند ماہ کی محنت سے بلاآخر پائے تکمیل
کو پہنچ گیا۔ |