کراچی ۔ ۔ ۔ ڈبل سواری
(Dr. Riaz Ahmed, Karachi)
کراچی میں ایک بار پھر قاتل و
غارتگری عروج پر ہے۔ ٨ ستمبر کو ایک شیعہ عالمِ دین علامہ علی اکبر کمیلی
کو' جو کہ سابق سینیٹر اور جعفریہ آلائینس پاکستان کے سربراہ محترم علامہ
عباس کمیلی کے بڑے صاحبزادے تھے موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے شہید
کردیا۔ اس کے بعد کچھ اور قتل بھی ہوئے۔ پھر ١٠ سمتبر کو جامعہ بنوریہ کے
سربراہ مفتی نعیم کے داماد مولانا مسعود کو دوپہر ان کی گاڑی میں موٹر
سائیکل سوار افراد نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ ان واقعات پر ہمیں اور
ساری قوم کو شدید غم و غصہ ہے ۔ ۔ ۔ جب حکومتِ سندھ کی توجہ ان واقعات کی
طرف دلائی گئی تو اس نے عوام پر یہ انکشاف کرکے حیرت کے پہاڑ توڑ دئے کہ یہ
فرقہ وارانہ دھشت گردی ہے۔ ہم اور سندھ کی عوام اس اطلاع پر حکومت کے شکر
گزار ہیں ورنہ اس سے پہلے ہم ان واقعات کو پنجاب کی بارشوں کے سبب قدرتی
آفت سمجھ رہے تھے۔
حکومتِ سندھ کے انکشاف کے ساتھ کیوں نہ لگے ہاتھوں ہم بھی ایک انکشاف کر
ڈالیں ۔ ۔ ۔ کافی عرصے سے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دھشت گردی ایک معمول
کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس صورتِ کے پیشِ نظر ہر صوبائی حکومت میں ایک
خفیہ ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں جو افراد
اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یہ ادارہ ان کی درجہ بندی کرتا ہے۔ جو
افراد قیمتی یعنی با حیثیت ہونے کے زمرے میں آتے ہیں انہیں شہادت کی سند
جاری کی جاتی ہے اور عوام ٹائپ یعنی ہم جیسوں کو ہلاک کے زمرے میں شمار کیا
جاتا ہے ہاں جہاں حکومتی مصلحت کا تقاضا ہو تو ان لوگوں کے لئے جاں بحق
ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مبینہ طور پر شہادت کے مرتبہ
پر فائز کرنے کے لئے جن باتوں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے ان میں کسی سیاسی یا
مذہبی جماعت سے وابستگی، اس جماعت کی حیثیت، حکومتی مفاد اور مجبوریاں
وغیرہ شامل ہیں ۔ ۔ ۔ حالانکہ مرنے والا کوئی بھی ہو بہنے والا خون تو سب
کا سرخ ہی ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا حکومتی انکشاف دوپہر کے وقت سامنے آیا۔ کیونکہ ایسے واقعات کے
تدارک اور مجرموں کی گرفتاری کے سلسلہ میں اس کا کوئی بس ریاستی (صوبائی)
اداروں پر نہیں چلتا اور نہ ہی مجرم اس کی کوئی بات سننے کے لئے تیار ہوتے
ہیں تو لے دے کے اس موقعہ پر اپنی طرف سے خانہ پری کے لئے ڈبل سواری پر
پابندی عائد کر دیتی ہے سو اس نے اس بار بھی کوئی کوتاہی نہیں برتی اور
اعلان کر دیا کہ رات بارہ (١٢) بجے کے بعد اگلے دس روز تک موٹر سائیکل پر
ڈبل سواری پر پابندی رہے گی ۔ ۔ ۔ یہ بیان دراصل بین السطور پیغام تھا دھشت
گردوں کے لئے کہ ١٢ بجنے میں کافی وقت ہے جو کرنا ہے کرلو ۔ ۔ ۔ سو دھشت
گردوں نے موٹر سائیکلیں اٹھائیں اور میدانِ عمل میں کود گئے ۔ ۔ ۔ رات دس
بجے تک بارہ (١٢) افراد موت کے گھاٹ اتار دئے گئے جن میں سے پانچ آخری
گھنٹہ میں لقمہ اجل بنے۔
ہم نے ایک حکومتی عہدے دار سے ان ١٢ افراد کے جان سے ہاتھ دھونے کے بارے
میں دریافت کیا تو موصوف نے فرمایا کہ دھشت گردوں نے ٹیکنیکل گراؤنڈ پر
فائدہ اٹھا لیا کیونکہ ہم مجبور تھے۔ پابندی کے رات ١٢ بجے سے قابلِ عمل
ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ لیکن آپ مطمئن رہیں ١٢ بجے کے
بعد حکومت کی رٹ کوئی چیلنج نہیں کرسکے گا۔ ہم ڈبل سواری کو ہر قیمت پہ روک
کر دکھائیں گے ۔ ۔ ۔ بعد میں وہ راز داری سے بولے۔ عوام کو پھر بھی بہت
احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ہمارے چہرے پہ پریشانی کی آثار دیکھ
کر بولے ۔ ۔ ۔ ذرا اعلان کو غور سے پڑھیں حکومتِ نے صرف ڈبل سواری پر
پابندی لگائی ہے تین کے بیٹھنے پر نہیں اور نہ ہی دھشت گردی کرنے پر !!! |
|