کیسا انقلاب؟
(عابد محمود عزام, karachi)
گزشتہ کچھ ہی عرصے میں پاکستانی
قوم نے ”انقلاب“ کا لفظ اتنی بار سنا کہ اب تو سوتے میں خواب میں بھی
انقلاب ہی آتا ہے اور سناٹے و خامشی میں بھی کانوں میں انقلاب انقلاب کی
گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ہر روز کئی کئی بار انقلاب آنے کی خوشخبری قوم کو
یوں سنائی جاتی ہے، جیسے گرمیوں میں چار پانچ گھنٹوں کے بعد لائٹ آنے کی
خوشخبری سنائی جاتی ہو۔ ہزاروں بار انقلاب کا لفظ سن کر لگتا ہے کہ انقلاب
کے خوف سے ہر سماجی برائی اپنی موت آپ مر جائے گی اور دھرتی پر نفرت کی
بجائے محبت اور ظلم و بربریت کی بجائے امن و سکون اور انصاف کا راج ہوگا۔
غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور ملک کا ہر شہری دولت میں کھیلے گا۔ یوں تو
انسانی زندگی ازل سے مسلسل انقلابات کی زد میں ہے اور دنیا میں ان گنت
انقلابات رونما بھی ہو چکے ہیں، لیکن یہ ”انقلاب میاں“ ہیں کیا، یہ بات
شاید ”انقلابی قوم“ کو معلوم نہ ہو۔ لہٰذا اس حوالے سے اگر کچھ بات ہوجائے
تو بہتر ہے۔ انقلاب کا لفظ انگریزی کے لفظ "Revolution" اور عربی کے لفظ
”ثورہ“ کے ہم معنیٰ ہے۔ لغت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونے،
تہہ و بالا ہونے اور پلٹنے کو انقلاب کہا جاتاہے۔ محققین کے مطابق شروع میں
ستاروں کی حرکت کو انقلاب کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں رفتہ رفتہ مروجہ
اصطلاح کے لیے استعمال ہونے لگا۔ موجودہ دور میں حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں
ہونے والی بنیادی تبدیلی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر انقلاب کسی
تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتاہے اور اس خواہش کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:1۔
انسان فطری طور پر تبدیلی کا دلدادہ ہے، چنانچہ وہ ایک مدت کے بعدکسی بھی
مروجہ نظام سے اکتا کر اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے، 2۔ کوئی بھی مروّجہ نظام
جب انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو
انسان اس کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کی فکر کرنے لگتاہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں قدیم یونانی مفکر بابائے سیاست ارسطو کی کتاب ”سیا
ست“ دنیا بھر میں سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک آدرش کا درجہ رکھتی
ہے۔384 قبل مسیح میں پیدا ہونے والا ارسطو یونان کا وہ ممتاز فلسفی، مفکر
اور ماہر منطق تھا، جس نے افلاطون جیسے استاد کی صحبت پائی اور سکندر اعظم
جیسے شاگرد سے دنیا کو متعارف کروایا۔ 18 سال کی عمر میں اس وقت علم و حکمت
کے مرکز ایتھنز چلا آیا۔ یہاں 37 سال کی عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ
رہا۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے اپنے مدینہ الحکمت کی بنیاد ڈالی، جہاں اس
نے نظری و کلاسیکی طریقہ علم کی بجائے عملی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔
ارسطو پہلا عالم تھا جس نے سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔
لہٰذا سیاست کے پہلے عالم ارسطو کے نزدیک انقلاب کے دو معنی ہیں: 1۔ ریاست
کے مروّجہ آئین میں تبدیلی،2 ۔اقتدار کی منتقلی۔ اسی طرح ارسطو نے انقلاب
کی دو بنیادی قسمیں بھی بیان کی ہیں: 1۔ مکمل انقلاب،جس میں معاشرے کے
عمومی سماجی ڈھانچے، سیاسی نظام کے ڈھانچے اور سیاسی اصولوں میں تبدیلی کا
وقوع ہو، 2۔ نامکمل انقلاب، جس میں مذکورہ تین نکات میں سے صرف کسی ایک
نکتے میں تبدیلی آئے۔ ارسطو کے مطابق انقلاب کے عمومی طور پر تین اسباب
ہوتے ہیں:1۔ مادی سبب: لوگوں کا ایک گروہ اپنے حقوق کا استحصال ہوتے
دیکھتاہے تو وہ حکومت سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے،2۔ سبب فاعلہ: کچھ
لوگ اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں،3۔ سبب غائی:
حکومتی ادروں کی من مانی، لوگوں کی بے حرمتی،لوگوں کے احساس عدم تحفظ کی
