پاکستان کی سیاسی صورت حال

ان دنوں وطن ِ عزیز کی سیاسی صورت حال نا گفتہ بہ ہے ۔ اسی سیاسی صورت حال کے باعث چینی صدر کا دورہ ِ پاکستان ملتوی ہوا ہے ۔ حکومت کے مطابق چینی صدر کے نہ آنے سے پاکستان کو 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔ کیوں کہ چینی صدر نے 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں پر دست خط کرنے تھے ۔ بی بی سی کے مطابق : "گذشتہ ماہ ہی وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چین نے پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے آئندہ چار برس کے دوران ملک میں دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ کے بجلی گھروں کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔" سبھی جانتے ہیں کہ چین پاکستان کا ایک اچھا دوست ہے ۔ لیکن ہم اپنی سیاست کے باعث اسے بھی خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک قابل ِ ستائش امر ہے کہ حزب ِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف کی جماعتیں چینی صدر کے دورہ ِ پاکستان کے لیے سر گرم ہوگئی ہیں ۔ پاکستان کے دفتر ِ خارجہ کے مطابق چینی صدر کے دورہ ِ پاکستان کے لیے کوششیں جاری ہیں ۔ پاکستان تحریک ِ انصاف کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی نےکہا ہے کہ ہم چینی صدر کے دورے کی اہمیت کو بہ خوبی سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسلام آباد میں چینی سفیر سے ملاقات کریں گے اور چینی صدر کے دورے کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت کریں گے ۔

ملک کا دارالحکومت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ غیر ملکی میڈیا کی نظر سب سے پہلے دارالحکومت پر ہی پڑتی ہے ۔ پاکستان کا دار الحکومت ان دنوں "آزادی اور انقلاب مارچوں " کے حوالے سے غیر ملکی میڈیا میں بہت شہرت حاصل کر چکا ہے ۔ یہ مارچ 14 اگست سے شروع ہوئے اور ہنوز جاری ہیں ۔ ان کے رہنماؤں کے مطالبات کی صحیح طور پر شنوائی ابھی تک نہیں ہوئی ۔ حزب ِ اقتدار کی جماعت نے سمجھا تھا کہ یہ مارچ چند دنوں تک جاری رہیں گے ۔ پھر یکا یک تھم جائیں گے ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔ مظاہرین زور پکڑتے گئے ۔ یہاں تک کہ وہ ڈی چوک سے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچ گئے ۔ بغیر کسی لے دے کے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مارچ کے رہنماؤں کے بہت سے مطالبات قابل ِ غور ہیں ۔ اور حکومتی توجہ کے مستحق ہیں ۔ بہر حال ہم ایسے امن پسند لوگ تو امن ہی چاہتے ہیں ۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک انارکی کا شکار ہو ۔ ہمارے پیارے ملک کے لوگوں میں انتشار پھیلے ۔ نفرتیں پروان چڑھیں ۔ مخالف جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے کو سر ِ عام گالیاں دیں ۔ عدم برداشت کی فضا اس حد تک پروان چڑھے کہ اپنے رہنما پر جائز اوراصلاحی تنقید بھی عام کارکن کو سیخ پا کر دے ۔ جی ہاں ! سوشل میڈیا پر ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ سر ِ عام گالیاں دی جارہی ہیں ۔نہ عزت کا پاس ، نہ مرتبے کا لحاظ ۔ یہ صورت ِ حال سراسر قابل ِ فکر ہے۔ ایک طرف غیر ملکی میڈیا ہمار مذاق اڑا رہاہے تو دوسری جانب عوام میں بھی پاکستان کی ابتر سیاسی صورت حال کے باعث نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تین بڑے نقصانات ہوئے :
چینی صدر کا دورہ ِ پاکستان ملتوی ہو گیا ۔
غیر ملکی میڈیا پر پاکستان کے بارے میں منفی خبریں آنے لگیں ۔
سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان لفظی جنگ شروع ہو گئی ۔

