صہیونی درندگی اور حماس کی تاریخ
ساز مزاحمت
اسرائیل نے حماس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عجب کشمکش میں مبتلا ہوں کہ غزہ میں اسرائیل نے جو کچھ کیا،اُسے کیا نام
دیا جائے،صہیونی ظلم وبربریت کہا جائے،محصورفلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا
جائے،حقوق انسانی کی توہین وتذلیل کہا جائے،بین الاقوامی اصولوں کی خلاف
ورزی کہا جائے،مہذب دنیا کی بے حسی، چشم پوشی یا سنگدلی مانا جائے،عالم
اسلام کی کمزوری کہا جائے یا پھراُمت مسلمہ کی بے بسی سے تعبیر کیا
جائے۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ اِس المناک سانحے کی بے شمار جہتیں اور لاتعداد
زوایئے ہونے کے باوجود یہودی بغض وعداوت،نفرت وعناداور دین اسلام سے رنجش و
کدورت کے جذبے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔دوہرے معیار اور دوغلے کردارکے
کریہہ اور مکروہ جال میں جکڑی ہوئی پوری غیر مسلم دنیا اور منافقانہ و
غلامانہ کردار کی حامل مسلم قیادتوں کی خاموش رضا مندی میں امریکی آشیرباد
اور اقوام متحدہ کی معاونت کے ساتھ صلیبیوں کی ناجائز اولاد اسرائیل غزہ
میں خوں آشام کھیل کھیلنے میں مصروف رہا،غزہ میں8جولائی سے جاری اسرائیلی
حملوں میں کم وپیش 2500 سے زائد فلسطینی شہید اورنوہزار سے زائد زخمی
ہوئے،شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد کم عمر بچوں کی تھی۔اسرائیلی حملوں
نے غزہ کی آبادی کو راکھ کا ڈھیر بنادیا،مساجد،ہسپتال،اسکولز، پولیس
اسٹیشن،سرکاری دفاتر،صنعتی ادارے،ہوٹل اور مارکیٹیں اسرائیلی بمباری سے
تباہی وبربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں،ایک تہائی غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا
ہے،اِس جنگ کے دوران غزہ میں ایک قیامت ِصغریٰ برپا رہی،گلیاں اور بازار
لاشوں سے اَٹے نظر آئے اور تدفین کیلئے قبرستان تنگ پڑگئے۔
مگر ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے پر محیط اِس جنگ میں اسرائیل دنیا کی سب سے بڑی
اوپن جیل غزہ کے محصور باشندوں کی ہمت وحوصلے اور جذبہ ایمانی کو فتح کرنے
اور حماس کو قابل ذکر نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکااور بالآخر قاہرہ
میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے طویل المدتی معاہدے ”غزہ میں
آمدورفت کے راستے کھولنے،فشنگ زون غزہ کے ساحل تک بڑھانے،مصر اور غزہ کے
درمیان سرحد کھولنے اور غزہ کی تعمیر نو سمیت دیگر تصفیہ طلب معاملات
مزاکرات سے حل کرنے“ پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے اُس نے حماس کے آگے گھٹنے
ٹیک دیئے۔مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے
اسرائیل کے ساتھ مستقل جنگ بندی معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ
معاہدہ فلسطینی قوم کی امنگوں اور شرائط کے عین مطابق کیا گیا ہے، جنگ بندی
کا معاہدہ فلسطینی قوم کی فتح اور نصرت کی علامت ہے،حماس کے ترجمان کا کہنا
تھا کہ ہم نے غزہ کی پٹی میں حملہ آور دشمن فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
کردیا اورجنگ بندی معاہدے کی کامیابی فقط غزہ کی راہ _داریوں کے کھولنے
جانے تک محدود نہیں بلکہ یہ جنگ بندی بیت القدس اور ارض فلسطین کی آزادی کی
بھی راہ ہموار کرے گی،ترجمان نے کہا کہ ہم نے اسرائیلی جارحیت کا جواب بھی
