انقلابی مارچ کا زاد راہ

دھرنو ں کے پس پردہ عزائم کے بارے میں اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا حقائق کی تمام پرتیں ایک ایک کر کے کھلتی چلی جا رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ عامتہ الناس کی دلچسپی بھی دھرنوں میں کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔خوش آئند بات یہ کہ جس میڈیا کی کوریج کی وجہ سے ملک بھر میں فرسٹریشن پائی جاتی تھی اس میڈیا نے بھی اب صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گھنٹوں لمبی تقریریں دکھانے کی بجائے دھرنوں کے لیڈروں کی محض وہی باتیں ناظرین کو بتلائی جائیں جن میں کچھ نیا پن ہو کیونکہ گزشتہ تقریبا ایک ماہ سے بار بار وہی باتیں دوہرائی جا رہی ہیں جنہیں سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں۔حکومت کو لوگوں کے حقوق پر توجہ نہ دینے کا الزام دیا جاتا ہے لیکن خود وہ پورے ملک کے حقوق مجروح کرنے کے باوجود اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں۔لوگ اب بخوبی جان چکے ہیں کہ یہ عناصر مہروں کے طور پر ان سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں جو ملک وقوم کی تباہی کے لیے رچائی گئی ہیں۔نہ انقلاب اس طرح آتے ہیں جس طرح لانے کی سعی کی جا رہی ہے نہ آزادی حاصل کرنے کا یہ کوئی طریقہ ہے۔اب دھرنابازوں کو بھی یہ پتہ چل چکا ہے کہ ان کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے ایک کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ایسی دلدل میں پھنس چکی ہے جہاں سے واپسی ناممکنات میں سے ہے جبکہ دوسرے کی عقیدت‘علمیت اورنیک نیتی کا راز بھی فاش ہو چکا ہے انہیں یہ فکر ستائے جا رہی ہے کہ کہیں لوگ ان کے ڈرامے سے اکتا کر چلے ہی نہ جائیں اسی لیے اپنے کارکنوں کی یہ ڈیوٹیاں لگائی جا رہی ہیں کہ وہ لوگوں کو دھرنوں میں لائیں اس کے لیے کے پی کے حکومت کے بھرپور وسائل صرف کیے جا رہے ہیں۔دھرنا بازوں کے پاس اب اپنے فالورز کی تشفی کے لیے کچھ باقی نہیں رہ گیا اس لیے پے در پے جھوٹ بولے جا رہے ہیں ہر روز اک نیا جھوٹ سوچے سمجھے بغیر تراشا جاتا ہے لیکن جلد ہی اس کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے حال ہی میں ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی میر قدوس بزنجو کو نون لیگ کا قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ دھاندلی سے کامیاب ہوئے ہیں لیکن وہ یہ تک نہیں جانتے تھے کہ آواران سے رکن بلوچستان اسمبلی میر قدوس بزنجو کا تعلق ن لیگ سے نہیں ق لیگ سے ہے۔الزامات لگانے کی دھن میں عمران خان نے "ق لیگ "کے رکن کو" ن لیگ " کا قرار دے کر ایک بار پھر اپنی وکٹ خود گرادی۔انہوں نے میر قدوس بزنجو پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ "ن" لیگ کے رکن ہیں اور دھاندلی سے انتخابات جیتے ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہوتی کہ وہ بغیر تحقیق کے سنی سنائی باتوں کو آگے بیان کر دیتے ہیں یا پتہ ہونے کے باوجود جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں انہیں یہ علم بھی نہیں کہ تیز رفتار میڈیا کے دور میں ان کے جھوٹ اب زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔

وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے بھی عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ الزامات لگانے سے پہلے سمجھدار لوگوں سے مشاورت کرلیا کریں، خواجہ آصف کا کہنا تھا چین کی طرف سے پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کی جانی تھی،چین تین بینکوں کے ذریعے اپنی کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کررہا ہے۔ عمران خان کو اگر معاملات کی سمجھ نہ آئے تو سمجھدار لوگوں سے پوچھ لیا کریں۔ چین کی 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے تھر کول پروجیکٹ پر بھی رقم لگنی تھی۔ تھر کے کوئلے سے بجلی کے دو پلانٹ لگائے جائیں گے جب کہ دیگر منصوبوں کے لیے کوئلہ مختلف ممالک سے درآمد کیا جائے گا۔ پاکستان میں 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔ چینی کمپنیاں پاکستان کے معاشی حالات کا جائزہ لے چکی ہیں۔کوئی بھی ملک بغیر سوچے سمجھے بغیر اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرسکتا۔
