اگر دیکھا جائے تو ملک میں مسلسل
2008 سے جمہوریت رائج ہے کوئی بتایگاکہ کیا ثمر مِلا ہے عوام کو اس جمہوریت
سے سوائے موت ، افلاس، غربت میں اضافہ ، طاقتور چودھری ، وڈیرے، خان اور
سرمایہ دار انتہائی بے حیائی اور بے غیرتی سے غریب عوام کی بیٹیوں کی عزت
پامال کررہے ہیں اور کچھ معصوم بچوں کے ہاتھ پاؤں قلم کررہے ہیں کیونکہ وہ
طاقتور ہیں اور بدقسمتی سے اِس ملک میں طاقت کا قانون رائج ہے۔ یہ طاقت
انہوں نے جمہوری حکمرانوں کو الیکشن جیتنے کیلئے اپنی دولت (جو حرام طریقے
اور ناجائز ذرائع سے حاصل کیا تھا) فراہم کرکے حاصل کیا کیونکہ وہ جانتے
تھے کہ وہ اپنی مکروہ شکل کے سامنا نہیں کرسکتے لہذا وہ پیچھے بیٹھ کر
حکمرانوں سے اپنی مرضی کے کام کراتے رہینگے۔ اور اِس ملک کا حکمران طبقہ
اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ کوئی اس کا کچھ
نہیں بگاڑ سکتا ۔ وہ سب سے پہلے ملک کے ادارے تباہ کرتا ہے یا وہاں اپنے
نوکروں کو سربراہ بنا کر بھیج دیتا ہے تاکہ وہ اپنی من مانی کرسکے۔ تمام
سیاسی جماعتوں کے سربراہ آج کل اپنی اَنا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ہے کوئی جو
عوام کے مفاد میں سڑکوں پر آیا ہے۔ صرف ان کو اِسکی فکر ہے کہ میں الیکشن
جیت رہا تھا مجھے ہروایا گیا۔ مجھے 100 سیٹیں ملنی تھیں 10 ملیں اور وہ
اِسی سبب سٹرکوں پر عوام کو لےکر آرہے ہیں اِس لیے نہیں کہ غریبوں کی زندگی
مشکل ہوگئی ہے۔ روز بروز ضروریات زندگی مہنگی سے مہنگی تر ہورہی ہے۔ غریب
کی حالت روز بدتر سے بدتر ہورہی ہے اور حکمران روز ارب پتی سے کھرب پتی
ہورہے ہیں۔ ان کی دولت غیرملکی بینکوں میں انبار لگارہی ہے اور وہ یورپیئون
ملکوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اپنی اولادوں کو وہاں رکھتے اور ساتھ ہی
ساتھ منافع بھی دوبارہ وہیں جمع کرتے رہتے ہیں۔ یہ اتنے بے غیرت ہیں کہ
ہمارا ہی مال لوٹ کر لےجاتے ہیں۔ اور ہمیں اس منافع سے بھی ایک آنہ نہیں
دیتے۔ اور جب کبھی سیر سے سوا سیر کے چکر میں مصیبت پڑتی ہے تو اس وقت بھی
یہ بےغیرت اللہ کو یاد نہیں کرتے بلکہ اس وقت اپنے غیرملکی آقاؤں کو پکارتے
ہیں اور ان سے مدد کی التجا کرتے ہیں اور پھر اپنے لاؤلشکر کے ساتھ ان کے
محلوں میں پناہ گزیں ہوجاتے ہیں۔ وہاں کاروبار کرتے ہیں مِل فیکٹری لگاتے
ہیں اور پھر کچھ اِس بدقسمت پاکستان کی حالت کچھ بہتر ہونی لگتی ہے چونکہ
یہاں عسکریت ہوتی ہے جمہوریت نہیں تو واویلا شروع کردیتے ہیں کیونکہ اُنکے
آقاؤں کو ترقی کرتا پاکستان پسند نہیں ہوتا لہذا انکو دوبارہ تیار کیا جاتا
ہے اور دشمنوں کے ساتھ باہم ملکر عسکریت کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتاہے اور
(غیر ملکی آقاؤں) کے ساتھ معاہدہ کے تحت شورشرابہ شروع کردیا جاتا ہے اور
ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تم ہمیں پاکستان کی حکومت دلوادوگے تو ہم
تمہاری مرضی کی مطابق حکومت کرینگے اور وہی ہوگا جو تم چاہوگے۔ پھر اسکے
بعد انکے غیرملکی آقا عسکری حکومت ( جو دراصل عسکریت نہیں ہوتی کیونکہ
پاکستان کی سپریم کورٹ اسکو تسلیم کرلیتی ہے اور وہ تمام طاقت انہیں دے