طاقت سے دیا اور پوری قوت کے ساتھ جنگ بندی معاہدے میں اپنی شرائط بھی
تسلیم کرائی ہیں،اِس معاہدے کے بعد ہم بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے زیادہ
قریب ہوگئے ہیں۔حماس کے سیاسی رہنماءموسیٰ ابو مرزوق نے معاہدے کو مزاحمت
کی فتح قرار دیا جبکہ اِس شرمناک ہزیمت پر اسرائیل کی جانب سے تاحال کوئی
بیان سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوجی ترجمان نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیاکہ انھوں نے
اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرلیے،لیکن حماس کے ترجمان کہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ
میں 100فیصد ناکام رہاہے۔حماس کے دعوئے کی تصدیق اسرائیلی وزیرانصاف زیپی
لیونی کے اُس اعترافی بیان سے ہوتی ہے جس میں دوران جارحیت اعتراف کیا گیا
کہ اسرائیل کوسنگین حالات اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا
کرنا پڑا ،اسی طرح اسرائیلی وزیر سیاحت عوزی لانڈو کہتے ہیں کہ اسرائیلی
فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور ہم غزہ کی پٹی میں ایک
اسٹرٹیجک معرکہ میں ہار چکے ہیں۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ
پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کا زور توڑنے میں کامیاب
نہیں ہو سکا،بلکہ اِس جارحیت میں اُس کو بھاری بھرکم جنگی اخراجات اور
معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔رہا جنگی کامیابی کا معاملہ تو اِس حوالے سے
خود اسرائیلی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے اعتراف کیاکہ اگر اُن کی پیادہ
اور آرمڈ انفنٹری کو اسرائیلی فضائیہ کے ایف سولہ،ایف پندرہ طیاروں سمیت
ہیل فائر میزائلوں سے لیس جاسوسی طیاروں کا کور حاصل نہ ہوتا تو وہ غزہ میں
ایک ملی میٹر بھی اندرجانے کی جرات نہ کرتے۔ایک اور فوجی عہدیدار کے بقول
اگرہمیں فضائی مدد حاصل نہ ہوتی تو غزہ سے ہمارا ایک بھی فوجی زندہ سلامت
واپس نہ آتا۔اسرائیل کی مشہور متعدد ویب” پورٹلز“ نے اسرائیلی فوجی افسر کا
یہ بیان جلی سرخیوں میں شائع کیاکہ پیادہ اسرائیلی فوج کے غزہ میں داخلے سے
پہلے ایف سولہ اور ایف پندرہ طیاروں نے ڈھائی سو کلو گرام سے لے کر ایک اور
ڈیڑھ ٹن وزنی بم برساکر غزہ کی عمارتیں تباہ کیں،یہ عمارتیں اسرائیل اور
غزہ سرحد پر واقع تھیں۔اخباری رپورٹ کے مطابق غزہ پر 20 ہزار ٹن بارود کی
بارش کی گئی مگر اتنے بڑے پیمانے پر بمباری کے بعد بھی پیدل فوج کے سورماﺅں
نے اِس خوف سے غزہ کے علاقے میں پیش قدمی نہیں کی کہ کسی زیر زمین سرنگ سے”
القسام بریگیڈ “کاکوئی مجاہد نکل کر انہیں ہلاک نہ کر دے،انہیں مسلح
فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے بچھائی جانے والی سرنگوں کی موجودگی کا
اِس قدر خوف تھا کہ کہ اسرائیلی ٹینک تین میٹر کا فاصلہ تین تین گھنٹوں میں
طے کرتے تھے۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا نے بھی غزہ میں فوجی ناکامی کو آڑے ہاتھوں
لیااور سوال اٹھایا کہ آخر اسرائیلی انٹیلی جنس حماس جنگجوو_ں کے الاقصیٰ
اور عزالقسام بریگیڈ کی عسکری مہارت اور جنگی حکمت عملی کا درست اندازہ
لگانے میں کیوں ناکام رہی؟ ٹائمز آف اسرائیل کے عسکری نامہ نگار ایوی شاو_ل
کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس جنگی حکمت عملی بنانے میں
ناکام رہیں اور اُن کا مرکزی ہدف عوامی مارکیٹیں، گھر، مساجد اور تعلیمی
ادارے تھے،جہاں حماس کے جنگجوو_ں کے بجائے عام فلسطینی نشانہ بنے۔اسرائیلی
جریدے یروشلم پوسٹ کے مطابق حماس کے اعلیٰ کمانڈرز اور رہنماو_ں کو قتل
کرنے کیلئے بنائی جانے والی ٹاسک فورس ایک بھی حماس رکن یا کمانڈر کو
گرفتار یا ہلاک کرنے میں ناکام رہی۔صہیونی دفاعی تجزیہ نگار پروفیسراوری
یار یوسف نے حماس کے مقابلے میں اپنے ملک کی جنگی صلاحیت پر شبہات کا اظہار
کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ڈر تھا کہ غزہ میں آپریشن میں حماس کے ہاتھوں
صہیونی فوج کو بدترین شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے،کیونکہ فوج زمینی کارروائی
کی متحمل نہیں تھی۔اسرائیلی اخباریدیعوت احرونوت میں شائع ہونے والے تجزیہ
میں بتایاگیاکہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر
ہوئی اور فوج کا رعب کم ہوا ہے،ہماری فوج نہ صرف حماس کو شکست دینے میں
ناکام رہی ہے بلکہ ہمیں تو یہ خوف تھا کہ حماس کے خلاف جنگ میں ہماری فوج
تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔
اسی طرح دفاعی تجزیہ نگار وںنے جہاں اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں
کمزوری کا اعتراف کیا،وہیں فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس کی عسکری صلاحیت
کو بھی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اِس طویل جنگ کے بعد یہ بات مان لینی
چاہیے کہ ہماری فوج حماس کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اِس میں کوئی
شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دفاعی اور فوجی صلاحیت کے بارے میں جو
خیالات اِس سے پہلے ظاہر کیے جاتے رہے ہیں وہ سب غلط تھے۔حماس کے مقابلے
میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ
حماس نے اپنے معمولی ہتھیاروں کی مدد سے ہمارے تمام شہروں کو ہلا کر رکھ
دیا اورہمارے فوجی اور عام شہریوں کو راکٹ حملوں کے ذریعے کامیابی سے نشانہ
بنایا۔حماس کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ اُس نے مقامی سطح پر ایسے راکٹ
تیار کرلیے ہیں جو اسرائیل کے تمام شہروں تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔حالیہ آپریشن میں اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حماس
کی آپریشنل صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا گیا، کمانڈ سنٹرز کو تباہ
کیاگیا،حماس نے اسرائیل میں حملے کرنے کیلئے جو سرنگیں بنائی گئی
تھیں،انھیں تباہ کردیاگیا اور حماس کے سینکڑوں جنگجوﺅں کو ہلاک کردیاگیا۔
یہ بھی کہاگیا کہ حماس کا راکٹوں کا ذخیرہ بھی ختم کردیاگیاہے۔
لیکن غزہ کی پٹی سے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں نے یہ ثابت کردیا کہ اسرائیل
کی ڈیڑھ ماہ کی مسلسل بمباری کے باوجود فلسطینی مزاحمت کار پرعزم رہے اور
مزاحمت کاروں کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے اور اُن کی کمر توڑنے کے اسرائیلی
دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے۔اسرائیل سمیت دنیا بھر کیلئے یہ اَمر بھی باعث
حیرت رہا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیلی فوج کے حملوں کا ذرا بھر خوف
