اپنے بارے میں خود رائے معلوم کیجئے

دلیپ کمار اور راجکپور ہندوستانی فلمی صنعت کے دو معروف نام ہیں راجکپور اداکار کے ساتھ فلمساز اور ہدایت کار بھی تھے ۔اب سے بیس پچیس سال قبل کی بات ہے انھوں نے اپنی ایک فلم میں ہیروئن ادا کارہ پر ایک عریاں سین فلمبند کرایا ۔ابھی یہ فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی فلمی دنیا میں اس پر ایک کہرام مچ گیا یا یہ شور جان بوجھ کر مچوایا گیا تاکہ اس فلم کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو اس سے بھی بیس سال پہلے بھارتی فلمی دنیا اس پر بھی بڑی لے دے ہوئی تھی جب پہلی بار کسی فلم میں بوس و کنار کا منظر فلمایا گیا تھا پھر یہ بعد میں ہر فلم کا لازمی جز بن گیا ۔بہر حال فلم بین لوگوں نے اس سین کو نکالنے کا مطالبہ کیا راجکپور نے یہ مطابہ منظور نہیں کیا ،بھارتی سنسر بورڈ سے مطالبہ کیا گیا کہ اس فلم کو پاس نہ کیا جائے لیکن سنسر بورڈ کیوں اس مطالبے کو ماننے والا کہ اس کے مقاصد تو کچھ اور ہیں جو ایک مرتبہ کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے یہ بیان دیا تھا کہ ہماری ثقافت نے پاکستانی نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اس ثقافت نے اپنا سکہ جمادیا ہے چنانچہ بھارتی فلمی سنسر بورڈ نے بھی اس فلم کو پاس کردیا حسب توقع اس فلم نے بہت رش لیا ایک دن اس فلم کی وہ اداکارہ جس پر یہ عریاں منظر فلمایا گیا تھا خود برقعہ اوڑھ کر یہ فلم دیکھنے چلی گئی فلم جب مذ کورہ سین آیا تو اس وقت سینما ہال میں جو ہوٹنگ ہوئی اور جس طرح سے جذباتی نوجوانوں نے نا شائستہ غیر معیاری اور غلیظ جملے ادا کیے اس نے اس اداکارہ کے چودہ طبق روشن کر دیے وہ فلم ادھوری چھوڑ کر باہر آگئی اور دوسرے دن ایک پریس انٹرویومیں اس نے کہا کہ مجھے معلوم نہ تھا میرے اس سین کے اتنے دوررس اثرات ہوں گے ورنہ میں اس کی فلمبندی سے انکار کردیتی اور آئندہ وہ ایسے مناظر نہیں فلمائے گی ۔ ایک پرانے قاری کی حیثیت سے یہ تمام تفصیل اخبارات ہی میں پڑھی تھیں۔یہ واقعہ میں اس لیے نقل کیا کہ عمران خان اور جناب مولانا طاہر القادری دونوں حضرات اس اداکارہ سے ہی کچھ سبق حاصل کریں اور بھیس بدل کر اسلام آباد و پنڈی کے چائے خانوں میں ،پارکوں میں عوامی بیٹھکوں میں جا کر اپنی اپنی دھرنیوں کے بارے عوام کی رائے معلوم کریں کہ لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں عوام آپ کے مطالبات کے تو ہامی ہیں لیکن اتنی طویل جدوجہد میں وہ آپ کے ساتھ چل نہیں سکتے، اس لیے کہ آپ لوگ دیگر سیاسی جماعتوں کوچھوڑیے اپنے کارکنا ن اور اپنی کور کمیٹی کے ارکان کی بھی بات نہیں مان رہے تو جن عوام کے لیے آپ نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں ان عوام ہی کی بات سن لیں اور مان لیں ،چکن بریانی بہت اچھی ڈش ہے لیکن اگر ذائقے کی وجہ سے آپ اسے کھاتے ہی چلے جائیں تو بدہظمی ہو سکتی ہے ان دھرنوں کی وہ جاذبیت جو اب سے دو ہفتے قبل تھی آج نہیں ہے ہمیں تو یوں لگتا ہے یہ حضرات کنٹینر میں نہیں بلکہ اپنی انا کے خول میں بند ہیں آپ روز کتنی ہی خوبصورت تقریر کر لیں ایک دن اور دو دن کے وعدے پر کہ اب ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے کہ لولی پاپ سے آپ اپنا اعتماد بحال نہیں کر سکتے ۔قوم کو اس حوالے سے خوشخبری کی ضرورت ہے ۔