دیتی ہےجسکے ذریعے وہ اِس ملک کا بھلا کرسکیں) اور وہ عوام کے فلاح و بہبود
کے کاموں میں لگ جاتے ہیں جو ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ لہذا
وہ سیاسی حکمرانوں کو دوبارہ ہمارے ملک میں لانے کا انتظام کرتے ہیں۔ NRO
آتا ہے اور وہ ہمارے ملک پر دوبارہ قابض ہوجاتے ہیں نام نہاد الیکشن کے
ذریعے اور پھرلوٹ مار ، قتل اور عصمت دری کے دور دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ عوام
بھوک سے بلکتی رہتی ہے مگر ان کے دسترخوانوں پر روز نئی نئی ڈشوں کی تعداد
بڑھتی جاتی ہے ۔ اچھا مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ تو خیر سے حکمران ہیں ۔
لیکن ان کے چمچے اور ملازمین بھی اِس کار بد میں پوری تندہی سے شریک ہوجاتے
ہیں کوئی بے گناہ بچوں اور عورتوں کو لہولہان اور ان کے سیدھا سروں اور
چھیروں پر گولی چلاتے ہیں تو کچھ تھانوں میں داخل ہوکر قاتلوں کو چھڑا کر
لے جاتے ہیں اور کچھ ٹرین کی آمد پر پھاٹک بند ہونے کی صورت میں پھاٹک بان
کو مار مار کر ادھموآں کردیتے ہیں کہ تم نے ٹرین رکوانا چاہیے تھا نہ کہ
پھاٹک بند کرتے۔ اور کچھ تو اتنے بے غیرت اور ظالم ہیں (اسرائیل بھی شرما
جائے) کہ ذرا سی غلطی پر 10 سال کے بچے کے دونوں ہاتھ کاٹ دیتے ہیں ۔ کف
افسوس کہ چودھری افتخار نہیں ہیں ورنہ شاید وہ سوموٹو ہی لے لیتے ۔ ہمارے
حکمرانوں کو کیا پرواہ ۔ ان کے بچوں کے بازو پر کسی غلطی سے کوئی خراش
تھوڑی لگا ہے ورنہ وہ قیامت توڑ دیتے اس پر جس نے ان کے بچے کے بازو پر
خراش کگایاتھا۔ یہ غریب ہاری مزدور ان کا تو کام ہی مرنا ۔ یہ ہمارے غلام
ہیں انکو تو یہ ظلم سہنا ہی پڑیگا ۔ حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہتے
ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا فرماتے تھے کہ"جس بندہ کو اللہ کسی رعیت (عوام)
کا راعی (حاکم و نگران) اور وہ اسکی خیر خواہی (بھلائی) پوری پوری نہ کرے
تو وہ حاکم جنّت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا"
عسکری حکومتوں نے ادارے بنائے مثلاّ، نادرا، نیشنل ڈیزاسٹر کنٹرول اتھارٹی،
نیب وغیرہ وغیرہ ۔ ملک میں کاروبار ترقی پارہا تھا ملازمت کا حصول ممکن
ہوتا جارہا تھا۔ اقتصادی صورتحال بہتر ہوتڈیمی جارہی تھی ۔ IMF سے کئی
دہائیوں کے بعد جان چھٹرالی گئی تھی۔ اس وقت کی گروتھ ریٹ کو دنیا نے تسلیم
کیا کہ پاکستان اقتصادی طور پربہتری کی جانب گامزن ہے۔ سالانہ پیداوار میں
بڑھوتی ہو رہی تھی ۔ لوگوں کی قوت خرید بہتر ہوری تھی جسکی وجہکر لوگوں کے
گھروں میں الیکٹرونکس مصنوعات کی خرید بڑھتی جاری تھی۔ ڈیم بنائے جارہے تھے
اور ساتھ ساتھ نئے ڈیموں کے منصوبے بنائے جارہے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر ڈالر
60 روپے کا تھا اور آج کے چیمپین سیاستدان کچھ نہی کرسکتے تو کم از کم ڈالر
ہی 60 کا کردیں تو جانیں۔ یہ ہی ہم غریب عوام پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ ورنہ
تم سیاستدانوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ تم ہمیں اللہ کے واسطے ہمارے حال
پر چھوڑ دو۔ ہمارا اللہ نگہبان ہے تم اپنے آقاؤں کے ملک سکونت اختیار کرلو
