سیلاب اور قائد کی برسی
(Mumtaz Khan, Rawalpindi)
گزشتہ روز بابائے قوم قائد اعظم محمد علی
جناح کی 66 ویں برسی انتہائی عقیدت و احترام سے منائی گئی، جمہوریت،سیاست
اورخدمت کے بارے میں ان کی سوچ کیاتھی،عوام آج بھی اپنے قائد کے اعلی اوصاف
اور کردار سے راہنمائی لیتے ہیں میلوں سفرکے بعد انہیں قائد کی انگریزی میں
تقریر سننے کو ملتی اگرچہ وہ اسے سمجھ نہ سکتے مگر اتنے خشوع وخضوع سے سنتے
کہ لاکھوں کے اجتماع میں مکمل خاموشی کا راج ہوتا تھا آج قائد کی شخصیت اور
کردار کے بہت سے گوشے عوام سے اوجھل ہیں چند پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ
افراد تو قائد کے بارے میں جانتے ہیں لیکن وہ عوام جو ان سے عقیدت اور محبت
رکھتے ہیں انہیں اپنے قائد کی شخصیت سے مکمل آگاہی نہیں ہے آج کے حالات اس
امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ عوام کو بتایا جائے کہ بابائے قوم کے نزدیک حکمر
انوں کی کیا خصوصیا ت ہونی چاہیں سیاسی لیڈر کے کیا اوصاف ہونے چاہئیں اور
جمہوریت کے استحکام کیلئے کس انداز سے سب کو کردار ادا کرناچاہیے المیہ تو
یہ ہے کہ قائد کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں آمر کا کوئی
حاشیہ بردار جب بابائے قوم کا تذکرہ کرتا ہے تو شبہ ہو نے لگتا ہے کہ اب
قائد کے افکار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی آمریت کے پرودہ جب مسلم لیگ
کے نام سے جماعتیں قائم کرنے لگیں تو سمجھ لیاجائے کہ اب تاریخ میں گڑ بڑ
کی کوشش ہونے لگی ہیں بابائے قوم پارلیمانی جمہوریت کے حامی تھے عوام کے
منتخب نمائندوں کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے مگر آج دارالحکومت کے دل میں
کھڑا ہو کرایک شخص جس نے ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے
ببانگ دہل کہتاہے کہ ہمیں یہ جمہوریت قبول نہیں ہم انقلاب لائیں گے مگر
بابائے قوم کے نظریات کے داعی سیاستدانوں میں سے کوئی بھی اس کا منہ بند
کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہیں ایک اور شخص منتخب وزیراعظم کو غیر آئینی طریقے
سے گھر بھیجنے کامطالبہ کرتا ہے مگر کوئی اس کے غلط مطالبے کے آگے بند
باندھنے کی کوشش نہیں کرتا بابائے قوم کی روح اسلام آباد سے اٹھنے والی ان
آوازوں کو یقینا سن رہی ہوگی بابائے قوم بیماری کے عالم میں زیارت سے کراچی
لائے گئے مگر کراچی ایئرپورٹ سے انہیں لانے کیلئے جو ایمبولینس بھیجی گئی
وہ راستے میں خراب ہوگئی ایک سازش تھی مگر شاید کسی نے اس کی تہہ تک پہنچنے
کی کوشش نہیں کی لیاقت علی خان شہید کردیئے گئے اگر بابائے قوم طبعی موت نہ
مرتے تو نہ جانے ان کا کیاحشر ہوتا سازشوں کاسلسلہ تو ان کی زندگی میں ہی
شروع ہوگیاتھا یہ سازشیں آج تک جاری ہیں ایک سازش گزشتہ دنوں گھر کے بھیدی
جاوید ہاشمی نے منکشف کردی نہ جانے زیر زمین اور کتنی سازشیں چل رہی ہوں گی
اﷲ وطن عزیز کے عوام پر رحم کرے اور انہیں سازشوں سے محفوظ رکھے۔بابائے قوم
کا پاکستان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے،بھارت کی جانب سے اچانک سیلابی
پانی چھوڑا گیا جس کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب سے کروڑوں لوگ متاثرہوئے
ہیں،پنجاب اور کشمیر میں545 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ ہزاروں لوگ زخمی ہوئے،
لوگوں کے گھروں میں روز مرہ کی اشیا اور راشن خراب ہوگیا، کئی لڑکیوں کے