لیکن کیا کیجئے عمران خان کا ان کے سر پرتو بس ایک ہی دھن سوار ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھ جائیں ان کے اراکین اسمبلی بھی اسلئے ان کے ساتھ ہیں کہ وہ خود کووزراء کی صورت ‘پرٹوکول کے سائے میں جھنڈے لگی گاڑیوں اور اہم عہدوں پر دیکھ رہے ہیں اسی لیے ٹاک شوز میں آئین و قانون کو تسلیم کرنے کے جھوٹے دعوؤں کے باوجود آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور انہیں ملک و قوم کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔عوام کے لیے ناقابل فہم امر یہ ہے کہ آج چودہ ماہ گزرنے پر جس دھاندلی کا شور مچایا جا رہا ہے اس کی یاد انہیں حلف اٹھانے سے قبل کیوں نہ آئی انہوں نے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ انتخابی نظام کی درستگی سے قبل کیوں کیا؟ کون نہیں جانتا کہ عمران خان سب پر اپنے اعتماد کا اظہار کر چکے تھے انہوں نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے درخواست کر کے آر اوز کی تعیناتی کرائی‘سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا‘چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی تقرری کو قبول کیا‘نجم سیٹھی کی تعیناتی پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا انہوں انتخابات کو قبول کر کے حلف بھی اٹھایا حالانکہ وہ اسی وقت کہہ سکتے تھے کہ جب تک دھاندلی کا فیصلہ نہیں کر لیا جاتا وہ اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھائیں گے لیکن اس وقت انہیں کے پی کے میں حکومت بنانے کی جلدی تھا تاکہ یہ موقع ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔وہ جھوٹ بولتے ہوئے یہ باور کرانے کی سعی کر رہے ہیں کہ کسی فورم پر ان کی شنوائی نہیں ہوئی حالانکہ ان کے اراکین نے الیکشن ٹربیونلز کی جانب سے بار بار حاضر ہونے کے نوٹسز کی طرف توجہ ہی نہ دی جو ظاہر کرتا ہے وہ ایک سازش کے تحت گراؤنڈ ہموار کر رہے تھے تاکہ ان کے پاس عوام کے اطمینان کے لیے جھوٹے سچے جواز موجود ہوں۔علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے بھی اب یہ شبہ باقی نہیں رہا کہ جس طرح گزشتہ حکومت میں وہ ایک مہرے کے طور پر انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد آئے تھے اب بھی وہ سازشیوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہوئے خود کو ایک مہرے کے طور پر آگے لائے ہیں انہوں نے شاید خود کو ایک مہرے کے روپ کے لیے ہی تیار کیا ہے انہیں بھی یہ امید دلائی گئی ہے کہ سازش کے کامیاب ہونے کی صورت میں انہیں وزارت عظمی کی دستار باندھ دی جائے گی یوں علامہ صاحب جو پہلے نہ سمجھ میں آنے والے خواب دیکھنے کے عادی تھے اب وزارت عظمی کا خواب دیکھنے لگے اس کے لیے انہوں اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کرنے کی بجائے کنٹینر انقلاب کا راستہ ہی چنا لیکن اس کے جواز کے لیے انہیں چالاک اور شاطر سیاستدانوں نے لاشوں کے حصول کی تجویز دی جسے بنیاد بنا کر وہ انقلاب کا ہوّا کھڑا کر سکیں کیونکہ یہ مشورہ دینے والے جانتے تھے کہ لوگ اس انقلاب کی وجوہات اور جواز کے بارے میں ضرور سوال کریں گے اس لیے واقفان حال کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ایک مخصوص پلاننگ کے تحت ترتیب دیا گیا پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو خرید کر حکام بالا کے احکامات کے بغیر فائرنگ کرائی گئی تاکہ انقلاب کے لیے لاشوں کا زاد راہ دستیاب ہو سکے۔سوال یہ ہے کہ اگر علامہ صاحب انقلاب کے اتنے شائق اور عوام کی فلاح و بہبود کے خواہاں ہوتے تو کینیڈا جانے کی بجائے گزشتہ حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ملک میں رہ کر جدو جہد کرتے اور جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ طے کیا گیا تھا اس پر پیشرفت کی کوشش کرتے۔انہیں چاہیے تھا کہ انتخابات سے پہلے کسی لانگ مارچ کے ذریعے اپنے مطالبات کی تکمیل کو ممکن بناتے اور اپنے مطلوبہ مطالبات سے قبل الیکشن ہونے ہی نہ دیتے اب جبکہ حکومت ٹریک پر چڑھ چکی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا تھا کہ علامہ صاحب ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے میدان میں کود پڑے۔جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد تو اس بارے میں کوئی کلام ہی نہیں ہے کہ انقلابیوں اور آزادی کے نعرے لگانے والوں کے پیچھے کون ہیں۔
Qamar -ud-din zia Ghaznavi
About the Author: Qamar -ud-din zia Ghaznavi Read More Articles by Qamar -ud-din zia Ghaznavi: 2 Articles with 1397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.