پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں.... ہنگامی حالت نافذ
(عابد محمود عزام, karachi)
مون سون بارشوں کے بعد پنجاب میں دریائے
چناب، جہلم اور راوی میں سیلابی کیفیت برقرار ہے، جبکہ سیلابی ریلے آبادیوں
اور کھڑی فصلوں کو تباہ کرتے ہوئے آگے کی جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ پنجاب میں حالیہ بارشوں کے بعد دریا اور ندی نالے بپھرے ہوئے ہیں اور
سیلابی پانی اپنے سامنے ہر چیز کو تاراج کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، جس کے
نتیجے میں سیکڑوں دیہات زیر آب ہیں اور مزید ہزاروں کو نقصان پہنچنے کا
اندیشہ ہے۔ بارشیں شروع ہونے کے بعد سے چند روز میں تقریباً دو سو افراد
بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور سیکڑوں
زخمی ہوئے۔ ان کے علاوہ حالیہ صورتحال کی وجہ سے پنجاب اور کشمیر میں
ہزاروں مکانات کو مکمل اور جزوی نقصان بھی ہوا ہے۔ دریائے چناب میں ہیڈ
قادر آباد کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، جہاں پانی کی آمد 8
لاکھ 91 ہزار کیوسک اور اخراج 8 لاکھ 90 ہزار کیوسک ہے، ہیڈ خانکی پر 9
لاکھ 47 ہزار کیوسک کا ریلا گزرا۔ خوشاب اور سرگودھا کے 300 سے زاید دیہات
دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سیلابی
ریلے سے وزیرآباد، سودھرا، حافظ آباد، پھالیہ اور منڈی بہاو الدین کے
سیکڑوں دیہات متاثر ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ امداد کے منتظر ہیں۔ اکھنور
سے بڑا ریلا پہنچنے کے بعد ہیڈ مرالہ پر پانی کی بلند ترین سطح کا 22 سالہ
ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ پانی کی مقدار 9 لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا امکان ہے۔ شدید
سیلاب کے باعث سیالکوٹ کے مزید کئی علاقے زیرآب آگئے۔ پھالیہ، سیدا شریف
اور قادر آباد بیلہ کے قریب دریائے چناب کا حفاظتی بند دو جگہ سے ٹوٹ گیا،
سیلابی پانی قادر آباد شہر سمیت 40 دیہات میں داخل ہوگیا۔ حافظ آباد میں
بھی سیلابی پانی 70 سے زاید دیہات میں داخل ہوگیا ہے، ہیڈ تریموں سے 6 لاکھ
کیوسک کا سیلابی ریلا پیر کی شام گزرے گا، جس کے باعث ملتان اور صادق آباد
میں بھی فلڈ وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ ملتان کے قریب بستی امروٹھ لنگڑیال
اور ملانا میں زمینی کٹاؤ بھی شروع ہوگیا ہے، نارووال اور ظفر وال میں نالہ
ڈیک نے بھی تباہی مچادی۔ حفاظتی بند ٹوٹنے سے 40 سے زاید دیہات زیر آب آ
گئے، پسرور میں بھی بند ٹوٹنے سے پانی کئی آبادیوں میں داخل ہوگیا، شکر گڑھ
میں نالہ بھئیں میں بھی طغیانی کے باعث پانچ دیہات سیلاب کی زد میں آگئے،
شیخوپورہ میں نالہ ڈیک اور نالہ بھیڈ کا پانی درجنوں آبادیوں میں داخل
ہوگیا، ننکانہ صاحب میں بھی دس دیہات زیرآب آگئے۔ دریائے جہلم میں بھی
انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، پنڈ دادنخان میں دریائے جہلم کے کنارے
واقع دیہات بھی سیلاب کی زد میں آگئے ہیں، لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ
جاری ہے، 40 ہزار سے زاید ایکڑ رقبے پر فصلیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔ دریائے
ستلج بھی بپھرا ہوا ہے، پانی کی سطح میں مسلسل اضافے کے باعث قصور، پاکپتن
اور وہاڑی کے درجنوں دیہات کو خالی کرا لیا گیا ہے، دریائے راوی میں ہیڈ
بلوکی کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ اوکاڑہ کے 46 دیہات میں وارننگ
