میں علی پاکستانی "چوھدری محمد راشد" ایک مجرم ہوں۔ کیا میرے ملک پاکستان کا قانون مجھے سزا دے سکتا ہے؟
(Chaudhry Muhammad Rashid, Jeddah)
اپریل 2014 کو جیو کی ملک
پاکستان کے خلاف لڑی گئی جنگ، جیو کے باہر ملکوں سے تعلقات، جیو کی ملک
دشمنی کے سامنے آنے والے حقائق اور جیو کے مالکان کے تعلقات اور سیاسی
بدکرداروں کے رویے نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں ہر اس جرم کو قبول کروں
جس سے میں اپنے اثرورسوخ، تعلقات اور اپنے خاندان کی وجہ سے بچ نکلا۔ آج
میں اپنے جرائم قبول کرنے کی کوشش اس لیے کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے ملک میں
سچ کا دور واپس آ جائے۔ تاکہ آئیندہ اگر میں جرم کروں تو مجھے شرمندگی کا
احساس ہو اور مجھ میں اتنی اخلاقی ہمت ہو کہ میں کسی بھی ملک دشمن کے خلاف
ایف آئی آر درج کرا سکوں۔ اس پر اس ملک دشمن کو سزا بھی ملے-دسمبر 2000ء کو
میں نے ہمارے ہی سکول کے ایک دوسرے مذہب کے لڑکے کو بلوا کر کچھ لڑکوں سے
زدکوب کروایا، اس دوسرے مذہب کے لڑکے نے میرے سامنے میرے مذہب کو گالی دی
تھی۔ میں نے ایک سنگین جرم کیا، قانون کو ہاتھ میں لیا- میرے اساتذہ نے
خاموشی کو ترجیح دی۔ اگر مجھے انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا اور توہین مذہب
کی ایف آئی آر اس لڑکے پر بھی کٹتی تو آج جیو، بدکردار مغربی اور انڈین
ایجنٹ کھلے عام اسلامی شعار کی تضحیک نہ کر رہے ہوتے- دسمبر 2001 کو میں نے
ایک اور سنگین جرم کیا۔ گھر والوں کو بنا بتائے میں جہاد کشمیر پر نکل کھڑا
ہوا۔ میں کشمیر تو آزاد نہ کروا سکا۔ میں نے جرم کیا کہ میں خود ہی کشمیر
کو آزاد کروانے نکل کھڑا ہوا، ورنہ اگر میں یہی اصول، اپنی اخلاقی طاقت لے
کر 1999 میں اپنی فوج کے پیچھے کھڑا ہوتا تو کشمیر کب کا آزاد کروا لیا گیا
ہوتا۔ اگست 2007 کو میں نے عیسائی مغربی ملکوں سے عراق اور افغانستان کا
بدلہ لینے کا سوچا اور عیسائی پوپ بینڈکٹ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا- میں
فرقوں میں بٹا ایک بے عمل مسلم اگر اتحاد، ایمان اور تنظیم کو اپنے کردار
کا حصہ بناتا تو کیسے عیسائی ملک اسلامی ملکوں پر چڑھ دوڑتے۔ میری اسلام سے
دوری نے مغربی ملکوں کو لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے کا جواز دیا۔ اسی بے
عملی نے آج بھی اسلامی ملکوں کو مغرب کا غلام بنایا ہوا ہے۔ دسمبر 2007 کو
جب پاکستان کی جان ایک کرپٹ مجرم سے چھوٹی تو میں نے افراتفری کو ہتھیار
بنا کر باقی کرپٹ سیاست دانوں کو بھی اسی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی،
حالانکہ میں نے ہمیشہ ووٹ نہ ڈالنے کا جرم باربار کیا۔ اگر میں پاکستانی
شہری ہونے کے ناتے ان سیاست دانوں کا گریبان پکڑ کر ان سے غریبوں کا حق
مانگتا تو کب کا پاکستان ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتا-فروری 2014ء میں مجھے
پتا چلا کہ کیسے میرا باپ باہر ملک سے بھیجا ہوا میرا پیسا بنک میں رکھ کر
ٹیکس بچاتا ہے۔ وہ کاروبار جو وہ کرتا ہے اس کا پورا ٹیکس ادا نہیں کیا
جاتا- اگر میرا باپ ٹیکس دیتا اور وہی ٹیکس تعلیم، صحت اور ملک پاکستان کے
اداروں پر خرچ ہوتا تو نا جانے کتنے پاکستانی اس سے مستفید ہوتے۔ میں تو
مجرم ہوں پاکستانی نسلوں کا- کیا پاکستان کا نظام مجھے میرے ان جرائم کی
سزا کبھی دے سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ جاری ہے
اگلا حصہ: کیا جوتا چور ایک چور اور ٹیکس چور ایک معزز آدمی ہے؟ کیوں آج ہم
اخلاقیات کی گراوٹ کا شکار ہیں؟
کیا اخلاقیات کی گراوٹ میں سیاست کا کوئی کردار ہے؟ |
|