تمہارے پاس ہمارے پیارے ملک سے لوٹی ہوئی اتنی دولت ہے کہ تمہاری کئی نسلیں
بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔ ہمیں تو عسکریت چاہئے جمہوریت نہیں۔ صرف چند
سیاستدانوں اور ٹی وی اینکروں کی خواہش کہ عسکریت نہیں جمہوریت نہیں اس ملک
کا حل ہے تو دیکھ لو کیا ہورہا ہے 2008 سے ابتک۔ تم چند لوگوں کی تنخواہیں
ماشاءاللہ اتنی ہیں کہ تمہیں پتا ہی نہیں کے غریب عوام کی کیا حالت ہے اور
سچی بات کے تمہاری کمائی کا راز انہی ٹاک شوز کی وجہ سےہے جو تم ان کی ملی
بھگت کے ساتھ روز شام کو عوام کو بےوقوف بناتے ہو۔ لہذا انکو تو جمہوریت ہی
عزیز ہوگی ناکہ عسکریت جس میں ان کی دال نہیں گلتی ۔ اور وہ انکے ساتھ نہیں
چل سکتے کہ وہ سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں سیاستدانوں کی لچھے دار وعدے نہیں
کرتے۔ آپ اکثر ٹاک شوز میں دیکھ لیں کہ کئی سیاستدان آپس میں الجھ جاتے ہیں
اور ایک مچھلی بازار سا بن جاتا ہے نہ کوئی بات پلّے پڑتی ہے اور نہ ہی کچھ
سمجھ آتا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور اسی درمیان کچھ نام نہاد اینکر پرسن سوال
پہ سوال کیا چلے جاتے ہیں وہ نہ اِس بات پر کسی کو روکتے ہیں کہ بھائی ایک
ایک کرکے بات کرلیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے انہیں ٹائم پاس کرنا ہوتا ہے
اور اپنی کمائی کھری کرنی ہوتی ہے انہیں اِس سے کیا غرض کہ عوام کیلئے بھی
کوئی بات ہوئی کہ نہیں۔
سرمایہ دار جو موجودہ حکومت کے خاص طورپر پروردہ ہیں دولت بے حساب کمارہے
ہیں لیکن ملازمین کو دینے کیلئے کچھ نہیں نہ ہی ضرورت کیمطابق اجرت دیتے
ہیں اور نہ ہی کوئی سہولیات۔ بیسیوؤں واقعات پچھلے سالوں اور مہینوں میں آپ
نے دیکھے ہونگے سینکٹروں لوگ ناقص انتظامات کی وجہ
سے حادثات میں لقمہ اجل بن گئے۔ ملازمیں پندرہ پندرہ سال سے کام کررہے ہیں
لیکن ان کے پاس کوئی اپائینمٹ لیٹر نہیں اور نہ کسی قسم کی شناختی
دستاویزات ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو دکھا سکیں کہ وہ اس کارخانے میں ملازم
ہیں۔ نہ ہی مکمل ٹیکس ادا کرتے ہیں اور نہ مکمل ملازمین کی سوشل سیکوریٹی
اور EOBI میں اندرآج کرواتے ہیں۔ لہذا اپ تصوّر کریں کہ لوگوں کا کس قسم سے
استحصال ہورہا ہے۔ کوئی حکمراں چاہے صوبے میں ہوں یا وفاق میں ذحمت ہی نہیں
کرتے کہ کوئی دادرسی ہوسکے۔ حادثات ہوتے ہیں حکومت کمیشن بنادیتی ہے اور
پھر غریب لاچاروں بے کسوں کی آہیں کمیشن کی فائلوں کے بوجھ تلے ہمیشہ کیلئے
دفن ہوجاتی ہیں۔ کوئی ہے جو اس طرح کی کمیشنوں کو غرقاب کرسکے اور حقیقی
دادرسی ہوسکے۔ آپ مولاناؤں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جو کو عالِم دین
سمجھتے ہیں اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار ہیں قران اور سنّت کی باتیں ٹاک
شوز میں خوب کروالو۔ مگر خود بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور سیکڑاوں
مسلح لوگ اپنی حفاظت کیلئے رکھتے ہیں جیسے وہ موت سے اپنے آپ کو محفوظ
کرلیتے ہیں۔ طالبان کے حق میں ایسے بولتے ہیں کہ وہ اِن کے بھائی بند ہیں
جبکہ طالبان بے دریخ پاکستانی مسلمانوں اور غیر مسلموں کا قتلِ عام کررہے
ہیں.