جاری کردی گئی ہے، ساہیوال، چیچہ وطنی اور دیگر علاقوں میں بھی فلڈ وارننگ
جاری کی گئی ہے۔ دریائے راوی میں بلوکی اور جسڑ کے مقام پر درمیانے درجے،
جبکہ شاہدرہ کے مقام پرنچلے درجے کا سیلاب ہے۔ فلڈ فور کاسٹ ڈویژن کے مطابق
شاہدرہ کے مقام پر 65 کیوسک کا ریلا گزا ہے۔
محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ سیلابی ریلوں کی وجہ سے 13
اور 14 ستمبر کے قریب گڈو بیراج میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہو گا۔ اس
کے علاوہ 14 سے 15 ستمبر کے قریب سکھر بیراج کے قریب بھی یہی صورت حال ہو
گی۔ محکمہ موسمیات نے تمام متعلقہ حکام کو درخواست کی ہے کہ انسانی جانوں
اور املاک کو بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر لیں۔ حالیہ پریشان کن
صورتحال میں حکومت اور فوج کی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ آئی ایس پی آر کے
مطابق ریلیف آپریشن سیالکوٹ، منڈی بہاﺅالدین، گوجرانوالہ، چھپرار، بھاجوات
اور قادر آباد کے علاقوں میں کیا جا رہا ہے اور ریلیف آپریشن میں 300
کشتیاں اور 5 ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ آپریشن کے دوران اب تک
3000 سے زاید افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے اور کسی بھی
ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں بھی پاک فوج
کے دستے الرٹ ہیں۔ جبکہ اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف نے سیلاب سے
متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور فضائی جائزہ لیا اور کہا کہ دھرنا دینے والے
سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو
دورے کے دوران سیالکوٹ، نارووال اور سمبڑیال میں ہونے والے نقصانات پر
بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں
میں موبائل فلٹریشن پلانٹس بھجوانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب سے
متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن مزید تیز کیا جائے اور عوام کی
جان ومال کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ متاثرہ علاقوں
سے لوگوں کے انخلا کے لیے ہیلی کاپٹرز اور کشتیوں کا استعمال کیا جائے۔
تمام متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کریں، کوتاہی برداشت
نہیں کی جائے گی۔ دوسری جانب متعدد سیاستدانوں اور علمائے کرام نے پوری قوم
سے اپیل کی ہے کہ اپنے تمام اختلافات بھلا کر اہل ثروت حضرات بارش متاثرین
کی مدد کریں۔ جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ بارشوں سے ہونے والا مالی اور جانی
نقصان انتہائی افسوس ناک ہے۔ تمام سیاستدانوں کو اس سلسلے میں ہر قسم کے
ذاتی اور سیاسی اختلافات بھلا کر متاثرین کی مدد کے لیے حکومت کا ساتھ دینا
چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری کو چاہیے کہ دھرنے کے لوگوں کے لیے
سامان اکٹھا کرنے کی اپیل کرنے کی بجائے سیلاب میں پھنسے افراد کی مدد کے
لیے اپیل کریں اور اس موقع پر محب وطن سیاستدان ہونے کا ثبوت فراہم کرتے
ہوئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جا کر ڈیرے لگائیں۔ متاثرین کے زخموں پر
مرہم رکھیں اور نکاسی آب کے لیے انتظامی افراد کے ساتھ اپنے کارکنان کی مدد
سے کام کریں اور ان کے علاوہ بھی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور پوری قوم
کو چاہیے کہ دل کھول کر سیلاب سے متاثرہ اپنے بھائیوں کے لیے اس مشکل گھڑی
