جدھر دیکھو لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں اب کیا ہوگا

اپنی سیاسی پارٹی کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں پھوڑ کر باغی جاوید ہاشمی کو کیا ملا، رسوائی اور ذلت اٹھانے کے بعد جاوید ہاشمی جب فاتحانہ انداز و شان سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تو ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر انکا استقبال کیا۔ یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے، دنیا بھر میں باغیوں بے وفائوں اور بے حیائوں پر لعن طعن کی جاتی ہے، مگر جمہوریت کا پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے، جہاں باغیوں بے وفائوں اور بے حیائوں کا بڑی شان و شوکت سے سواگت کیا جاتا ہے، یہی جمہوریت کا حسن ہے، بے وفا‏ئی تو آپ سمجھ گے، مگر بے حیائی سمجھ نہیں آئی ہوگی، ارے بھائی لوگوں جس آنکھ میں حیا ہوتی ہے اس کے دل میں وفا ہوتی ہے، وفا اور حیا کا چولی دامن ساتھ چلتا ہے،

جب آنکھ کا پانی ختم ہوجاتا ہے تو وفا بھی مر جاتی ہے، وفا کے ساتھ آنکھ کی حیا بھی جاتی رہتی ہے، اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہزار باتیں کہے زمانہ میری وفا پہ یقین رکھنا
یہی محبت میری حیا ہے، میری حیا پہ یقین رکھنا،

پاکستان کی پارلیمنٹ کے اندر یہ مناظر عوام پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی ہیں، اور انشاء اللہ آنے والے ادوار میں بھی معتدد بار عوام یہ منظر دیکھیں گے۔ جس زمانے میں ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ ق کے پاس ایک ووٹ کی کمی تھی۔ پیپزپارٹی کی ایک بھاری بھرکم خاتون سے مک مکا ہوگیا۔ اور عین ووٹنگ کے وقت وہ چھلانگ لگا کر اقتدار میں کود گئی۔ پارلیمنٹ میں اسکی چھلانگ پر خوب تالیاں اور ڈیسک بجائی گئی تھیں۔ پھر اس خاتون کو ایک عدد وزارت سے بھی نوازہ گیا تھا۔ یہ ہمارے یہاں کی روایت بن چکی ہیں، ہمارے یہاں سیاسی سودا گرو کو پارٹی سے عوام سے پیار نہیں ہوتا کرسی وزارت اور اقتدار سے بے پناہ پیار ہوتا ہے،

جاوید ہاشمی ن لیگ کے وفا دار مانے جاتے تھے، اب تحریک انصاف میں شامل تھے، وہ اب عمران خان کے وفا داروں میں شامل تھے، دن رات خان صاحب کے ساتھ تھے، ہر کور کمیٹی میں شامل تھے۔ اپنے لیڈر خان صاحب کی ہر سیاسی پالیسی سے آگاہ تھے، اور اپنے لیڈر سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھتے تھے، ہر سیاسی چڑیا کے پر تول لیتے تھے، عمران خان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوتے تھے، تقریر کی باریاں لتیے تھے، تالیاں بجاتے تھے، پندرہ دن عمران خان کی ہاں میں ہاں ملانے کے باوجود انہوں نے اپنے پارٹی لیڈر کے ارادے کو طشت از بام کیا جبکہ دو چار قدم لب بام رہ گیا۔

وہ خاموشی سے کہیں چل دیتے روپوش ہوجاتے، اپنی پارٹی کے اندر آواز اٹھاتے، مگر ایسے موڑ پر ایسا انتخاب انہوں نے کس کے اشاروں پر کیا، ہاشمی صاحب کے پیچھے کون ہے، یہ لوگ اتنے ستم ظرف کیوں ہیں، جب انہیں پتہ ہے کہ چولی پہننے کا ایک مقصد ہوتا ہے، پھر بھی لوگ پوچھتے رہتے ہیں کہ چولی کے پیچھے کیا ہے، اب جاوید ہاشمی کس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے، انکی جو سیٹ خالی پڑی ہے، اس پر عمران خان کوئی دوسرا امید وار کھڑا نہیں کریں گے، اور ن لیگ بھی ارادتا کسی کو کھڑا نہیں کریں گی، بلکہ جیتی ہوئی سیٹ پر ہی انہیں جیتا دیا جائے گا،