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ، نبی ﷺ نے فرمایا : "
اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا
کہ نہ قاتل کو معلوم ہوگا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو خبر ہوگی
کہ وہ کیوں قتل کیا گیا" (مسلم)
یعنی ایسا فساد اور بگاڑ ظاہر ہوگا کہ اندھادھند قتل ہونگے، خون ناحق ایک
عام بات ہوجائیگی، انسان کا خون اتنا سستا ہوجائیگا کہ قتل اور خون ریزی کے
واقعات پر کسی کوئی حیرت نہ ہوگی، یعنی قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا ان
میں بظاہر دشمنی و عداوت نہیں ہوگی۔ قتل اتنا بڑا قبیح گناہ ہے کہ اس کے
متعلق قرآن پاک میں اللہ تعالی اس طرح ارشاد فرماتے ہیں ۔
ترجمہ: جو شخص مومن کو دانستہ قتل کرڈالے تو اسکا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ
ہمیشہ رہیگا اور خدا کا غضب اور لعنت اس پر ہوگی اور اسکے لیئے بڑا عذاب
تیار ہے۔ (النساء ۔93 )
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دِن نبی کریمﷺ کسی مجلس میں تشریف فرما
تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے کسی سلسلے میں مصروف گفتگو تھے کہ
ایک دیہاتی آیا اور اس نے پوچھا قیامت کب آئیگی ؟ رسول اللہ ﷺ برابر گفتگو
فرماتے رہے تو لوگوں میں سے کسی نے کہا ، اِس دیہاتی نے جو کچھ کہا ہے وہ
آپﷺ نے سن تو لیا ہے لیکن اسے آپﷺ نے پسند نہیں فرمایا اور بعض نے کیا ہے
آپﷺ نے سنا ہی نہیں ۔ یہاں تک کہ جب آپﷺ نے اپنی بات مکمل فرمالی تو فرمایا
، قیامت کی بابت پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا میں حاضر ہوں یا رسول اللہ
ﷺ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو، اس
نے پوچھا امانت کا ضائع کرنا کیے ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب دین و دنیا کا
معاملہ نا اہل لوگوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو"۔
پاکستان کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنارہے ہیں تو کبھی پاک فوج کی گردنیں
اڑارہے ہیں اور یہ خارجی انکی کٹی گردنوں سے فٹبال کھیلتے ہیں کسی نے انہیں
نہیں بتایا کہ فٹبال غیر مسلموں کا ایجاد کردہ کھیل ہے۔وہ کہتے ہیں یہ جہاد
ہے ایسی کوئی مثال عہد نبوی کی بتادیں کہ آپﷺ کے زمانے میں یا آپ کے بعد
ہوا ہو۔ قرآن کہتا ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر یہ کیسے
اِسلام کے پیروکار ہیں کہ مسلمانوں کا اِس بری طرح قتل عام کررہے ہیں۔ اور
اُن کے نام نہاد پاکستانی علماءدین جو ان کے ترجمان ہیں انکی طرفداری کرتے
نہیں تھکتے۔
یہ عالم دین جو سیاست بھی کررہے ہیں پاکستان کے مظلوم عوام کو سینکڑوں
فرقوں میں تقسیم کردیا ہے اور آپس میں لڑواکر اپنی دوکان چلارہے ہیں اور
اپنی دولت میں بے حساب اضافہ کررہے ہیں۔ بڑے بڑے گھروں اور محلوں میں رہتے
ہیں بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں میں اپنے محافظوں سمیت گھوم رہے ہوتے ہیں۔ باتیں
