قدرت کا انتقام ۔ ۔ ۔

ایک بنیادی اصول ہے کہ جرم کی سزا مل کر رہتی ہے اور غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر جب غلطیاں تواتر سے کی جائیں اور اس جرم کا احساس بھی جاتا رہے تو انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے۔

میں کوئی بے حس اور سنگدل انسان نہیں بس اتنا ہے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کا عادی ہوں۔ موجودہ بارشیں اور بھارت کا ہمارے دریاؤں میں اضافی پانی چھوڑنا قیامتِ صغرٰی کا منظر پیش کر ریا ہے اور حکمران سمیت متاثرین اس کو قدرتی آفت قرار دیکر مختلف قسم کے آنسو بہا رہے ہیں۔

پاکستان کے اس منظر نامہ کا ایک رخ یہ ہے کہ بارش نے شہروں کو دریا میں تبدیل کر دیا ہے، گھروں کی چھتیں ڈھا دی ہیں، بجلی کے تار گرا دئے ہیں ۔۔۔۔۔ دریاؤں نے بند توڑ کر زمینوں کو زیرِ آب کردیا ہے، کچے مکان بہہ گئے اور بہت سے ڈھے گئے ہیں ۔۔۔۔۔ اس سب سے انسان اور مویشی مر رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں، فصلوں اور املاک کا نقصان ہو رہا ہے، لوگ بے گھر، کھانے پینے سے محروم کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں ۔۔۔۔۔ یہی لوگ جب مدد کے لئے دہائی دیتے اور اپنے حکمرانوں کی بےحسی اور زبانی جمع خرچ پہ کرب میں نظر آتے ہیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن پھر میں اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتا ہوں۔

اس منظر نامہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ملک میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے انتظامات مکمل ہوتے ہیں لیکن اس کی تعمیر کی ابتدا میں ہی ان ہی مظلوموں کے منتخب کردہ رہنما اور قائدین مبینہ طور پر ملک دشمن طاقتوں کی ایما پر اس کی تعمیر رکوانے کے لئے خم ٹھونک کر میدانِ عمل میں آجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ بھارت ہمارے دریاؤں پہ کئی ڈیمز کی تعمیر شروع کرتا ہے اور اس معاملہ پر مجرمانہ غفلت برتی جاتی ہے۔ یہی دہائی دیتی عوام اس وقت بےحسی اختیار کرتے ہوئے معاملہ اپنے لیڈروں اور سرکاری اہلکاروں پہ چھوڑ کر سکون کی نیند سوئی رہتی ہے ۔۔۔۔۔ پیسے کی چمک ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی نظریں چندھیا دیتی ہے اور دنیا کی ساتویں اور آبادی کے لحاظ سے چوتھی بڑی ایٹمی طاقت پاکستان اپنے حق کے پانی کے لئے کسی سطح پر یہ مقدمہ نہیں لڑتا ۔۔۔۔۔ بھارت کامیابی سے ان ڈیمز کی تعمیر مکمل کرکے خشک موسم میں پانی روک کر اپنی زمینیں سیراب اور ہماری زمینوں کو بنجر کرتا ہے اور مون سون میں شدید بارشوں میں اضافی پانی ہمارے دریاؤں میں بہا کر خود کو سیلاب سے بچا کر ہمیں سیلاب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی منظر نامہ میں مجھے حکومتی عہدے داروں کی پشت پناہی میں دریاؤں اور نہروں کے کناروں پہ لگے درخت کٹتے نظر آتے ہیں اور ایک مافیا سرکاری اہلکاروں سے ملکر دریاؤں اور نہروں کے کناروں سے مٹی اور ریت اٹھاتا نظر آتا ہے اور یہی مظلوم عوام یا تو خاموش تماشائی بنی یا شریک عمل نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔ مجھے شہروں میں کچھ لوگ سرکاری اہل کاروں اور حکومتی عہدے داروں کی مدد سے برساتی نالوں پر تجاوزات قائم کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ہر جگہ سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے غیر معیاری عمارتیں اور پل بھی بنے نظر آتے ہیں بلڈنگ کنٹرول اور اسی قسم کی اٹھاریٹیز کی موجودگی کے باوجود مخدوش عمارتیں اور ان میں رہتے لوگ بھی نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔ بڑے بڑے بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے پاس نااہل عملہ اور تمام تر وسائل ہونے کے باوجود جابجا خطرناک طریقے سے لٹکے تار بھی نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان سب پر معاشرے کی لاپرواہی، لاتعلقی اور بےحسی بھی نظر آتی ہے۔

یہ دوسرا منظر میرے اندر سے پہلے منظر سے پیدا ہونے والے غم‘ افسوس اور ہمدردی کے جذبات کو دھو ڈالتا ہے ۔۔۔۔۔ میرا دل پوری ایمان داری سے کہتا ہے کہ ہم متاثرین اسی کے مستحق ہیں ۔۔۔۔۔ یہ قدرتی آفات دراصل اللہ کا عذاب ہیں ۔۔۔۔۔ یہ وہ مصیبتیں ہیں جو ہم ہر بار اپنا ووٹ بیچ کر کھلی آنکھوں سے خوشدلی کے ساتھ خریدتے اور اس پر صابر و شاکر رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ آج ہمیں اس مصیبت نے جن قبروں میں پہنچایا ہے وہ کل ہم نے اپنے عمل اور بےحسی سے خود کھودی تھیں۔

ایک بات یاد رکھیں اگر آپ جان کر یا غلطی سے اپنے سر پہ پتھر اچھالیں گے تو وہ پلٹ کر آپ کے ہی سر پہ گرے گا بشرطیکہ آپ اس کا ادراک کرکے اسے روک نہ لیں یا اس کے راستہ سے خود کو الگ کرلیں۔ اگر آپ اپنی اس حرکت کے بعد اڑے رہے تو نقصان پتھر کا نہیں آپ کے سر کا ہی ہوگا۔

قدرت غلطی کو معاف نہیں کرتی وہ کچھ موقعہ دے سکتی ہے اگر اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر آپ نے اپنی اصلاح کرلی تو ٹھیک ورنہ آپ اس کا خمیازہ بھگتنے سے بچ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔ تو وہ لوگ جو مسلسل اپنے سروں پر خود ہی پتھر اچھال رہے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ مظلوم کیسے ۔۔۔۔۔ ان سے ہمدردی کیسی !!!

بے حسی میں گم
رہتے ہو اس نظام میں
مظلوم نہیں تم
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 53 Articles with 40688 views https://www.facebook.com/pages/BazmeRiaz/661579963854895
انسان کی تحریر اس کی پہچان ہوتی ہےاس لِنک کو وزٹ کرکے بھی آپ مجھ کو جان سکتے ہیں۔ویسےکراچی
.. View More