65 کی جنگ اور وزیرستان میں دنیا کی مشکل ترین جنگ

ایک روسی جرنیل نے بہت خوب کہا تھا کہ جنگ تباہی بربادی تو لاتی ہیں لیکن پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو بھی دیتی ہیں ۔ وہ قومیں ہمیشہ سرخرو رہتی ہیں جو مشکل گھڑی میں اپنی فوج کے شانہ بشانہ ہو تی ہیں ۔آج کی نسل کو 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بارے میں زیادہ علم نہیں صرف نشان حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی تصویروں کو چوم کر ہی وہ اپنا حق ادا کر لیتے ہیں لیکن اس وقت حالات کیا تھے اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے کم ترین تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے سے دس گناہ بڑے دشمن کا حملہ نہ صرف کامیابی سے روکا بلکہ اس کے وسیع و عریض علاقے پر قبضہ کر کے جنگ بندی کے بعد پاکستانی قوم کو مذاکرات کی میز پر سر فخر سے بلند کرکے بیٹھنے کااعزاز بخشا تھا۔دنیا کی عسکری تاریخ میں 65 کی جنگ کا ذکر آج بھی سنہری لفظوں میں لکھا ہوا ملتا ہے ۔ ایک بھارتی جرنیل لیفٹیننٹ جنر ل ہربخش سنگھ اپنی کتاب Indo-Pak -Conflict, 1965 War Despatches نے بہت واضح الفاظ میں اپنی جنگی حکمت عملی کی ناکامی کااعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی جانبازوں بالخصوص میجر شفقت بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے بھارتی فوج کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملا کے رکھ دیا ۔یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میجر شفقت بلوچ ڈبل ستارہ جرات پاک فوج کے وہ بہادر افسر تھے جن کی قیادت میں 110 جوانوں نے پورے دس گھنٹے تک ہڈیارہ ڈرین کی جانب بھارتی فوج کے بریگیڈ حملے کو نہ صرف کامیابی سے روکے رکھا بلکہ اس قدر نقصان پہنچایا کہ دوبارہ حملہ آور ہونے کے لیے بھارتی فوج کو نیا بریگیڈ لاہور کے محاذ پر لانا پڑا ۔ا ن حالات میں تمام پاکستانی سیاست دان تعریف کے قابل ہیں جوحضرت فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کی دھاندلی والے الیکشن کے اختلافات کو بھولا کر نہ صرف ایک مٹھ ہوگئے بلکہ پاکستانی قوم کا ہر چھوٹا بڑا فرد پاک فوج کے شانہ بشانہ بھارتی فوج سے لڑنے کے لیے فرنٹ لائن تک پہنچ گیا ۔زندہ دلان لاہور تو فوجی بھائیوں کے لیے ناشتہ دوپہر اور رات کا کھانا بھی مورچوں میں پہنچانے کے لیے پیش پیش ہواکرتے تھے ۔لیکن آج جب پاک فوج وزیر ستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں میں دنیا کی مشکل ترین جنگ میں پوری شدت سے مصروف عمل ہے 10 لاکھ قبائلی مہاجرین اپنا گھر بار چھوڑ کر بنوں اور کوہاٹ کے علاقوں میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔لیکن پاکستانی سیاست دانوں بطور خاص عمران خان جن کی حکومت خیبرپختوانخواہ میں ہے اور ان کا فرض بنتا ہے وہ سب کچھ چھوڑ کر اور تمام سیاسی اختلافات کو بھول کر پہلے مہاجرین کی شاندار طریقے سے دیکھ بھال کرے تاکہ ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت مزید بڑھے پھر انہیں چاہیئے تھا کہ 85 کے قریب پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں نے فوجی آپریشن میں شہادتیں حاصل کی ہیں ان کے گھروں میں جاکر ان کے لواحقین سے تعزیت کرکے ان کے غم میں شریک ہوتے ۔جن خاندانوں کے فرزندوں نے وطن عزیز کے تحفظ کی خاطر اپنی قیمتی جانیں قربان کی ہیں انہیں بھی اپنائیت کا احساس ہوتا لیکن عمران خان نے نہ صرف یوم آزادی کے دن کومتنازعہ بنا کے رکھ دیا ہے بلکہ 20 دن سے جاری ریڈزون میں دھرنا دے کر ٗ پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوکر ٗ وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کرنے کا جنون پیدا کرکے وہ مکروہ اور گھٹیا کردار ادا کیا ہے جو کبھی دشمن بھی نہیں کرتے ۔طاہر القادری کی بات تو چھوڑدیں ۔ عدالتیں بھی ان کے دماغی توازن خراب ہونے کے بارے میں رولنگ دے چکی ہیں پھر ان کو پاکستان اور پاکستان میں رہنے والوں اور وطن عزیز کا دفاع کرنے والوں سے کوئی غرض نہیں وہ تو کینیڈا کے شہری ہیں اور انہیں آج نہیں تو کل واپس کینیڈا لوٹ ہی جانا ہے ۔