دھاندلی تو ہوئی

بظاہر موجودہ حکومت اپنی انتھک کوششوں کے باوجودلوگوں کی توجہ دھرنوں سے ہٹاکر سیلاب کی تباہ کاریوں کیطرف راغب کرنے میں ناکام دیکھائی دیتی ہے سر شام ہی لوگوں کا جمع غفیر اسلام آباد میں دھرنے کے مقام پر اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے اپنے ثبوتوں اور آئین کے تناظر میں موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجودہ اتحادی جماعتوں کے اراکین پر الیکشن دھاندلیوں ،کرپشن اور ٹیکسوں کی عدم ادائیگی جیسے الزامات کی بارش شروع کر دیتے ہیں ان دھرنوں کے شرکاء میں تعلیم یافتہ اور باشعور نوجواں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد ذیاد ہ دیکھائی دیتی ہے ۔ لوگ اپنے بچوں اور فیملیو ں کے ساتھ روزانہ عمران خان کے دھرنوں کا رخ کرتے ہیں وہ لوگ جو دھرنوں میں شرکت نہیں کرتے وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جو باتیں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کر رہے ہیں وہ غلط نہیں ہیں وہ ہمارے حقوق سے ہمیں آشنا کر رہے ہیں ۔قادری اور عمران خان لوگوں کے دلو ں کی آواز بن چکے ہیں اور وہ روزانہ ہمارے دھاندلی یافتہ کرپٹ سیاستدانوں کو سر عام ننگا کر رہے ہیں جو بات چار حلقوں کی دھاندلی سے چلی تھی اب وہ ہر حلقے کی آواز بنتی جارہی ہے۔

لگتا یوں ہے جیسے بات استعفوں سے آگے بڑھ گئی ہے ۔عمران خان اور طاہرالقادری کے مطالبات پر اگر پچاس فیصد بھی عمل درآمد ہوجائے تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن اقتدار کے بھوکے اس ملک میں 1990 ء والی چھانگا مانگا کی سیاست کرناچاہتے ہیں جو70سے ذیادہ ملکی نیوز چینلوں کے ہوتے ہوئے بظاہر ممکن دیکھائی نہیں دیتی ہے ۔

موجودہ الیکشن جو گیارہ مئی 2013؁ء کو ہوئے تھے اگر ان میں بائیومیٹرک سسٹم اور اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاتا تو الیکشن کے نتائج یقینا مختلف ہوتے۔

عمران خان اس ملک کا یقینا وہ واحد سیاستدان ہے۔جو نہ تو منافق ہے اور نہ چور ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اس ملک کے تمام سیاسی پنڈتوں سے پیچا لڑا لیا ہے گندگی کے اس ناپاک تالاب سے کچھ چھینٹے عمران خان پر بھی آئیں گے اسکے باوجود عمران خان نے اس ملک کے متوسط طبقے کی زبان بننے کا بیٹرا اٹھایا ۔عمران خان نے اپنے عمل اور کردار سے وہ ثابت کیا کہ وہ غریبوں کی حقیقی آواز ہے وگرنہ اس ملک میں (Divide & Rule) کا فارمولہ ذیادہ کام کرتا ہے ۔چند دانش سکول بنا دینے سے کیا پورے ملک کے سکولوں کا معیار بہتر ہو سکتا ہے یقینا نہیں بلکہ یہ عمل امتیاز پیداکرتا ہے ۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق ڈالر اپنے گراوٹ کے دنوں میں 80روپے تک آرہا تھا ۔لیکن نواز شریف نے اپنی بزنس کمیونٹی کو تحفظ دینے کی خاطر ڈالر ستانوے یا اٹھانوے پر فکس کر دیا تاکہ ان کی بزنس کمیونٹی کو برآمدات میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔میاں نواز شریف نے اپنے گذشتہ ادوار میں بھی اپنی تما م تر توجہ پنجاب خصوصالاہور تک مرکوز رکھی ۔جبکہ دیگر تینوں صوبو ں کو نظر انداز کیا ۔بلاشبہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اس کے مسائل بھی یقینا ذیادہ ہونگے مگر یہاں کی 80فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے ۔جو وڈیرہ ازم اور طبقات میں تقسیم ہے وڈیرہ شاہی کے ہاتھوں محکوم عوام نے اپنے آقاؤں کی منشا کے مطابق ہی ووٹ دیکر چلے ہوئے کارتوسوں کو دوبارہ دوام بخشا ہے یہ کارتوس غریب عوام کو انسان تو سمجھتے ہی نہیں ہیں بلکہ انہیں کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں ۔