وجہ سے رد عمل۔
ثابت ہوا کہ انقلاب کا لفظ حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی
تبدیلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ماضی بتاتا ہے کہ تبدیلی و انقلاب دو طرح
کے ہوتے ہیں۔پہلی قسم وہ جو کم عرصے میں واقع ہو، لیکن اس کے فوائد سے
زیادہ نقصانات ظاہر ہوئے، جبکہ دوسری قسم وہ جس کے وقوع میں کافی عرصہ لگے،
لیکن عوام کو صرف اس کے ثمرات و فوائد حاصل ہوئے۔ پہلی قسم کے انقلاب کی
مثالیں یہ ہیں۔ فرانسیسی انقلاب جس میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے۔
روس کا انقلاب جس میں پورے شاہی خاندان کو ان کے ملازموں سمیت تہہ خانے میں
لے جا کر فائرنگ کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ”زار“
بادشاہوں کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں تک جلا دی گئی تھیں۔ ایرانی انقلاب جس
میں خانہ جنگی پر قابو پانے میں تین برس صرف ہوئے اور یہ تین برس ہزاروں
انسانوں کا لہو چاٹ گئے تھے۔ مشرق وسطیٰ میںیکے بعد دیگرے آنے والے
انقلابات، جن کا آغاز تیونس سے ایک نوجوان کی خودکشی سے ہوا اور اس کے بعد
مختصر مدت میں تیونس، لیبیا، مصر میں حکمرانوں کی بجائے قتل و قتال اور
خونریزی کی حکومت قائم ہوگئی۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف انقلابی
تحریک شروع ہوئی، جو اب تک دو لاکھ افراد کا خون پی چکی۔ مذکورہ انقلابات
کی بدولت ابھی تک یہ ممالک خانہ جنگی کی بھٹی میں دہک رہے ہیں۔ان ممالک کی
معیشت تباہ اور سکون غارت ہوچکا ہے۔ آج بھی عوام اپنے حقوق سے محروم ہیں۔
مختصر مدت میں آنے والی یہ تبدیلی کہنے کو تو انقلاب اور عوام کی فتح تھی،
لیکن حقیقت میں بربادی اور عوام کی شکست ثابت ہوئی۔
انقلاب کی دوسری قسم وہ ہے، جس میں عوام کو صرف فوائد حاصل ہوئے اور اس کے
اثرات دیر تک عوام کے لیے خوش کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ملایشیا
ہے۔ 1980 میںملایشیا میں غربت، افلاس اور بیروز گاری کا راج تھا۔ صرف ٹن،
ربڑ اور پام آئل جیسا خام مال باہر بھیج کر ملک کی معیشت کو چلایا جاتا
تھا۔ سیاست، معیشت، تعلیم اور ملک کے تمام شعبے دن بدن دم توڑ رہے تھے۔
دوردور تک ملایشیا کے حالات سنبھلتے دکھائی بھی نہ دے رہے تھے، لیکن قوم نے
انقلاب لانے کی ٹھانی، مسلسل محنت کی، اپنے ملک کو اہم صنعتی اور ترقی
یافتہ قوم میں بدلنے کا ایجنڈا پیش کیا، ریاست، آئین اور قانون کی پاسداری
اپنے اوپر لازم کی۔ نظم و ضبط ہر ایک پر لازم قرار دیا گیا۔ اس ملک کا حال
دیکھتے دیکھتے بدلنے لگا۔ ملایشین قوم نے مسلسل 22سال محنت کی۔ 2003 میں جو
ملک صرف خام مال پر اپنا گزارا کرتا تھا ، وہی ملایشیا ٹیکنالوجی اور سروس
انڈسٹری کے باعث ایک سو بلین ڈالر کی برآمدات کرنے لگا۔ 2300 ڈالر فی کس
آمدنی کمانے والا ملایشیا 9ہزار ڈالر کمانے لگا۔ غربت کا نام و نشان مٹ
گیا۔ تعلیم سے محروم 92فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے۔ ملایشیا کی سیاست
مستحکم اور معیشت مضبوط ہوگئی۔ اسی انقلاب کی ایک مثال ترکی بھی ہے، جو
2001تک اقتصادی بحران میں اس بری طرح سے پھنسا ہوا تھا کہ کھلے بازار میں
ترکی کرنسی لیرا کی فروخت بڑھ گئی، جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت میں
40 فیصد تک کمی کرنا پڑی، ساتھ ہی شرح سود اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں
تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع کم ہونے لگے، ملک غیر ملکی
قرضوں پر چلنے لگا، لیکن ترک قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی اور 2002کے بعد
شروع ہونے والے انقلابی سفر کی بدولت ترکی آج دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔
انقلاب کی ان دو قسم کی مثالوں کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں مشرق واسطیٰ
کی طرز پر سول نافرمانی اور مار کٹائی والا انقلاب چاہیے یا ملایشیا اور
ترکی کی مثل پر امن اور فائدہ مند انقلاب چاہیے۔ |
|