پارلیمنٹ میں لایا جائے گا، ایک عدد وزارت سے بھی نوازہ جائے گا ۔ انعامات اور بھی مل سکتے ہیں، سب کچھ مل جائے گا، مگر جاوید ہاشمی اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل نہیں کرسکیں کے، پھر ڈیسک بجانے والے ہی ڈھولک بجائے گے، عزت دینے والے ہی بے عزت کرنے کرنے لگے گے، اقتدار کی دنیا بھی بڑی نرالی دنیا ہوتی ہے قارئین، اس ملک کی تقدیر کبھی بدلے گی یا نہیں، پارلیمنٹ کے اندر میلے ضرور لگتے ہیں، فلاح نے فلاح کا ہاتھ تھام لیا، دلچسپ تقریریں ہونے لگی، ایک دوسرے کے راز فاش کیے جارہے ہیں،
الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہیں، سوئی ہوئی پارلمینٹ کی نیندیں اڑ گئی، بقائے باہمی کے بھاشن وارد ہونے لگے، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی تو فوج سے کوئی پرانا حساب چکانے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں، فضل الرحمن کے دل سے آپریشن ضرب عضب کی کسک جاتی نہیں، فوج تو اپنی ہے، ملک بھی اپنا ہے، نا قص پالیسیاں اور دھڑے بندیاں بھی اپنی ہیں، پھر بھی اپنا ملبہ دوسروں کے صحن میں پھینکنے سے نہ کوئی شرماتا ہے، اور نہ کوئی باز آتا ہے، یہ جو اندر بن ٹھن اور تن کے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ سب فوج کے لائے ہوئے ہیں۔ فوج ازل سے ہی اپنے کام میں مگن ہیں، 6 ستمبر کو جنرل راحیل شریف نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اس پاک سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرکے دم لیں گے، خون کے آخری قطرے تک لڑتے رہیں گے، پورا ملک اس وقت آمین کہہ رہا ہے۔ اور پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہے، جن دہشت گردوں نے ہزاروں گھر اجاڑے لاکھوں دل توڑے عورتوں کو بیوہ کیا بچوں کو یتیم کیا ماں باپ کے سہاروں کو چھینا وہ انشاء اللہ فنا ہوکر رہیں گے، شاہ محمود قریشی نے عمدہ تقریر کی، انکی گل افشانی گفتار کے جوہر کھلنے لگتے ہیں، انکو تو صیف اور تنقید کا ڈھنگ آتا ہے، وہ محض الفاظ کی جگالی نہیں کرتے، مارے مار کے چمکارے، چمکار کے پھر مارے۔

خورشید شاہ نے بھی خوب جوش خطابت دیکھایا بہت سی زنگ آلود زبانیں یکا یک کھلیں، شاہ کے طرفدار غالب کے پرزے اڑاتے رہے،،، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفدار ہی شاہ کو مرواتے ہیں، درخت بظاہر کتنا ہی مضبوط و توانا کیوں نہ ہوں اگر ایک بار ایسے جڑوں تک ہلا دیا جائے تو پھر وہ چھوٹی چھوٹی آندھیوں اور جھکڑوں کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا،،، اتفاق کے اس موسم میں جمہوریت کو سہارا دینے والوں کا ایک دوسرے کے ساتھ نفاق بھی کھل کر سامنے آگیا، یوں لگتا ہے، جیسے سارے کے سارے ایک سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار ہیں، کیونکہ عرصہ سے ایک ساتھ بیٹھنے کی عادت نہیں، تو آوازوں میں تلخی کا عنصر نمایا ہوگا، اندر جاکر ہر سیاسی پارٹی کمزور ہوجاتی ہے، وہ چلے ہوئے مہرے چلانے لگتی ہے، اور بجھے ہوئے کار توس آزمانے لگتی ہے، عوام تھک سی گئی ہیں، جدھر جائوں جدھر دیکھو لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا،

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 60895 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More