تو مرا حاجی بگو من تراحاجی بگویم
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
ملک کو درپیش موجودہ خطرات کے
بارے میں اہل نظر اور صاحبان ِدانش بہت پہلے سے پیش گوئی کرتے چلے آرہے تھے
، لیکن ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد نہ جنبد ‘‘ کا مصداق پاکستان مسلم لیگ
نواز کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی ،ٹس سے مس بھی نہیں آئے ، اب اسلام آباد
میں ایک ماہ کے قریب ہزاروں لوگوں کے دھرنوں سے اگر حکومت، جمہوریت
،پارلیمنٹ اور آئین کے خیموں میں گھس کرنون لیگ بچ بھی جائے ، تو فائدہ
کیا، عزت رہی نہ کسی سطح پر حکومتی رٹ۔
قومی اسمبلی کا مشترکہ سیشن کئی روز چلا ، ملک اور قوم کی خدمت کاتو دور
دور تک کوئی ذکر نہیں ، اگر ذکر ہے تو اپنے اپنے الّو سیدھے کرنے کا، حزب
اقتدار کی بنچوں سے حزب اختلا اور حزب اختلاف کی سیٹوں سے حزب اقتدار کی
خوب مدح سرائی ہورہی تھی ،یاپھر اشاروں اشاروں میں ایک دوسرے کو طعنے دیئے
جارہے تھے ،آخرکارجعلی مینڈیٹ کی طرح مصنوعی پارلمانی اتحاد واتفاق کا بھی
بھانڈا پھوٹ گیا،چوھدری نثار کے الزامات پر اعتزازاحسن اپنے آپ کو قابو میں
نہ رکھ سکے،کاش اتنا غیظ وغضب اجتماعی مفادات،الزامات اور نقصانات پربھی
ہوتا، بحران کے حل کے بارے میں سنجیدگی سے غور ہوتا، پائیدار حل سامنے آتا،
جس سے نہ صرف مظاہرین بلکہ عام پاکستانی بھی مطمئن ہوتے، افسوس سے کہنا
پڑتاہے کہ یہ بات عمائدین ِقوم کی اس مجلس شوری میں لگتاہے ’’موضوع سخن‘‘
ہی نہیں ۔
شروع دن کی اعتزاز احسن کی تقریر قدرے بہتر سمجھی جارہی تھی کہ جذباتیت سے
ہٹ کر جچے تلے الفاظ میں فریقین کو سمجھانے کی کوشش تھی ، مگر چوھدری نثار
علی خان نے ان کا بھی بھر کس نکال دیا، کہاکہ وہ اپنی تجارت اورلینڈ
مافیاکی سرپرستی بچارہے تھے ، مولانا فضل الرحمن کے خطبات ویسے بھی مشہور
ہیں ، لیکن اس وقت کی ان کی تقریر ایک شاہکار تھی ،لیکن اس پر بھی بعض
اینکرز کی طرف سے کہاجارہاہے کہ وہ ایک جذباتی تقریر تھی ، محمود خان
اچکزئی ، زاہد خان اور خالد مقبول صدیقی کی تقریریں شاید اس قابل نہ تھیں ،
کہ ان پر توجہ دی جائے، کچھ لوگ تو ایسے بھی تھے کہ اگر وہ اس موضوع پر نہ
بولتے تو وہ شرمندگی سے ضرور بچ جاتے، احسن اقبال نے نمک حلالی کیلئے جلتی
پر تیل چھڑک دیا، جاوید ہاشمی نے بہت بڑی قربانی دی تھی ، ان کی قربانی کی
قدر کی جانی چاہئے تھی تو ’’صلہ‘‘ ان کے استعفاء کو شرف قبولیت بخشنے کی
صورت میں دیاگیا، شاہ محمود قریشی ناراض لوگوں کے ترجمان تھے ،اور پھر بھی
آگئے، تو ان کا استقبال ہونا چاہئے تھا، ان کو شیم شیم کے نعروں سے پرتپاک
خوش آمدید کہاگیا ، ان کی تقریر کے دوران بھی اطراف میں ہڑبونگ جاری تھی ،
ٹھنڈے دل اور اطمینان سے ان کی بات نہ سنی جاسکی ، سونے پر سہاگہ یہ کہ
ناراض مظاہرین کے یہ ترجمان جب پارلیمنٹ میں داخل ہونے کو تھے، نواز شریف
صاحب اس سے قبل ہی تشریف لے گئے ، اور جیسے ہی یہ لوگ نکل گئے وہ آکر اپنی
سیٹ پر براجمان ہوئے ، اﷲ تعالی قوموں کی حیات میں ایسے دن اور یہ غیر
سنجیدہ حرکات کسی کو بھی نہ دکھلائے۔
تعجب کی بات ہے کہ پچھلے چالیس سال سے کچھ خاندان اور کچھ جماعتیں قوم کے
ساتھ سنگین مذاق میں مصروف ہیں ، تومراحاجی بگو من تراحاجی بگویم کے مصداق
بنے ہوئے ہیں ، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر دھاندلی ثابت ہوگئی، تو
اسمبلیاں بر خاست کرکے مڈٹرم الیکشن ہوں گے ، ارے بابا، جہاں جہاں دھاندلی
ثابت ہوجائے ،اسے کالعدم قرار دیاجائے ،بقیہ کو اس کی سزا کیوں دی جائے
