سرکاری عمارتوں پریلغار ۔خودہی دیکھیں اپنا کردار۔ جاویدہاشمی کی پکار

حکومت کے خلاف مارچ ہونے جارہے ہوں اوروہ خاموشی سے یہ سب کچھ سنتی اور دیکھتی رہے یہ نہیں ہوسکتا۔سابقہ حکومتوں کے دورمیں بھی جب بھی حکومت وقت کے خلاف احتجاج ہوئے توحکمرانوں نے اسے ناکام بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔راستے بندہوئے گرفتاریاں ہوئیں ۔مقدمات بنے ۔ جلسہ گاہوں میں پانی چھوڑے گئے۔اسی طرح نوازشریف کی موجودہ حکومت نے بھی آزادی و انقلاب مارچ کو ناکام بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔عوامی تحریک اورتحریک انصاف کے خلاف یکے بعد دیگرے کریک ڈاؤن کرکے ان کے ہزاروں کارکنوں کوپابندسلاسل کردیا گیا۔لاہوراسلام آبادسمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں کنٹینرز لگاکر راستے بندکردیے گئے۔حکومت نے صرف یہی کچھ ہی نہیں کیا بلکہ اس نے احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مطالبات ماننے کا بھی اعلان کیا۔آزادی و انقلاب مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں عمران خان کے مطالبات پر مثبت جواب دیتے ہوئے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔بعد ازاں انہوں نے یہ کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کوخط بھی لکھا۔چاہیے تو یہ تھا کہ وزیراعظم کی طرف سے مثبت جواب آنے پر آزادی مارچ ختم کردیا جاتا۔اگرعمران خان کونوازشریف پراعتماد نہیں تھا تو ضامن مانگ لیا جاتا۔الٹا عمران خان نے وزیراعظم کا قوم سے خطاب ختم ہوتے ہی ان کی طرف سے کیے گئے اعلانات کو یکسر مستردکردیا اور کہا کہ نوازشریف کے ہوتے ہوئے شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔اس کے بعد حکومت کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے میں تیزی آگئی۔انقلاب وآزادی مارچ کی مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کوغیر آئینی مارچ سے روک دیا۔عمران خان نے اس کے جواب میں کہا کہ مارچ غیر آئینی نہیں۔جبکہ طاہرالقادری نے کہا کہ پرامن انقلاب کی ضمانت دیتاہوں۔روانہ ہونے سے پہلے دونوں مارچوں کے قائدین نے وعدہ کیا کہ وہ مقررہ مقامات پر ہی دھرنا دیں گے اور اس اسے آگے نہیں جائیں گے۔ اس بات کا اعتراف جاوید ہاشمی نے پریس کانفرنس میں بھی کیا ہے۔ اس کی تفصیل اس تحریر میں آگے چل کر آئے گی۔اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا کہ ہم پرامن رہے۔ پرامن تھے ہیں اوررہیں گے۔ہمارا عقیدہ ، جینا اورمرنا امن ہے۔ہم آئین اورقانون پر یقین رکھتے ہیں۔اگر کوئی گولی بھی چلائے تو کوئی کارکن اس کا جواب نہیں دے گا۔ریڈ زون میں پتھراؤ کیا گیا۔ہم اپنی زندگیاں قربان کردیں گے مگر تشدد اور دہشت گردی کاراستہ کسی صورت نہیں اپنائیں گے۔اگر کسی کارکن نے تشد دکاراستہ اپنایا تو وہ خود اسے اپنی پارٹی سے نکال دیں گے۔جب تشدد کاراستہ اپنایا گیا تواعلان تعلقی کردیا۔عمران خان نے مڈٹرم انتخابات، ٹیکنوکریٹ حکومت اورغیرسیاسی قومی حکومت کے مطالبے کیے۔ جاوید ہاشمی کی ناراضگی پر ٹیکنو کریٹ حکومت اور طاہرالقادری کی طرف سے مسترد کردینے کے بعد مڈٹرم انتخابات کا نام نہیں لیا۔۱۶ اگست کو عمران خان نے دھمکی دی کہ سونامی پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پہنچ سکتاہے۔سترہ اگست کو عمران خان نے حکوت کومستعفی ہونے کے لیے دودن کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے سول نافرمانی کا اعلان کردیا۔ جسے پوری قوم نے مسترد کردیا۔ایک رپورٹ کے مطابق ماہ اگست میں ٹیکس وصولیاں ہدف سے بھی زیادہ ہوئی ہیں۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکاء نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی توان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔مارچوں کے شرکاء پرامن رہیں اور ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔۱۸ اگست کوتحریک انصاف نے کے پی کے علاوہ قومی اورصوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔عمران خان نے ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے اور پارلیمنٹ اوروزیراعظم ہاؤس جانے کا اعلان بھی کیا۔انیس اگست کو دونوں مارچ ریڈ زون کی طرف روانہ ہوئے توعوام میں تشویش کی لہردوڑگئی ۔ان کو وہاں جانے سے روک دیا جائے گا جس سے پولیس کے ساتھ تصادم ہوسکتاہے۔تاہم ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔کیونکہ وزیراعظم نوازشریف نے ریڈ زون میں داخل ہونے والوں پر گولی چلانے سے روک دیا۔اورکہا لاٹھی چارج کیا جائے نہ شیلنگ ہونی چاہیے۔ریڈ زون میں جہاں بیٹھنا چاہیں انہیں بیٹھنے دیا جائے۔یوں ریڈ زون میں داخل ہوکر طاہرالقادری اور عمران خان دھرنوں والی جگہ سے آگے نہ جانے کے اپنے وعدہ سے منحرف ہوگئے۔اس وقت حکومت اگر مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکتی تو روک سکتی تھی اورطاقت کا استعمال بھی کرسکتی تھی تاہم اس نے قوم کو خون خرابے سے بچالیا۔چوبیس اگست کو دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ عوام سرکاری بینکوں سے پیسہ نکلوالیں۔ اور بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ رقوم قانونی طور پر نہیں ہنڈی کے ذریعے بھیجیں۔دوگھنٹے بعد کہا کہ غلطی سے کہہ دیا۔ شاید انہوں نے یہ ضرب المثل نہیں پڑھی یا سنی کہ پہلے تولو پھر بولو۔سیاست میں اس کا مفہوم یوں بنے گا کہ پہلے سوچو پھر بولو۔جبکہ طاہرالقادری نے کہا کہ پہلے شہداء کے خون کا حساب پھر دس نکاتی ایجنڈے پربات ہوگی۔ مجھے شہید کیاگیا توپارلیمنٹ شہداء کا قبرستان بن جائے گا۔ اس دوران مذاکرات کاسلسلہ بھی جاری رہا اور تادم تحریر جاری ہے۔نوازشریف نے کہا کہ دھرنے والوں کے آئینی مطالبات مان لیے اب احتجاج کا کوئی جواز نہیں۔سعد رفیق نے طاہرالقادری کو وزیراعظم کا پیغام پہنچایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر معذرت خواہ ہیں۔ذ مہ داروں کے خلاف مقدمات درج اور دکھوں کا مدااوا کریں گے۔۲۵ اگست کو سپریم کورٹ نے شاپراہ دستور کو دھرنوں سے خالی کرانے کا حکم دیا۔طاہرالقادری نے کفن دکھاتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کو اڑتالیس گھنٹے دیتا ہوں وورنہ میں پہنوں گا یا نوازشریف کااقتدار۔۲۶ اگست کو لاہورہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیاتو طاہرالقادری نے کہا کہ بات شریف برادران کی پھانسی تک جا پہنچی۔اب تخت یا تختہ ہوگا۔سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تحریک انصاف اورعوامی تحریک نے دھرنے کی جگہ چھوڑنے سے انکارکردیا۔اٹھائیس اگست کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کامقدمہ درج کرکے ایف آئی آرسیل کردی گئی۔اسی روز دھرنے کے شرکاء کی ممکنہ یلغارروکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔اوراہم عمارتیں بھی خالی کرالی گئیں۔