ایک طرف اسلام آباد میں لانگ مارچوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب حکمران جماعت اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کی دو معزز شخصیات کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوگئی ۔ جو کہ ابھی ختم ہوگئی ہے ۔ لیکن اس کے اثرات زائل نہیں ہوئے ۔ میرا اشارہ وفاقی وزیر ِ داخلہ اور سینیٹر اعتزا ز احسن کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی کی طرف ہے ۔ 2 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے دن اعتزاز احسن نے اپنی تقریر میں وزیر ِ اعظم اوران کے قریبی رفقاء پر خاصی تنقید کی ۔ جس پر وزیر ِ داخلہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ ایک دن بعد انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن پر سخت تنقید کی ۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اعتززا حسن حسین (رضی اللہ عنہ ) کا نام بھی لیتے ہیں اور یزید کا بھی دم بھرتے ہیں ۔جمعے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قائد ِ حزب اختلاف نے چوہدری نثار سے ایوان میں معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا ۔ چوہدری نثار نے تو معافی نہیں مانگی ، لیکن وزیر ِ اعظم نے مانگ لی ، جو وزیر ِ اعظم کی بالغ نظری کا ثبوت ہے ۔ غالبا وزیر ِ اعظم کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ ملک کی نازک سیاسی صورت حال میں مصالحت کی پالیسی اپنانا از حد ضروری ہے ۔ وزیر ِ اعظم کی معذرت کے باوجود اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں بڑا تنقیدی اور سخت بیان کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں چاہوں تودھرنے کے خلاف تمام مزاحمت ختم کرکے اس پارلیمان کو ختم کردوں ۔ بی بی سی کے مطابق: "وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب کے بعد چوہدری اعتزاز احسن نے پارلیمان کے مشترکہ ایوان سے خطاب کے دوران حکومتی بینچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دو بار پہلے آپ کا یہی انجام ہو چکا ہے جسے ہم روک کر بیٹھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں اس وقت ایوان سے واک آؤٹ کروں تو تمام حزبِ اختلاف میرے ساتھ واک آؤٹ کرے گا، صرف شاید محمود اچکزئی رہ جائیں! انھوں نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب دھرنوں کا آغاز ہوا تھا تو آپ کے وزیروں کے چہروں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر آسمان ٹوٹنے والا ہو۔ لیکن اب وہ عمران خان اور قادری کی نقلیں اتارتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سب ایوان کی طاقت ہے، اور پارلیمنٹ آپ کے پیچھے کھڑی ہے۔"

میرے خیا ل میں وزیر ِ اعظم کی پارلیمنٹ میں معذرت کے بعد اعتزاز احسن کو اتنی سخت زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی ۔کیوں کہ وہ سخت تنقید کے بغیر بھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دے سکتے تھے ۔ لیکن انھوں نے "محفوظ " کے بجائے "غیر محفوظ" طریقہ اختیا ر کیا ۔ دوسرے دن یعنی ہفتے کو وزیر ِ داخلہ نے اپنی زندگی کی مختصر ترین کانفرنس کے دوران اعتزاز احسن کو "در گزر" کر دیا ۔ لیکن وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ قوم کے سامنے سچ آنا چاہیے ۔ چوہدری نثار نے اس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ اگر ان پر لگائے گئے الزامات سچ ثابت ہوگئے تو وہ وزارت سے ہی کیا ،سیاست سے ہی استعفیٰ دے دیں گے ۔ وزیر ِ داخلہ کے مصالحانہ کانفرنس کے جواب میں اعتزاز احسن نے بھی بڑا حوصلہ افز ا جواب دیا ۔ یوں مصالحت کام آگئی ۔ اور آپس کی دوریاں ایک بار پھر ختم ہوگئیں ۔

پاکستان کی نازک سیاسی صورت حال کو مد ِنظر رکھتے ہوئے ہمارے سیاست دانوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ کیوں کہ ہمارا پیار ا ملک ان دنوں "مشتعل سیاست" کا متحمل نہیں ہے ۔ میرے خیال میں اب احتجاج کرنے والوں اور حکومت کے درمیان مصالحت ہو جانی چاہئے ۔ خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ اسلام آباد کے احتجاج کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ سیاست میں مصالحت اہم چیز ہے ۔ حکومت کو "کچھ ان کی مانو کچھ اپنی مانو" کی پالیسی اپنانی چاہیے ۔ تاکہ مزید انتشار نہ پھیلے ۔ کیوں کہ ہمارا پیار ملک کسی صورت ۔۔۔کسی صورت انتشار کا متحمل نہیں ہے ۔
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159287 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More