،دھاندلی کرنے اور کرانیوالا کو ئی بھی ہو، اوپر سے نیچے تک اسے عبرتباک
انجام سے دوچار کیاجائے ، وسط مدتی انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کرکے جاں
بلب قومی خزانے پر بوجھ کیوں ڈالاجائے ،بلکہ جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے،
وہاں بھی دوبارہ انتخاب کے یا دیگر جتنے بھی اخراجات ہوں وہ دھاندلی کے
مرتکب عناصر پر ڈالے جائیں ،نیز اگر دھاندلی ثابت نہیں ہوئی تو شورمچانے
والوں کو بھی سخت سے سخت سزائیں دی جائیں ، کیونکہ انہوں نے ملک وقوم کا
بلاوجہ تماشا بنائے رکھا۔ لیکن یہ بعید از قیاس اس لئے ہے کہ حکمراں جماعت
کا خوف ،باڈی لینگویج اور تحقیقات سے فرار بتلارہاہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ
یا بہت کچھ کالا ضرور ہے ، پھر روز نامہ جہان پاکستان کی 5ستمبر کی ایک خبر
میں ایک قومی (NA 125)اور ایک صوبائی اسمبلی (PP147)میں دھاندلی کی تصدیق
ہو گئی ہے،اس خبرکے مطابق نون لیگ پردھاندلی ثابت ہوچکی ہے، تو پھر چوری
اور سینہ زوری آخر کیوں ؟ اور ڈھیٹ پن پر ڈھٹائی کیوں ؟؟ کیا نوازشریف اس
بار غلام اسحاق خان کے بجائے اپنے ساتھ ساری قومی،سینیٹ اور صوبائی
اسمبلیوں کو ڈوبونا چاہتے ہیں،یہ تو شرافت نہ ہوئی،کچھ تو اپنے ساتھ
لگے’’شریف‘‘ لاحقے کا بھی خیال رکھیں،اسم با مسمیٰ بنئے،اپنی ذات سے ذرہ ہٹ
کرخداراقوم کو نوازیئے۔
در پیش تمام تر صورت حال میں جوبات درد مند دلوں کیلئے سب سے زیادہ
افسوسناک ہے ، خداکرے ایسانہ ہو، مگر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق :’’ کہا تو
گیاہے نا‘‘۔وہ یہ کہ واشنگٹن سے آئی ہوئی ایک خبر کے مطابق جاوید ہاشمی
صاحب نون لیگ کیلئے تحریک انصاف میں جاسوسی کیلئے آئے تھے ، یہ خبر اپنے
ذرائع کے اعتبار سے زیادہ قابل اعتبار نہیں، لیکن جاوید ہاشمی صاحب کے
استعفاء کی حسن قبولیت کے ساتھ ساتھ روزنامہ جہان پاکستان 4ستمبر کی ایک
خبر اسے تقویت دیتی ہے ، کہ موجودہ صدر مملکت کو بیمار بناکر رخصت
کردیاجائے گا ، اور بطور تحفہ وانعام صدارت کا تمغہ ہاشمی صاحب کے سینے پر
لگادیا جائے گا، نیز قومی اسمبلی کے باہر ہاشمی صاحب کی مشہور باغیانہ پریس
کانفرنس سے قبل خواجہ سعد رفیق سے ان کے راز ونیاز کی تفصیلی کہانی بھی
میڈیا میں شائع ہوچکی ہے ، ہاشمی صاحب کی یہ تگ ودو اگر اسی انداز میں ہو
اور ثابت ہوجائے ،تو پھر سمجھنا چاہئے کہ پاکستان میں کوئی ایک بھی سچایا
معتبر شخص نہیں ہے ، کیونکہ ہاشمی صاحب جہاں بھی رہے ،جب بھی رہے ،پوری قوم
کے محبوب اپنی امانت ، دیانت ، شجاعت اور ظلم کے خلاف بغاوت کی وجہ سے رہے
، امید کی جانی چاہئے کہ ایسا نہ ہو، لیکن اگر یہ سب کچھ ہوتو پھر یہ محبوب
باغی تاریخ میں ’’خائن وغدار ‘‘ کہلائے گا، جبکہ جاوید ہاشمی اور خیانت یہ
بالفاظ دیگر اسلام اور کفر ہیں ، مجھے تو سوچ سوچ کردل کا دورہ پڑنے کوہے ،
حالانکہ میں ہاشمی صاحب کی پارٹیوں میں کبھی نہیں رہا۔
بہر حال یہ بحران اتنا سنگین نہیں جتنا اسے سنگین سمجھا جارہاہے ،یا سنگین
دکھایا جارہاہے ،دونوں طرف پڑھے لکھے اور جہان دیدہ لوگ موجود ہیں ، نواز
شریف اور عمران خان سے دونوں جانب منتخب فریق اختیار لے کر استعفاء اور عدم
استعفاء کے موضوع پر انہیں بے اختیار کرکے یہ تیسرا فریق اس پربات کرے تو
شام تک حل نکل آئے گا، بس صرف اتنا کرنا پڑے گاکہ ذرہ ساپتھر کے زمانے میں
جاکر کسی دیہات یا گاؤں کے چوھدری ،وڈیرے او رخان سے جرگہ کے اصول سمجھنے
ہوں گے ، پھر مسئلہ آٹے میں سے بال نکالنے کی طرح آسان ہوجائے گا۔ |
|