اسی روز ہی آرمی چیف کے کہنے پر عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنے اہم اعلانات چوبیس گھنٹوں کے لیے ملتوی کردیے۔خواجہ آصف، سعد رفیق اور پرویز رشید نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عمران اور قادری خون خرابہ چاہتے ہیں۔حکومت سیاست چمکانے کے لیے لاشیں نہیں دے گی۔ہم مذاکرات کی کامیابی کے لیے آخری حدتک چلے گئے۔حکومت کا ایک بھی مطالبہ نہ مانا گیا۔عمران خان کے پانچ مطالبات مان لیے۔ملک میں کون سی جنگ لگی ہے کہ شہادت کی باتیں ہورہی ہیں۔۲۹ اگست کو جاوید ہاشمی پھر ناراض ہوکر چلے گئے۔ پہلے روز تو انہوں نے کسی سے ناراضگی کو مسترد کردیا اور کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات سمیت تمام فیصلے میری مشاورت سے ہوئے ۔ موجودہ حالات سے قوم بھی خوش نہیں۔ بعدازاں انہوں نے بہت کچھ کہا اس کی تفصیل آیا ہی چاہتی ہے۔تیس اگست کو مظاہرین وزیراعظم ہاؤس کی جانب جانے لگے تو پولیس نے انہیں روکنے کے لیے شیلنگ کی اورربڑ کی گولیاں فائر کیں۔کچھ مظاہرین وزیراعظم ہاؤس داخل بھی ہوگئے۔مظاہرین واپس ہونے لگے۔جبکہ عمران خان اورطاہرالقادری نے کہا کہ ہم پرامن رہیں گے۔انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ وہ آسانی سے وزیراعظم ہاؤس داخل ہو جائیں گے پولیس یہاں بھی مزاحمت نہیں کرے گی۔سرکاری عمارتوں پر دھاوا بولنا اور پرامن رہنا دو متضاد چیزیں ہیں۔وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کی کوشش بھی کی جائے اورکہا جائے ہم پرامن رہیں گے ۔ یہ اپنے ہی دعویٰ کی نفی ہے۔شیلنگ سے درجنوں کارکن زخمی اورایک خاتون جاں بحق ہوگئی۔درجنوں افراد لہو لہان ہوگئے۔ افراتفری مچ گئی۔ پولیس نے انقلاب والوں کی کرین قبضہ میں لے کرڈرائیور گرفتارکرلیا۔وفاقی دارالحکومت کا حساس ترین علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔آنسو گیس پورے شہر میں پھیل گئی۔خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ کا ہرقیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔حکومت رٹ برقرار رکھنے کے لیے ہر اقدام کرے گی۔مظاہرین کواب کہیں ٹھہرنے نہیں دیا جائے گا۔دونوں قائدین کہتے رہے کہ پہلی گولی میں کھاؤں گا۔ریڈ زون میں داخل ہوئے توخواتین اوربچوں کوآگے کردیا۔وزیراعظم ہاؤس کی جانب جاتے ہوئے پولیس کی جانب سے کارروائی ہوئی تودونوں قائدین کنٹینرز میں چلے گئے۔دوسرے روزبھی ریڈزون میدان جنگ بنا رہا۔چارافراد جاں بحق اورسیکڑوں زخمی ہوگئے۔جن میں ۷۲ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔جاویدہاشمی نے کہا کہ حکومت سے مذاکرات آگے بڑھ چکے تھے۔ رات ساڑھے نو بجے کامیاب مذاکرات ہوئے ۔ ۱۵ منٹ بعد سیف اﷲ شیخ رشید پیغام لے کرآئے عمران نے کہا مجبوری ہے آگے جانا پڑے گا۔میری مخالفت پرمجھ سے کہاآپ کو اختلاف ہے توچلے جائیں۔جمہوری اداروں پر چڑھائی کرکے عمران نے پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کی۔کوئی ضابطہ اخلاق پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔پریڈ گراؤنڈ سے آگے نہ جانا طے ہوا تھا۔عمران خان طاہرالقادری کے پیروکاربن گئے۔انہوں نے کہا میں اب بھی پی ٹی آئی کاصدرہوں۔عمران خان نے مجھے نکالنے کے لیے آئینی راستہ نہیں اختیارکیا۔انہیں ملک کے آئین کی پراہ نہیں ۔کاش وہ پارٹی کا آئین پڑھ لیتے۔عمران خان خودکو سچا کہتے ہیں ان کو پتہ ہے کورکمیٹی کے کتنے لوگوں نے فیصلہ کیاتھا کہ شاہراہ دستور سے آگے نہیں بڑھیں گے۔