نہیں تھا،وہ پوری آزادی اور بے باکی کے ساتھ اسرائیلی کالونیوں پر راکٹ
حملے کرکے یہ ثابت کرتے رہے کہ فلسطینی مزاحمتی طاقت اب بھی مضبوط ہے۔اس
حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ حماس کو غیرمسلح کرنا
ابھی بہت دور کی بات ہے اور فی الحال اسرائیل کے عقابوں کو مصالحت کی ضرورت
کو تسلیم کرناہوگا۔ہفنگٹن پوسٹ کا بھی ماننا تھاکہ اسرائیل غزہ میں لڑائی
ہارگیاہے،اخبار کے مطابق یہ شکست اُسی وقت ہوگئی تھی جب اسرائیل کے پہلے
میزائل یا گولے نے ایک گھرکوتباہ کیا اور بہت سی خواتین اور بچوں کو ہلاک
کردیا،ایک اسرائیلی صحافی عامرہ ہاس کہتی ہے کہ”اسرائیل کی اخلاقی شکست
برسوں تک اُس کا پیچھاکرتی رہے گی۔“
دوسری جانب وقت غزہ پر ہونے والی وحشیانہ جارحیت کے مستقبل کے حوالے سے
اسرائیلی فوج اور حکومت میں بھی واضح تقسیم نظرآ رہی ہے، اسرائیلی وزیراعظم
بنیامن نیتن یاھو کی انتہا پسند کابینہ کی خواہش تھی کہ غزہ کی پٹی پر
مستقل قبضہ کر لیا جائے اور علاقے کے تمام اہم مقامات پر فوج تعینات کر دی
جائے،لیکن فوج نے کابینہ کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ اتنا آسان
نہیں جتنا حکومت نے سوچ رکھا ہے،رپورٹ کے مطابق محکمہ دفاع، فوج اور دیگر
سیکیورٹی اداروں کی جانب سے غزہ پر مستقل قبضے کے مضمرات کے حوالے حکومت کو
بتایا گیا کہ غزہ کی پٹی پرایک مرتبہ پھرسے قبضہ نہایت مشکل اور اسرائیل
کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا، کیونکہ غزہ کے تمام مقامات تک فوج کا کنٹرول قائم
کرنے کیلئے پانچ سال کا عرصہ لگے گا،اِس عرصے میں اسرائیلی فوج کو کم سے کم
20 ہزار فلسطینی گوریلا جنگجووں کو ختم کرنا ہوگا اورنتیجے میں اسرائیل کو
اپنے ہزاروں فوجیوں اور سویلینز کی قربانی بھی دینا ہوگی۔
اِن رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ سینکڑوں اسرائیلی فوجی بھی اغواءکیے
جاسکتے ہیں،ساتھ ہی فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں میں غیرمعمولی اضافہ اسرائیل
کو عالمی برادری میں مزیدتنہا کردے گا،صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کو غزہ کی
پٹی میں دھماکہ خیز مواد تلف کرنے اور بارودی سرنگوں اور زمین دوز بنکروں
کے خاتمے میں بھی بھاری قیمت چکانا ہوگی اوراگر فلسطینیوں نے اسرائیل کے
خلاف مسلح بغاوت شروع کردی تو اُس کے نتیجے میں فلسطین کے چپے چپے پرآباد
کیے گئے یہودی آباد کاروں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی،اِس لیے حکومت غزہ
کی پٹی کے تمام علاقوں میں فوج داخل کرنا اور مستقل قبضہ چاہتی ہے تو اُسے
یہ تمام حالات سامنے رکھنا ہوں گے۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ سیکیورٹی
اداروں کی حقائق پر مبنی رپورٹس کے بعد صہیونی کابینہ خوف کا شکار ہوکر اِس
مخمصے میں مبتلا رہی کہ آیا وہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ
کرے اور یوں کابینہ میں دیکھاجانے والامستقل قبضہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ
گیا،اَمر واقعہ یہ ہے کہ جنگ کے دوران دنیا نے غزہ کی تباہی کی جو تصویر
دیکھی،وہ اسرائیلی فوجی شکست اور بہادر فلسطینی مزاحمت کاروں کی کامیابی کے
ساتھ غزہ کے زندہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ |