سمندر خالقِ کائنات کا عظیم شاہکار ہے
(dr zahoor ahmed danish, NAKYAL KOTLE AZAD KASHMIR)
چرند پرند حیوانات ،نباتات
،جمادات سبھی کچھ اللہ عزوجل کی تخلیق کا شاہکار ہیں ۔اس کریم رب نے طرح
طرح کی نعمتیں پیدا فرمائیں۔
دنیا میں بے شمار نعمتیں ہیں۔ مطعومات کی کمی ہے نہ مشروبات کی، ملبوسات کا
شمار ممکن ہے نہ باقی اسباب زندگی کا اور اس کے علاوہ موسموں کی نیرنگی،
پھولوں کی خوشبو، دریاؤں کا زیروبم، آبشاروں کا گرنا، چشموں کا ابلنا،
تودوں کا پگھلنا، گھنگھور گھٹاؤں کا جھوم کر اُٹھنا، پربت پر چھائی ہوئی
بادلوں کی چھاؤنی، چیڑوں کے گڑے ہوئے جھنڈے، سرسوں کے پھولے ہوئے کھیت،
مسکراتی ہوئی کشت زعفران، گندم کی فصل۔ ایسی بے شمار نعمتیں اللہ نے انسان
کے لیے پیدا کر رکھی ہیں لیکن ان سب کا تعلق حیاتِ انسانی سے ہے۔ جو انسان
کے لیے ہیں ۔
ان بیش بہانعمتوں میں ایک نعمت پانی ہے ۔جس کی بوند بوند انسان کے لیے نعمت
ہے ۔چشمہ ،آب شاریں ،دریا ،سمندریہ سبھی قدرت کے عظیم شاہکار ہیں ۔ آئیے
۔زمین کے سینہ پر خطہ کائنات کے وسیع مقام پر موجود سمندر کے بارے میں
جانتے ہیں ۔
سمندر کی پیدائش کی حکمتیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا
مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا()(پ١٤،سورۃ النحل،آیت:١٤)
ترجمہ کنزالایمان:اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا مسخّر کیا کہ اس میں سے
تازہ گوشت کھاتے ہوا۔
خدا تعالیٰ نے سمندر کو پیدا فرمایااور اس کے کثیر منافع اور فوائد کی وجہ
سے اس کو بہت وسیع کیا اور زمین کے اطراف و جنوب میں اس طرح پھیلا دیا کہ
زمین کاخشک حصہ اور پہاڑ وغیرہ ۔گویا ایک چھوٹا سا جزیرہ نما بلند حصہ ہو
جو ہر طرف سے پانی میں گھرا ہوا اور اسی نسبت سے زمین کے جانور ہیں ان
جانوروں کی نسبت سے جو خدانے سمندر میں بنائے ہیں یعنی سمندرمیں رہنے بسنے
الے جانور خشکی کی جانوروں سے کئی حصہ زائد ہیں اور سمندر میں خدا نے بڑے
بڑے عجائبات پیدا کیے ہیں۔ جن کو دیکھ کر خالق کی قدرت نظر آتی ہے، سمندر
میں حیانات جواہرات اور خوشبو دار اشیاء اس کثرت سے ہم کوملتی ہیں کہ زمین
پر اتنی افراط سے نہیں پائی جاتی اور ایسے ایسے عظیم الجثہ جانور پانی میں
پائے جاتے ہیں ۔اگر وہ کسی وقت اپنی پشت کاایک حصہ پانی سے بلند کردیں۔ تو
اس پر کسی وسیع ٹیلہ یاپہاڑ کا شبہ ہونے لگتا ہے اور جس طرح خشکی میں انسان
پرندے گھوڑے اور گائے وغیرہ مختلف انواع و اقسام کے حیوانات ہیں اسی طرح اس
سے کئی حصہ زائد پانی میں پائے جاتے ہیں ۔بلکہ جتنی اقسام کے جانور پانی
میں پائے جاتے ہیں۔ خشکی میں تو دکھائی بھی نہیں دیتے پھر خدانے عجیب قدرت
و حکمت سے ان کی ضروریات کو بنایا ہے کہ اگران تمام باتوں کو تفصیل سے بیا
ن کیاجائے تو اس کے لیے ضخیم کتابوں کی ضرورت ہوگی۔خدا نے کسی خوبی اور
حکمت سے موتی کو سیپی کے اندر محفوظ طریقہ سے پانی میں رکھا ہے اور مرجان
کو پانی کے اندر پتھر کی چٹان کی تہ میں کس طرح محفوظ کیا ہے خدا نے بندوں
پر امتناناً فرمایا ہے۔
یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ(پ٢٧،سورۃ الرحمن،آیت:٢٢)
ترجمہ کنزالایمان:ان میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے
اس مرجان کے متعلق جس کا قرآن کی اس مذکورہ آیت میں ذکر ہے بعض حکماء نے
