ہمیں تو بس استعفیٰ چاہئے
(Muhammad Amjad Khan, Pakpattan)
ایک طرف دہشت گردی تودوسری طرف
آئی ڈی پیز کی بھوک، تیسری طرف غیر جمہوری سازشیں تو چوتھی طرف تباہی
خیزطوفانی بارشوں و سیلابی ریلوں کے خلاف جنگ،یہ ساری کی ساری صورتحال کسی
بھی دانشور ،سیاستدان،صحافی یا کسی بھی دوسرے شہری سے کوئی ڈھکی چھپی نہیں
،جس کے سبب ایک طرف تو ملکی معیشیت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہی تو دوسری
طرف سینکڑوں جانیں جا رہی ہیں ہزاروں خاندان گھروں سے بے گھر ہیں کئی خود
کشیاں کر رہے ہیں تو کئی فاقوں کی لپیٹ میں ہیں ، مگر ہمیں اِن سے کیا لینا
دینا کیونکہ یہ سب تو پرانے پاکستان والے ہیں جبکہ ہم نئے پاکستان والے
ہیں،لہذا ہمیں تو بس وزیرِ اعظم اور اُس وزیرِ اعلیٰ کا استعفیٰ چاہئے جوان
پرانے پاکستانیوں کی مدد کیلئے گندے پانیوں میں گاؤں گاؤں گلی گلی پھر رہے
ہیں،جس کے بعد ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جس کی چار آزاد ریاستیں ہونگی
اور ان چار ریاستوں میں پنجاب پرانا پاکستان کہلائے گا جبکہ کشمیر انڈیا کے
سپرد کر دیا جائے گااوراس نئے پاکستان میں دینی تعلیم کی بجائے ناچ گانے
میں مہارت ہر بچے کیلئے ضروری ہوگی جبکہ دنیاوی تعلیمی نصاب میں حضرت علی ،حضرت
عمر فاروق اور ٹیپو سلطان جیسے لوگوں کی زندگیوں پر مبنی باب ختم کرکے قائدِ
نیا پاکستان کی (Love Story)اور وینا ملک جیسی ہستیوں کی زندگیوں پر مبنی
باب شامل کئے جائیں گے جنہیں پڑھنے کے بعد بچے دِنوں میں جوان ہو کر ملکی
ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکیں گے اور شرعی طریقہ سے نکاح کی بجائے
قائد کے نقشِ قدم پر عمل ہوگا یعنی کہ نکاح کی رسم ختم کردی جائے گی، میرے
خیال میں نیاپاکستان کچھ اس طرح کا ہوگا ،جس کی تکمیل کیلئے پہلے کسی کو
سبز باغ دکھا کر تو کسی کو مال لگا کر یرغمال بنایاپھر کبھی کرپشن کا شور
مچایا گیاتو کبھی دھاندلی کارونا رویا گیاکبھی مہنگائی پر پیٹا گیاتو کبھی
لا قانونیت کو کوساگیامگر اس کے باوجود جب کوئی اُمید بر نہ آئی تو لوگوں
کے برین واش کرنے کیلئے وہ زبان بھی استعمال کی گئی جو صرف پاکستان ہی نہیں
دنیا بھی نہیں بلکہ تاریخ میں کسی بڑے سے بڑے غدار نے بھی کسی ریاست یا
حکومت کے خلاف استعمال نہ کی ہوگی مگر مطلوبہ نتائج کی بجائے نتیجہ یہ نکلا
کہ سرکاری ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ پوری قوم پر بھی حملہ کردیا گیا یعنی
کہ(پارلیمنٹ) پر بھی حملہ کردیا گیا جس کا مطلب پوری قوم پر حملہ ہے کیونکہ
وہاں پوری کی پوری پاکستانی قوم کے نمائندے بیٹھتے ہیں اس سے بڑھ کر بھی
کوئی دہشت گردی ہو سکتی ہے جس پر اگر کوئی سوال اُٹھا تو جواب ملاکہ یہ میں
نے نہیں اُس نے کیا وہ کہتا ہے میں نے نہیں اُس نے کیا اور جب کوئی اور بس