جہیز بھی بہہ گئے یا خراب ہو گئے۔ روزانہ کی دیہاڑی لگانے والے مزدورں سمیت
چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کی دکانوں اور فیکٹریوں میں لگی مشینری کو
بھی نقصان پہنچا ہے۔ شہر سے دیہاتوں کو جانے والی رابطہ سڑکیں اور پل ٹوٹ
پھوٹ چکے ہیں جبکہ انھی ٹوٹی سڑکوں پر بجلی کی تاریں بکھری پڑی ہیں۔ اِس
دوران لوگو ں نے کثیر منزلہ گھروں والے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے
گھروں، اونچے ٹیلوں اور درختوں غرض جہاں جگہ ملی ٹھکانہ بنا لیا۔کئی علاقوں
میں پانی اتر چکا ہے تو متاثرین نے اپنے گھروں کا رخ کیاہے اور وہاں اپنی
فصلوں، مال مویشی، گھروں اور سامان کو پہنچنے والے نقصان پر افسردہ اور
پریشان ہیں۔ اِن علاقوں میں سیلابی پانی سے بنیادی صحت کے مراکز اور سکولوں
کی عمارتیں بھی مخدوش ہوگئی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وزیراعظم نواز
شریف ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سیلاب
متاثرین کی مدد کیلئے دن رات ایک کررہے ہیں، پاک فوج جہاں ایک طرف آپریشن
ضرب عضب میں مصروف ہے تو دوسری طرف سیلاب متاثرین کیلئے بھی سب سے بڑھ چڑھ
کراپنا فریضہ انجام دے رہی ہے،اب تک 22 ہزار سے زائد لوگوں کو ہیلی کاپٹروں
،کشتیوں اور تیراکی ٹیموں کے ذریعے خطرناک علاقوں سے نکالا گیا،حکومتی
مشینری،فوج کی ٹیمیں اوربعض فلاحی تنظیموں نے متاثرین کیلئے میڈیکل کیمپ
لگائے ہیں اورمتاثرین میں امدادی اشیاء اور کھانا وغیر فراہم کیا جارہا
ہے،دریائے چناب میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا اس وقت صوبہ پنجاب کے وسطی
علاقوں سے گزرتے ہوئے جنوبی علاقوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ضلع حافظ آباد،
چنیوٹ اور جھنگ کے دیہی علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد اب سیلابی ریلے کا
رخ جنوبی پنجاب میں مظفر گڑھ اور ملتان کی جانب ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق
ممکنہ سیلاب کی وجہ سے ملتان اور مظفر گڑھ کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے
افراد کو محتاط رہنے اور دریا کے قریبی علاقے خالی کرنے کی ہدایات جاری کی
گئی ہیں۔آئندہ چند دنوں تک سیلاب صوبہ سندھ میں داخل ہو گا جہاں دریائے
سندھ کے کناروں پر آباد آٹھ لاکھ آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا
احکامات جاری کیے گئے ہیں۔سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں میں امدادی ٹیموں کو
پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور ان علاقوں میں پینے کے صاف پانی اور
ادویات کی قلت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں تو دوسری جانب اسلام آباد میں
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے بھی جاری ہیں،ان دھرنوں سے پہلے ہی
ملکی معیشیت کو ایک ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے ،ایم کیو ایم کے
سربراہ الطاف حسین نے بھی اپیل کی ہے کہ دھرنا پارٹیاں دھرنے ملتوی کرکے
سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے فوری طور پر میدان عمل میں آئیں ،اس مشکل
صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں پر امتحان کی گھڑی ہے جو جماعت آگے بڑھ چڑھ
کر سیلاب میں گھرے ہوئے عوام کی مدد کرے گی عوام آئندہ انتخابات میں اس
جماعت کی مدد ووٹ کی طاقت سے کریں گے اور جو جماعت خدمت کے عمل میں پیچھے
رہے گی وہ سب سے زیادہ نقصان میں رہے گی۔ |
|