مذاکرات کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے ایک ہفتے سے یہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ چھ میں سے ساڑھے پانچ مطالبات منظور کرلیے گئے ہیں قوم کو بتایا جائے وہ آدھا مطالبہ کیا ہے جو حکومت منظور کرنے سے قاصر ہے ۔ایک ٹی وی انٹرویو میں تحریک انصاف کے اسد عمر بتارہے تھے کہ ہم نے حکومت کے کہنے پراپنے مطالبات کی ترتیب بدل دی جو پہلا مطالبہ وزیر اعظم کے استعفے والا تھا اسے ہم نے نمبر چھ پر کردیا اب یہ مطالبات تین حصوں میں تقسیم ہو گئے پہلے حصے میں آئندہ کے لیے الیکشن کی اصلاحات کی تجاویز ہیں دوسرے حصے میں 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کچھ سیٹوں سپریم جوڈیشنل کونسل کے ذریعے سے تحقیقات کرانا مطالبات کا تیسرا حصہ کے اگر دھاندلی ثابت ہو جائے تو وزیر اعظم استعفا دے دیں اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل یا نگراں قومی حکومت بنا کر مڈٹرم الیکشن کروائیں جائیں مذاکرات کی گاڑی استعفے پر رکی ہوئی ہے میری تجویز ہے کہ ان تمام مطالبات کو ایک پیکج کی شکل میں منظور کرنے کے بجائے جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہو اس پر جزوی معاہدہ کرلیا جائے اور ادھر روزآنہ دھرنے کی مدت کو کچھ کم کردیا جائے یعنی ہفتے میں چار دن دھرنا دیا جائے گا اگر حکومت تمام مطابات مان لیتی ہے دھرنا ازخود ختم ہو جائے گا لیکن چونکہ ایک طرف سے استعفے کا مطالبہ ہے تو دوسری طرف سے انکار ہے ایسی صورت میں ڈیڈ لاک کو ختم کرکے قسطوں میں جتنے نکات حکومت مان لے اتنی ہی اقساط میں دھرنے کا دورانیہ بھی کم کر دیا جائے آپ حکومت سے آئندہ کے لیے الیکشن میں اصلاحات کے مطالبات منوالیں اسی سے قوم کو بہت بڑی خوشخبری مل جائے گی ۔اب جہاں تک 2013کے الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ ہے اس پر بھی مذاکراتی ٹیموں میں بہت حد تک اتفاق ہو چکا ہے اگر تیس نشستوں پر ریکارڈ چیک کیے جاتے ہیں اور ان میں سے بیشتر پر انگوٹھوں نشانات سے دھاندلی پکڑی جاتی ہے تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ؟ایک رائے یہ ہے کہ پورے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جائے اسمبلی تحلیل کردی جائے اور کسی غیر جانبدار باڈی یا قومی حکومت کے تحت نئے انتخابات کرائے جائیں جب کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ صرف ان ہی سیٹوں پر انتخابات کرادیے جائیں یہاں پر بات اٹکی ہوئی لگتی ہے ایک مسئلہ ان مذاکرات میں ہونے والے معاہدے کی ضمانت کا ہے جماعت اسلامی کے سراج الحق صاحب کا کہنا ہے پارلیمنٹ اس معاہدے کی ضامن ہو سکتی ہے اگر نواز شریف صاحب دھاندلی ثابت ہو جانے کے باوجود بھی استعفا نہیں دیتے ہیں تو پھر دیگر جماعتوں کو بھی دھرنے دینے والوں کا ساتھ دینا چاہیے چاہے یہ دھرنا ہفتے میں ایک روز کے لیے ہو جب تک وزیر اعظم صاحب استعفا نہیں دیتے تو تمام جماعتوں کا یہ مشترکہ دھرنا ہونا چاہیے پوری قوم اس وقت مشکلات اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے سیلاب کی تباہ کاریوں نے اور نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔دونوں طرف کی ضد اور انا نے ملک کی سیاست اور معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43723 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.