نہ چلا تو کہہ دیا کہ کارکن بس میں نہیں رہے ،ورنہ ہمارے جیسا امن جمہوریت
اور بھائی چارے کا پیکر تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا ،ہم تو صرف استعفیٰ لینے
جا رہے تھے جوکہ برطانیہ سے در آمد ہوا تھا اور ایک پلیٹ میں پڑا تھابس
اُسے اُٹھانے کیلئے جاتے وقت کنٹینر کی سائیڈ لگنے سے یہ سب ہوگیاہوگاجس پر
سوال ہوا کہ یہ کام بھی تو غیر عائینی ہی تھا جواب مِلا اگر نہ جاتے تو بے
وفا ٹھہراتے جوکہ قائد کو پسند نہیں
خیر! جو کیا یا ہوا وہ اُنہوں نے تو اپنی طرف سے شاید اپنے لئے اچھا ہی کیا
ہومگر میرے نذدیک وہ یہ سب کرکے مذید پانچ سال پیچھے چلے گئے ہیں کیونکہ
اُن کے لانگ مارچ کے شروع سے لے کر اب تک کے ان تمام تر عوامل کے دوران مرد
وخواتین کو نچانا گانا یا عشق پیچے لڑاناوغیرہ کے علاوہ بھی جو کچھ ہوا وہ
کسی بھی پاکستانی سے پوشیدہ نہیں رہا اور نہ ہی اُن کی مستقبل کی سوچ یا
ماضی کسی سے ڈھکا چھپا رہ گیا مگر وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی نظر میں ہم نے
حکومتی جماعت کوشاید اس قدر گندا کر دیا ہے کہ اب وہ دوبارہ منتخب نہ ہوسکے
گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہوہ اپنے پاؤں پہ خود ہی کچھ اس طرح سے کلہاڑی مار
بیٹھے ہیں کہ زخم ٹھیک ہونے میں اب بہت دیر لگے گی یعنی کہ وہ ہر شہری
کوخود ہی اس حقیقت سے آشنا کر بیٹھے ہیں کہ اُن کا یہ دھرنا ورناعوامی فلاح
کیلئے نہیں بلکہ اقتدار یا دولت کیلئے ہے چاہے کوئی ڈوبے یا بھوکا مرے
اُنہیں کسی سے کوئی غرض نہیں اُنہی تو بس استعفیٰ چاہئے جس کے حصول کی خاطر
اگر اُن کا بس چلا تو وہ ملک کے ٹکڑے کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے اور اگر
خدا نا خواستہ ایسا ہوگیا تو پھر ہم واقع ہی ملک کو چار حصوں میں پائیں گے
،
جسے بچانے کیلئے جس قدر آرمی پر ریڈ زون کا تحفظ لازم ہے اُس سے کہیں زیادہ
حکومت کا اسلام آباد میں یہ حالات پیدا کرنے والوں کے خلاف قانونی کریک
ڈاؤن کرناضروری ہے ورنہ حکومتی رِٹ ایک تماشہ بن جائے گی اور اب تو صرف
اسلام آباد میں یہ صورت حال ہے پھر محکمے حکومت کے خلاف بغاوت پر اُتر آئیں
گے خصوصاً وہ محکمے جن کو اِنہوں نے کیلوں والے ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر شہید
کیا ہے ، جن کی خواتین کو گھروں سے اُٹھانے کے اعلانات کئے ہیں، جن کو
سڑکوں پر گھسیٹا ہے اور جِن کے کیمرے و مائیک توڑے ہیں جس کے نتیجہ میں ہر
ڈی سی او آفس ریڈ زون اور ہر ضلع اسلام آباد بن جائے گا، میری اس رائے کے
پیچھے میرا مقصد یہ نہیں کہ مذاکرات نہ ہوں مذاکرات ہوں مذاکرات تو ہم نے
طالبان کے ساتھ بھی کئے ہیں مگر ایسے مذاکرات نہ ہوں جن میں ملکی سالمیت
وقانون کی سر بلندی کی راہ پر اپنی جانیں و عزتیں دینے والوں کے ساتھ نا
انصافی ہوجائے (فی امانِ اﷲ) ۔ |
|