اس ملک میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ دودھ کا نگہبان بلے کو بنایا جاتا ہے سب کو پتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب آتا ہے لیکن کو ئی منصوبہ نہیں کی جاتی بند مضبوط کرنے کی بجائے لاہور کو سوئزر لینڈ بنانے کی تیاریا ں کی جاتیں ہیں یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ بچے کو بھوک لگی ہواور اسے رنگین ٹی وی لا دیں۔حکومت اور دھرنا جماعتوں کی باہمی آنکھ مچولی سے ملک کا اقتصادی طور پر یہ نقصان ہو رہا ہے کل تک پیپلز پارٹی کے وزیراعظم سے استعفے مانگنے والے نہ جانے اپنی باری پر کیوں شرما رہے ہیں نواز شریف جہاں پانچ مطالبات مان چکے ہیں وہاں آدھا مطالبہ مان کر مسئلے کو ختم کریں تاکہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکے ۔مگر وہ ایسا کیوں کرے گے اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے جس کرسی کے لیئے تما م کرپٹ عنا صر ایک مٹھ بن چکے ہیں وہ کبھی کسی کی نہیں ہوتی دھواں ہمیشہ وہیں سے نکلتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہے ۔

اسحاق ڈار قومی اسمبلی میں یہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تحریک انصاف کے ساڑھے پانچ مطالبے مان لیے ہیں نواز شریف کے استعفے والا پوائنٹ اس لیے نہیں مان رہے کہ اس پر تما م جماعیتں پارلیمنٹ میں متفق ہیں کہ نواز شریف کو استعفا نہیں دینا چاہیے کیونکہ اگر ایسا ہو ا تو مستقبل میں کو ئی بھی جماعت چند لوگوں کو اکٹھا کرکے وزیراعظم کا استعفا مانگنا شروع کر دے گی جہاں تک با ت ہے ساڑھے پانچ مطالبات کی تو اگر آپ مطالبات مان رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ ما ن رہے ہیں کہ الیکشن میں ریگنگ ہوئی ہے اور اب آپ اسکی اصلاح کر نا چاہتے ہیں جب پورے الیکشن ہی دھاندلی زدہ ہیں تو پھر حکو مت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔

حکو مت بار بار یہ راگ الاپ رہی ہے کہ چند لوگ پارلیمنٹ پر چڑھائی کر رہے ہیں ان سے میرا سوال یہ کہ کوئی بھی لیڈر جب تک اس کے پاس کو ئی معقول وجہ یا مطالبہ نہ ہو تو وہ اپنے لوگوں کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر اتنے لمبے عرصے کے لیے بھوک ،گرمی بارش اور موسمی سختیاں برداشت کر کے دھرنے میں موجود رہیں ۔جسکی مثال یہ ہے کہ جب موجودہ حکومت اپوزیشن میں تھی۔تو دھرنہ دینے کے لیے یہ لوگ سکیر ٹریٹ پہنچے تو یہ اشرافیہ ایک گھنٹے کی تکالیف برداشت نہ کر سکے اور چلے گئے اسلیئے یہ کہنا کہ چند لوگ اکٹھے کر کے دھرنے کا مطالبہ کرنا محض جھوٹ فراڈ اور غلط بیانی ہے اس میں کو ئی وزن نہیں ہے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کرپٹ جھوٹے اور ظالم حکمران غریب عوام کا پیچھا چھوڑ دیں ۔اور انکو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیں۔

آج کل مولانا فضل الرحمان شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار ظاہر کرنے میں کوشاں ہیں مجھے آج بھی ان کا یہ فقرہ یا د ہے جب 1990 میں بے نظیر کی حکومت میں شامل ہوئے تب تمام مولویوں نے متفقہ فیصلہ دیا تھا کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں اس پر مولانا صاحب سے پوچھا گیا آپ کیسے عورت کی حکمرانی قبول کر رہے ہیں آپ نے فرمایا کہ بے نظیر ایک چھوٹی برائی ہے اور نواز شریف بڑی برائی ہے لہذا میں نے بڑی برائی کو چھوڑ کر چھوٹی برائی کو ترجیح دی ۔کیا آج وہ بتا سکتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کس گنگا سے نہا کر آئے ہیں کہ بڑی برائی ختم ہوگئی ۔ظالموں اسلام کا لبا دہ اوڑھ کر غریبوں کو بے وقوف بنانا چھوڑ دو۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 151114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.