کہا ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا موتی ہے جو لولو سے زیادہ اور رقیق اور چھوٹا
ہوتا ہے اور اس احسان اور انعام کے ذکر کے بعد خدا فرماتا ہے۔
فَبِاَیِّ اٰلَآء ِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ(پ٢٧،سورۃ الرحمن،آیت:١٣)
ترجمہ کنزالایمان:تو تم دونوں اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے ۔
اس آیت میں اٰلَآء ِ سے مراد خدا کے انعامات و احسانات ہیں۔اسی طرح عنبر
اور دیگر قیمتی چیزوںکو دیکھو جن کو خدا نے اپنے کمال ِ حکمت سے سمندر میں
پیدا فرمایا۔پانی کی سطح پر بڑے بڑے جہاز اور کشتیوں کی روانی پر نظر کرو
کہ بندوں کی کتنی ضرورتیں اور کشتیوں اور جہازوں کی آمدورفت سے پوری ہوتی
ہیں۔ خدا نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔
وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ
۔(پ٢،سورۃ البقرۃ،آیت:١٦٤)
ترجمہ کنزالایمان:اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے۔
خدا نے کس طرح سے انسان کو سمندر پر قدرت و اختیار دیا ہے کہ وہ اس کے سینے
پر مال سے لدے ہوئے کیسے بڑے بڑے جہاز ادھر سے ادھر ایک ملک سے دوسرے ملک
کو لے جاتا ہے۔ اگر انسان کے پاس بار برداری کے لیے یہ سامان نہ ہو تو اس
کے لیے بڑی بڑی دشواری پیدا ہوجائے اورایک ملک کا مال اتنی کافی مقدار میں
دوسرے ملک پہنچانا ناممکن ہوجائے اوراس میں کافی زیر باری مشقت پیدا ہوجائے
گی۔
خدا نے اپنے بندوں پر بڑا کرم فرمایا ہے کہ اس نے لکڑی ایسی ہلکی اور مضبوط
چیز بنائی جو پانی پر اتنے بوجھ کو لے کر قائم رہ سکے اور خدا نے اپنی رحمت
سے انسان کو کشتیاں اور جہاز تیار کرنے کی حکمتِ اور سمجھ عطا فرمائی پھر
ہواؤں کو اس انداز ے سے چلایا کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جہازوں اور
کشتیوں کو لے جائیں اور انسان کو ہواؤں کے چلنے کے اوقات اور اس کا علم عطا
فرمایا ان تمام نعمتوں کے لیے ہمیں خدا کاشکر گزار ہونا چاہیے۔
خدا کی اس قدرت کو دیکھ کر کہ اس نے پانی کیسا سیال متصل الاجزاء پتلا لطیف
بنایا ہے گویا کہ تمام پانی ایک بڑا جسم ہے اور اتصال و انفصال کو جلد قبول
کرلیتا ہے، کہ جلد ہی دوسرے پانی سے مل کر ایک متصل جسم ہوجاتا ہے جس میں
تصرف کرنا آسان ہوتا ہے اورپانی کی روانی اور لطافت جیسی خوبیوں کی بدولت
اس پر کشتی اور جہاز آسانی سے رواں ہوسکتے ہیں۔
اس کی عقل پر افسوس کرنا پڑتا ہے جو خدا کی اتنی نعمتوں اور بخششوں پر نظر
نہ کرے اور غافل بنارہے حالانکہ ان تمام چیزوں میں خدا کی قدرت و حکمت کی
بڑی بری نشانیاں ہیں۔
وفی کل شی لہ آیۃ تدل علی انہ واحد
یہ تمام کمالات قدرت زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اے انسان
اپنی آنکھوں سے غفلت کا پردہ چاک کردے اور دل کی آنکھوں سے دیکھ کہ میں نے
کیسی کیسی گونا گوں نعمتیں اور مفید چیزیں بنائی ہیں،کیا ان کے بنانے والا
کوئی دوسرا ہے جس کو میرے ساتھ تو شریک ٹھہراتاہے ؟ بلکہ یہ صرف اسی واحد
قادر اور حکیم کی قدرت کی نشانیاں ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے فائدے کے لیے
بنائی ہیں۔
٭۔٭۔٭
پانی کی پیدائش کی حکمتیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآء ِ کُلَّ شَیْء ٍ حَیٍّ اَفَلَا