سن لو تو پتا چلیگا کہ اِن سے بڑا غریب عوام کا کوئی خیرخواہ نہیں لیکن
اپنے دھیلے سے عوام پر کچھ خرچ نہیں کرتے کہتے ہیں حکومت ملے گی تو عوام کے
تمام مسائل حل کردینگے مگر حکومت انہیں نہیں ملتی لیکن تمام حکومتوں میں
شامل ہوجاتے ہیں چاہے جمہوریت ہو یا عسکریت مگر دعواۃ ہے کہ ہم ہیں جمہوریت
کے علمبردار۔ کوئی اِن سے سوال کرے کہ کیا رسول پاک ﷺ اسی طرح زندگی گذارتے
تھے دوسروں کا مال ، ڈیزل اور چندہ جمع کرکے۔ کیا آپﷺ اپنی حفاظت کیلیے
اتنے محافظ رکھتے تھے جبکہ آپ کو اِس عالم فانی میں سب سے زیادہ خطرات لاحق
تھے۔ عرب کے بڑے بڑے طاقتور قبیلے آپ کے دشمن تھے مگر آپﷺ نے کبھی مسلح یا
غیر مسلح محافظ نہیں رکھا کیونکہ زندگی اللہ کی امانت ہے وہ جب چاہے گا
واپس لے لے گا۔
میر ے پاکستان کے مظلوم عوام کبھی تم نے سوچاہے کہ ہم خود اپنے لئے کیا
کررہے ہیں کیا ہم ہمیشہ ان سیاستدانوں کے نوکر بن کر رہینگے یہ جلسے کا
اعلان کرتے ہیں اور ہم انکی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے کئی دن پہلے سے اسکی
تیاری میں لگ جاتے ہیں اپنا گھر بار بیوی بچے چھوڑکر تیاری کرتے ہیں آخر
کار اعلان کردہ تاریخ کو شام کے وقت اپنی شاندار بلٹ پروف پجارو اور پراڈو
سے اترتے ہیں ادھا گھنٹہ بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور
ہماری قسمت میں صرف دریاں اور کرسیاں اٹھانا ۔ کیا یہ ہی ہمارا مقدر ہے ۔
خدارا اِن مکروہ سیاستدانوں کے پیچھے نہ لگو یہ ہمیں کچھ نہیں دینگے یہ تو
صرف آتے ہیں حکمرانی کی لالچ میں اور حکمرانی مِل جاتی ہے تو لوٹ مار میں
لگ جاتے ہیں اور پھر مغرب مملاک میں جاکر آرام کرتے ہیں تمہارے پاس ایک
جھونپڑا تک نہیں ۔ اِن کے پاس فرانس ، برطانیہ اور امریکہ اور دوسرے ممالک
میں محلات ہیں، کاروبار ہیں اور بڑے بڑے ہوٹل خرید رکھے ہیں۔ لہذا غریب
عوام سوچو کہ ہم ہی ہیں اصل قصوروار کہ انہیں اپنے کندھوں پر بٹھاکر لاتے
ہیں اور پھر خود ہی دربدر ہوجاتے ہیں۔ اِن تمام آزمائے ہوئے لوگوں کو مت
لاؤ خدارا کچھ ہوش کے ناخن لو۔ پڑھے لکھے غریب نوجوانوں کو لاؤ کہ شائد وہ
نئے ہونے کی صورت میں ملک اور ہمارا کچھ بھلا کرسکیں۔
عسکریت کی حکومت لوٹ مار نہیں کرتی کچھ خدمت ہی کرتی ہے ملک کے اقتصادی
حالات درست کرتی ہے۔ ٖضیاالحق او ر مشّرف پر دوسرے الزام لگائے جاسکتے ہیں
مگر ملکی دولت لوٹنے کا کوئی الزام آج تک نہیں لگا۔ اور مشّرف کے دور میں
تو ویسے ہی معاشی اور اقتصادی صورتحال بہترین تھے۔ کیا یہ جمہوریت کے
علمبردار وہ معاشی اور اقتصادی صورتحال واپس لاسکتے ہیں کبھی نہیں کہ یہ سب
اپنے پیٹ بھرنے میں لگے ہیں ہمارا کیا خیال کرینگے۔
لہذا سوچو اور وہی کر و جو عقل اور دِل تسلیم کرے نہ کہ خاندان اور برادری
اور قبیلے کی چکر میں پڑے رہو۔ وگر نہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں
میں۔ |