حقیقت میلاد النبی - بیسواں حصہ

3۔ یومِ تکمیلِ دین بہ طورِ عید منانا:-

حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا : میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کون سی آیت ؟ حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ نے کہا :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا.

المائدة، 5 : 3

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘

اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.

1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830
2. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14

’’میں پہچانتا ہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘

اﷲ ربّ العزت کی طرف سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین کی تکمیل کا مژدہ ملنے والے دن کو بہ طور عید منانے کے خیال کا حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کی طرف سے اِظہار اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تائید و توثیق اِس اَمر کی دلیل ہے کہ ہماری قومی و ملی زندگی میں ایسے واقعات، جن کے اَثرات کا دائرہ قومی زندگی پر محیط ہو ان کی یاد ایک مستقل event یعنی عید کے طور پر منانا نہ صرف قرآن و سنت کی رُوح سے متصادِم نہیں بلکہ مستحسن اور قومی و ملّی ضرورت ہے۔

4۔ مقامِ حجر سے گزرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات:-

سن 9 ہجری میں تبوک کے سفر کے دوران میں مسلمانوں نے قومِ ثمود کے دو کنوؤں کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس مقام کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا کہ اِس جگہ سیدنا صالح علیہ السلام کی قوم نے اونٹنی کو ہلاک کر دیا تھا اور نتیجتاً عذابِ الٰہی کا شکار ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صرف ایک کنویں سے اپنی ضروریات کے لیے پانی حاصل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کنوئیں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کنویں سے پانی لینے کا حکم دیا اس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور ایک پورا دن اس اونٹنی کے لیے خاص تھا مگر قومِ ثمود کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس ایک دن میں صرف اونٹنی ہی پانی پئے۔ لہٰذا انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ واقعہ رُونما ہوئے صدیاں بیت چکی تھیں اور وہاں حضرت صالح علیہ السلام تھے نہ اُن کی اونٹنی صدہا سال گزر جانے کے بعد اس کنویں کے پانی میں بھی خاصا تغیر آچکا ہوگا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کنویں کو اتنی اہمیت دی۔ سبب صرف یہ تھا کہ اسے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے نسبت تھی جو برکت کا باعث تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس برکت سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ جب کہ قومِ ثمود کے زیر اِستعمال رہنے والے دوسرے کنویں کا پانی استعمال کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو روک دیا کیوں کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹی کو آپ کی طرف سے وعیدِ عذاب سنائے جانے کے باوجود ہلاک کر دیا تھا۔ اِس قبیح عمل پر اللہ تعالیٰ نے اس نافرمان قوم پر عذاب نازل کیا اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اسی نسبت کے پیش نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کنویں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم سے پہلے بعض صحابہ رضی اللہ عنھم اس کنویں کے پانی کو اِستعمال کر چکے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تو عرض کرنے لگے : آقا! ہم تو آپ کے منع کرنے سے پہلے ہی اس کا پانی استعمال میں لا چکے ہیں، ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی کہ یہ کنواں عذاب میں مبتلا ہونے والی قوم کا تھا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے برتنوں میں ذخیرہ شدہ پانی ضائع کر دیں اور اگر اس پانی سے کھانا وغیرہ پکایا ہے تو اسے بھی ضائع کر دیں، اور اپنے برتن اُس کنویں کے پانی سے بھر لیں جو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی وجہ سے باعثِ برکت ہے اور اُسی پانی سے اپنا کھانا وغیرہ بنائیں۔

ذیل میں ہم اِس پورے واقعہ کو احادیثِ مبارکہ کے الفاظ کی روشنی میں بیان کریں گے :
(1) مقامِ حجر پر قومِ ثمود کے کنویں سے پانی پینے کی ممانعت

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں :

أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما نزل الحجر في غزوة تبوک، أمرهم أن لا يشربوا من بئرها، ولا يستقوا منها، فقالوا : قد عجنا منها واستقينا، فأمرهم أن يطرحوا ذلک العجين، ويهريقوا ذلک الماء.

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران میں مقامِ حجر میں اُترے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس کے کنویں کا پانی پینے اور مشکوں میں بھرنے سے منع فرما دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : ہم نے تو (آپ کے حکم فرمانے سے پہلے ہی) اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور برتن بھی بھر لیے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں وہ آٹا پھینکنے اور پانی بہا دینے کا حکم فرمایا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : وإلي ثمود أخاهم صالحا، 3 : 1236، 1237، رقم : 3198
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 46
3. بغوي، معالم التنزيل، 2 : 178
4. ابن حزم، المحلي، 1 : 220
5. عسقلاني، تغليق التعليق، 4 : 19
(2) حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے مشرب سے پانی پینے کا حکم

1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قومِ ثمود کی سرزمین حجر پر آئے تو انہوں نے اس کے کنویں سے پانی بھر لیا اور آٹا گوندھ لیا۔

فأمرهم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يهريقوا ما استقوا من بئرها، وأن يعلفوا الإبل العجين، وأمرهم أن يستقوا من البئر التي کانت تردها الناقة.

’’پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس پانی کو پھینک دیں جو انہوں نے اس کنوئیں سے بھرا ہے، اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو ڈال دیں۔ اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کریں جس سے (اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پیتی تھی۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : وإلي ثمود أخاهم صالحا، 3 : 1237، رقم : 3199
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لاتدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4 : 2286، رقم : 2981
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 82، رقم : 6202
4. بيهقي، السنن الکبري، 1 : 235، رقم : 1050
5. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 46

2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے سال مسلمانوں کا قافلہ مقامِ حجر پر قومِ ثمود کے گھروں کے پاس رُکا تو انہوں نے قومِ ثمود کے مشارِب سے پانی بھر لیا، آٹا گوندھ لیا اور گوشت سے بھری ہانڈیاں آگ پر چڑھا دیں۔

فأمرهم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فأهراقوا القدور، وعلفوا العجين الإبل، ثم ارتحل بهم حتي نزل بهم علي البئر التي کانت تشرب منها الناقة، ونهاهم أن يدخلوا علي القوم الذين عذبوا، قال : إني أخشي أن يصيبکم مثل ما أصابهم، فلا تدخلوا عليهم.

’’(جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (پھینک دینے کا) حکم دے دیا، تو انہوں نے ہانڈیاں انڈیل دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں لے کر اس کنویں پر تشریف لائے جہاں (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عذاب زدہ قوم کے مقام پر جانے سے روکا۔ فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاؤ جس میں وہ ہوئے تھے۔ پس تم ان (عذاب والی جگہوں) میں داخل نہ ہوا کرو۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 117، رقم : 5984
2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 83، رقم : 6203
3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 228

احمد بن حنبل کی روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

یہ اَمر قابلِ غور ہے کہ اس پانی میں فی نفسہ کوئی خرابی نہ تھی اور اَز رُوئے شرع وہ پاک تھا۔ چونکہ اس کا تعلق اس قوم سے تھا جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مارنے کی وجہ سے عذابِ اِلٰہی نازل ہوا، اِس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو وہ پانی اِستعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے برعکس دوسرے کنویں کی نسبت حضرت صالح علیہ السلام کی معجزاتی اونٹنی سے تھی، لہٰذا اس نسبت کا احترام کرتے ہوئے اس کی برکت سے فیض یاب ہونے کی ہدایت کی گئی۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103339 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.