یُؤْمِنُوْنَ()(پ١٧،سورۃ الانبیائ،آیت:٣٠)
ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان
نہ لا ئیں گے
فَاَنْبَتْنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ
تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا ء َاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ
یَّعْدِلُوْنَ() (پ١٧،سورۃ الانبیائ،آیت:٣٠)
ترجمہ کنزالایمان:تو ہم نے اس سے باغ اگائے رونق والے تمہاری طاقت نہ تھی
کہ ان کے پیڑ اگاتے کیا اللّٰہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے بلکہ وہ لوگ راہ سے
کتراتے ہیں ۔
خدا نے پانی جیسی ضروری چیز کو اتنی افراط سے پیدا فرما کر بندوں پر کتنا
بڑا احسان فرمایا ہے انسان حیوان حیوان نباتات سب کی زندگی کے لیے پانی کا
ہونا لازمی ہے شدت پیاس میں اگر پانی میسر نہ آئے تو ایک گھونٹ پانی کے لیے
۔۔۔۔۔۔ انسان۔۔۔۔۔۔ بڑی سے بڑی دولت دینے کے لیے آمادہ ہوگا اس وقت انسان
کو پانی کی قدرو قیمت معلوم ہوگی۔ خدا کی اتنی مفید نعمت سے ہم غفلت میں
ہیں اور اس کی اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے۔
پھر خدا کی بڑی حکمت یہ ہے کہ اس نے اتنی ضروری چیز کو کیسی فراوانی اور
افراط سے پیدا فرمایا کہ ہر انسان و حیوان ادنیٰ سی طلب کے بعد پانی حاصل
کرسکے اگر پانی دوسری اشیاء کی طرح ایک محدود مقدار میں ہوتا تو زندگی میں
بڑی دشواریاں پیدا ہوجاتیں بلکہ نظام عالم ہی منتشر ہوجاتا ہے۔
پانی کی لطافت اور رقت پر نظر کیجئے کہ جوں ہی آسمان سے برس کر زمین پر
آتاہے درختوں کی جڑوں میں پہنچ کر ان کی غذابن جاتا ہے اور سورج کی حرارت
سے بخارات کی شکل میں اوپر کی طرف چلا جاتا ہے اور اپنی لطافت ہی کی وجہ سے
غذا کو معدے میں با آسانی لے جا کر ہضم میں مدد دیتا ہے پیاس کے وقت اس کے
پینے میں کیسی لذت محسوس ہوتی ہے اور اس کو پی کر ہم تمام تھکان اور بے
چینی کو بھول جاتے ہیں اور جسم میں ایک راحت کو محسوس کرنے لگتے ہیں، غسل
کرنے میں ہم اس کو استعمال کرتے ہیں بدن ا تمام میل اس سے غسل کرکے دور
کرتے ہیں اپنے میلے اور گندے کپڑے اسی سے دھو کر صاف کرتے ہیں پانی مٹی میں
آسانی سے مل جاتا ہے ہمارے مکان بنانے میں کام آتی ہے اور ہر سوکھی اورخشک
چیز کو ہم پانی کے ذریعہ نرم اور تر کرلیتے ہیں طرح طرح کی مشروبات پانی
ملا کر ہی تیار ہوتے ہیں بڑی بڑی آگ لگنے پر ہم پانی کی مدد سے اس پر قابو
پالیتے ہیں اور پانی چھڑکتے ہی آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے سرد پڑ جاتے ہیں ۔
اسی طرح جب انسان انتہائی غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو پانی کے دو گھونٹ پی
کر اس کا غصہ دور ہوجاتا ہے اور آتش غضب سرد ہوجاتی ہے اور نزع کے عالم میں
جب سکرات کی تکلیف ہوتی ہے۔ تو پانی پی کر اس میں کمی ہوتی ہے ایک مزدور دن
بھر کی سخت مشقت کرکے جب پانی سے غسل کرتا ہے اور ایک گلاس پیتا ہے ۔تو وہ
تمام دن کی مشقت کو بھول جاتا ہے اور ہمارے تمام کھانوں میں اس کااستعمال
ضروری ہے۔ اسی سے ہمارے کھانے تیار ہوتے ہیں پینے کی وہ تمام چیزیں جو
مرطوب ہیں مگر بغیر پانی کے تیار نہیں ہوسکتی پس خدا کی اس بیش بہا نعمت کو
دیکھ کر اس نے کسی افراط سے اس کو پیدا کیا ہے کہ آسانی سے ہم اس کو حاصل
کرلیتے ہیں اور اگر اتنی افراط اور آسانی سے یہ بہم نہ ہوسکتا تو زندگی میں
بڑی تنگی ہوجاتی اور ہمارا تمام عیش و راحت مکدر ہوجاتاہے۔پس خدا کا ہزار
شکر ہے کہ اس نے پانی کو پیدا فرما کر ہمیں اتنے کاموں میں استعمال کرنے کی
قدرت دی اور اس سے بے شمار فائدے پہنچا کر ہماری زندگی میں بڑی سہولت عطا
فرمائی خدا کے ان انعامات کو ہم شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کرسکتے۔
محترم قارئین :حدیث مبارکہ میں ہے ۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک
مرتبہ)سرکار دو عالمصلی اللہ علیہ وسلمکا گزر حضرت سعد رضی اللّٰہ تعالیٰ
عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے)آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا "اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی
ہے)؟حضرت سعد رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف
ہے؟ آپصلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر
(کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔"۔۔۔(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)
ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے
اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم لوگ وضو
کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرجاتے ہیں۔
کبھی غورکیا آپ نے کہ ہم کہاں کہاں پانی ضائع کررہے ہوتے ہیں :
وضو سے پہلے مسواک کرتے وقت پانی کا نَل(ٹوٹی)کھلی رکھنا۔ایک عضاء (ہاتھ،
منہ، بازو،پاؤں)دھوتے وقت پانی کا ضرورت سے زیادہ بہانا۔بعض صابن سے ہاتھ
اور منہ دھوتے ہیں تو صابن لگاتے وقت پانی کھُلا رکھنا۔غسل کرتے وقت جب
صابن لگایا جاتا ہے تو نَل کھُلا رکھنا۔گھروں میں خواتین بھی پانی ضائع
کرتی ہیں۔برتن دھوتے وقت پانی کا اسراف کرنا۔کپڑے دھوتے وقت پانی کا بلا
وجہ اسراف کرنا۔ گھر کی صفائی کے وقت پانی بت زیادہ پانی استعمال
کیاجاتاہے۔
محترم قارئین !!ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے ۔پانی لوٹا میں یا کسی اور
برتن میں ڈال کر وضو کیا جائے تو پانی ضائع نہیں ہوتا۔اگر نَل پر ہی وضو
کرنا ہے تو نَل اُسی وقت کھولیں جب کسی عضو کو دھونا ہو اور جب دھل جائے تو
نَل بند کردیں۔مسواک اور سر کا مسح کرتے وقت نَل کو بند رکھیں۔وضو کرتے
ہوئے اگر صابن لگانا ہے تو صابن لگاتے وقت نَل کو بند رکھیں۔گھر کی صفائی
ہمیشہ بالٹی میں پانی ڈال کر کریں نَل کے ساتھ پائپ لگاکر صفائی کرنے سے
پانی بہت زیادہ ضائع جاتا ہے۔ برتن دھوتے ہوئے ہمیشہ کا اصول بنانا جائے کہ
صابن لگاتے اور برتن کو مانجتے وقت نَل کو بند رکھیں۔اور یہی اصول کپڑے
دھوتے وقت بھی اپنایا جائے تو پانی کے اسراف سے بچا جاسکتا ہے۔ان کے علاوہ
اور بہت سے مواقع ہیں کہ جہاں ہم پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔جو
سراسر غفلت ہے ۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَاللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا(پ١٤،سورۃ
النحل،آیت:١٨)۔ترجمہ کنزالایمان:اور اگر اللہ کی نعمتیں گِنو تو انہیں شمار
نہ کرسکو گے۔
اللہ ہم سب کو اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق دے اور نعمتوں کی ناقدری
کرنے اور اس کو ضائع کرنے سے بچائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین |
|