عمران نے اس فیصلے پر مہر ثبت بھی لگائی۔عمران نے کہا بیج والے کہتے ہیں طاہرالقادری کے ساتھ چلیں۔خان صاحب قوم کی نظروں میں آپ کاامیج خراب ہورہا ہے۔عمران خان نے اپنا پروگرام کورکمیٹی کے آگے رکھا اورکہا کہ مارشل لاء کے لیے نہیں کہوں گا۔سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مرضی کاآرہا ہے۔ان سے معاملات طے ہوگئے ہیں۔ وہ ہمارے اقدامات کی توثیق کردیں گے۔ہم فوج کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اگست کے آخریا ستمبرمیں انتخابات ہوجائیں گے۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ یہ پلان کس کا ہے میں نہیں جانتا۔میں سپریم کورٹ کی توہین نہیں کرسکتا۔عمران خان تمام اداروں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ میرے ساتھ کیے ہوئے وعدے توڑدیے۔پی ٹی آئی ممبران سے زبردستی استعفے لکھوائے گئے۔ممبران کیا کرتے کدھرجاتے۔اسمبلیاں توڑنے کے لیے استعفوں کا فیصلہ ہوا۔یکم ستمبرکو مظاہرین ریڈلائن عبورکرگئے۔شیلنگ اورپتھراؤسے ایس ایس پی اوردرجنوں کارکن زخمی ہوگئے۔مظاہرین نے پاک سیکریٹریٹ اور پی ٹی وی پرقبضہ کرلیا۔۵۰ منٹ تک نشریات بندرہیں۔عملہ یرغمال بنالیا گیا۔پی ٹی عمارت پرمامورپولیس اہلکاروں نے چھپ کرجان بچائی۔فوج اوررینجرزکے جوانوں نے مظاہرین کوباہرنکالا۔پاک سیکرٹریٹ کا علاقہ میدان جنگ بنارہا۔آئی ایس پی آر، چیف جسٹس، شیخ رشیدنے جاویدہاشمی کی ان سے منسوب باتوں کی تردید کردی ہے۔عمران خان نے کہا کہ گرفتارکارکن رہا کیے جائیں ورنہ تھانوں کا گھیراؤ کریں گے۔نوازشریف کاوقت ختم ہوچکا ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔طاہرالقادری نے کہا حکمرانوں کو دن میں تارے دکھا دیں گے۔پرائم منسٹر ہاؤس کے گیٹ پرقبضہ کرلیا ہے۔وزیراعظم کوداخل نہیں ہونے دیں گے۔دوسرے روز دوستمبرکو کہا کہ سرکاری ٹی وی پر حملہ کرنے والے ن لیگ کے گلوبٹ ہوسکتے ہیں واہ جی واہ احاطے میں قبضہ آپ کے کارکنوں کاہے اورحملے کوئی اورکررہاہے۔اسی روزبھی ریڈزون میں کشیدگی برقراررہی۔ جاویدہاشمی اسمبلی میں پہنچ گئے ۔نوازشریف سے گلے ملے اوراسمبلی سے مستعفی ہوگئے۔یہ سطورلکھتے ہوئے تازہ ترین خبریہ ہے کہ عوامی تحریک کے ڈنڈابردارکارکنوں نے سرکاری ملازمین کوپارلیمنٹ ہاؤس جانے سے روک دیا ہے۔

احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کاحق ہے۔ تاہم سرکاری عمارتوں پر دھاوابول دینا یہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ پرامن رہنے کے دعوے اورعمارتوں پر یلغاردومتضاد کام ہیں۔ریڈزون میں داخل ہوکردونوں قائدین نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ جب ایک فریق معاہدہ توڑدے تودوسرافریق بھی اس کا پابندنہیں رہتا۔ مظاہرین بیٹھے رہے توحکومت نے بھی کوئی طاقت استعمال نہیں کی۔جب انہوں نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی توقانون بھی حرکت میں آگیا۔ حکومت کوہی کہا جارہا ہے کہ وہ طاقت استعمال نہ کرے ۔ دھرنوں کے قائدین سے کوئی نہیں کہتاکہ ایسا کام نہ کرائیں جس سے حکومت کوطاقت استعمال کرنی پڑے۔حکومت نے ان کے آئینی مطالبات مان کراخلاقی فتح حاصل کرلی ہے۔اتنے مطالبات منوالیے اب نوازشریف کے استعفے کامطالبہ ایک ہی مطالبہ احتجاج والے ہی چھوڑدیں۔ ملک وقوم پررحم کریں۔جوسب کچھ مان گئے وہ ہٹ دھرمی پرہیں یاجوکسی کی نہیں مان رہے وہ ۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.