میں مدد کریں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بارش اور سیلاب کی تباہ
کاریاں اہل وطن کے لیے نئی بات نہیں ہیں۔ ہر سال بارشوں اور سیلابوں میں ان
گنت لوگ، شہری و دیہی علاقے تباہی کی نذر ہو جاتے ہیں، مکانات منہدم، کھڑی
فصلیں برباد اور لاکھوں ہم وطن بے گھر ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بارشوں کے
بعد سیلابی ریلوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے والے اقدامات و انتظامات
اور اس سے پیدا شدہ مکمل انتظامی ناکامی سے متعلقہ حکومتی محکموں، ریاستی
اداروں، فلڈ ریلیف کمیشن، ماحولیاتی ایجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کرتا
دھرتاؤں کے ضمیر میں کوئی خلش تک پیدا نہیں ہوتی، جب کہ محکمہ موسمیات کی
یومیہ پیش گوئیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کو
خبردار کرنا ہوتا ہے، مگر مون سون کی بارشوں کے تاریخی ریکارڈ کے مطابق
پاکستان میں بارشیں اکثر باعث زحمت قرار دی گئیں۔ نہ فصلوں کے حیات نو اور
زراعت کی بالیدگی کے لیے رین ایمرجنسی کام آئی، نہ سبزے، مویشیوں کے چارے،
اجناس، پھل، پھول اور سبزیوں کی کاشت کے لیے فطرت کی فراخدلی اور برستے
پانی سے استفادے کا کوئی مستقل میکنزم بنایا گیا۔ ڈیموں کی تعمیر سیاست زدہ
ہو گئی، نہ ٹریفک اور مواصلات کا نظام معطل ہونے کی مضحکہ خیز صورتحال کو
کنٹرول کیا گیا، نہ سیوریج، ڈرین سسٹم، برساتی نالوں کی بروقت صفائی اور
نکاسی آب کی جدید خطوط پر ڈیزائننگ پر توجہ دی گئی۔ اگر ماسٹر پلان بنائے
جائیں تو کہیں بھی سڑکیں تالاب اور نشیبی علاقے جھیلوں کا منظر پیش کرتے
دکھائی نہ دیں۔ یہ کام گڈ گورننس ہو تبھی انجام پاتے ہیں۔ ساری دنیا میں
بارشیں بھی آتی ہیں اور سیلاب بھی آتے ہیں، لیکن کہیں یوں تباہی نہیں مچتی
جیسے پاکستان میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں پہلے سے ہی
تمام حفاظتی انتظامات مکمل کر لیے جاتے ہیں، لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی
نرالا ہے، ہر سال ملک میں خشک سالی کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمینیں بنجر
ہوجاتی ہیں، لیکن جب پانی جیسی نعمت بارشوں کی صورت میں انہیں ملتی ہے تو
نااہلی کی وجہ سے اس نعمت سے فائدہ ہی نہیں اٹھاسکتے۔ حالانکہ ڈیم بنا کر
اسی پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر محفوظ کر کے پورے سال کے لیے استعمال کر
کے فصلوں کو پانی کی کمی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اور ڈیم کی وجہ
سے سیلابوں کے ہر سال ہونے والے نقصانات کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے۔ یہ معلوم
ہے کہ ہر سال بھارت انہی دنوں میں پانی چھوڑتا ہے اور عرصے سے چھوڑ رہا ہے،
اس کے باوجود ہم لوگ ابھی تک اس حوالے سے پانی کی اس نعمت کو محفوظ کر کے
اپنے استعمال میں لانے کا کوئی حل نہیں نکال سکے۔ کالا باغ ڈیم ایک عرصے سے
صرف سیاست کی بھینٹ چڑھ کر تعمیر نہیں ہوپایا، حالانکہ اس کی تعمیر کی وجہ
سے ہر سال آنے والے سیلابوں سے ہونے والے نقصانات سے چھٹکارہ پایا جاسکتا
ہے۔ ہمارے سیاست دان دوسرے کئی ایشوز پر تو پارلیمنٹ میں مشترکہ اجلاس
بلاتے ہیں، لیکن ہر سال بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہ کاریوں اور
پانی کو محفوظ کر کے استعمال میں لانے کے طریقوں کے حوالے سے کوئی مشترکہ
اجلاس نہیں بلایا گیا۔ حالانکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ |
|