وہ بلٹ پروف کینٹنر میں بیٹھ کر شہید ہونے مضحکہ خیز خواہش رکھتے ہیں۔وہ نہ تو پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں نہ ہی پارلیمنٹ کی قدر کرتے ہیں وہ خود کو فرشتہ اور دوسروں کو چور اچکا ٗ بدمعاش اور یزید تک کہنے سے باز نہیں آتے ۔انہیں کشمیر ٗ فلسطین میں یہودی فوج کے ہاتھوں معصوم بچوں کی شہادتوں کا بھی غم نہیں ہے وہ اپنے تعلیمی اداروں کی خاتون ٹیچرز اور طالب علم بچیوں کو بطور ڈھال استعمال کررہے ہیں اور خود دو کروڑ روپے سے آراستہ کینٹنر میں یورپی موسم کا مزا لیتے ہوئے گرم کوٹ اور ٹوپی پہن کر للکار للکار کر حکمرانوں کو یزید سے تشبیہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے ۔وہ شاید اپنے نام نہاد انقلاب کا شوشہ چھوڑنے کے اتنی جلدی پاکستان نہ آتے اگر شیطان صفت اور سازشی سیاست دان شیخ رشید اور چودھری برادران ان کو لندن جا کر یہ یقین نہ دلاتے کہ پاکستان میں شریف برادران کی تبدیلی کے لیے منصوبہ حتمی طور پر طے پا چکا ہے بس آپ پاکستان چلیں اور اپنی مرضی کا انقلاب پاکستانی قوم پر فٹ کرکے واپس کینیڈا چلے جائیں پھر ہم جانیں اور ہمارا کام۔جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان نے بھی قادری سے لندن میں ملاقات کرکے خفیہ مدد کی یقین دھانی کروائی تھی ۔ان شیطانوں کے بہکاوے اور خفیہ اشاروں میں آ کر قادری اور عمران اگر اپنا آزادی مارچ اور انقلاب مارچ 14 اگست کو نہ کرتے تو آج پاکستانی قوم پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کو بھول کر اسلام آباد کی سڑکوں پر لیٹ کر اور ٹی وی چینلز دیکھ دیکھ کر نفسیاتی مریض نہ بنتی اور نہ ہی بے سرسامانی کے عالم میں مہاجرین کی حالت قابل رحم ہوتی ۔عاصمہ جہانگیر سے نظریاتی اختلاف کے باوجود مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ عمران خان طالبان کے جاسوس ہیں انہوں نے شریف برادران کے خلاف محاذ کھول کر اور میں نا مانوں کی رٹ لگا کر نہ صرف پاک فوج کی قربانیوں کو پس منظر میں ڈال دیا ہے بلکہ پاک فوج کے جو افسراور جوان زخمی ہوکر ہسپتالوں میں پڑے ہیں ان کو لاوارث بنا دیا ہے ۔عمران اور قادری کی کامیابیوں کی خوشی ایک طرف لندن میں بیٹھے ہوئے ہزاروں افراد کے قاتل منارہے ہیں تو دوسری جانب ایک نجی ٹی وی پر دکھائی جانے والی ویڈیو میں فضل اﷲ اور مسلح طالبان ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے مبارک بادیں دے رہے ہیں کہ عمران اور قادری کی قیادت میں 30 ہزار افراد نے حکومت کو مفلوج کرکے ہماری کامیابی کو آسان کردیا ہے۔طالبان کی خوشی اور اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرنے پر جس طرح عمران اور قادری کا شکریہ اداکیا گیا ہے اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے بلکہ ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہیئیں۔اگر خدانخواستہ پاک فوج راستے سے ہٹ جاتی ہے تو کیا عمران کے ڈنڈا بردار اور غلیل باز ٹائیگر مسلح طالبان کے حملوں کو روک سکیں گے ۔یہ آزادی اور انقلابی مارچ فوجی آپریشن کے بعد بھی ہوسکتا تھا پھر جائز مطالبات منوانے کی بجائے پورے سسٹم کو ختم کرنے اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مسلسل مطالبہ کرنے پر عمران اور قادری پوری قوم کی نظر سے گر چکے ہیں۔کاش ان دونوں اور خالی دماغ کارکنوں کو فوج کی قربانیوں اور مہاجرین کی تکلیفوں کااحساس ہوتا ۔دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوچکی ہے قوم کی نظریں فوج کی قربانیوں اور مہاجرین سے ہٹ کر ٹی وی چینلز تک محدود ہوکر رہ چکی ہیں۔ یہ کارنامہ واقعی عمران اور قادری نے نہایت کامیابی سے اس وقت انجام دیا جب پاک فو ج دنیا کی مشکل ترین جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے وقت بھی عمران اور قادری ہوتے تو شاید پاکستان کامیابی سے اپنا دفاع نہ کرسکتا ۔کیونکہ ان کو اپنی ذاتی اناکے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 787856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.