اسلام آباد:دھرنا سیاست سے قانون شکنی تک!
(عابد محمود عزام, karachi)
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد
میں مچائی جانے والی دھماچوکڑی دوسرے مہینے میں داخل ہوچکی ہے، لیکن ابھی
تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا اور معاملہ جلدی حل ہوتا دکھائی بھی نہیں
دے رہا، اس لیے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، عوامی
تحریک اور تحریک انصاف کے سربرہان کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کے خاتمے تک یہاں
سے نہیں جائیں گے۔ دھرنے والے دونوں رہنماﺅں کے کافی سخت اور مشتعل بیانات
آنے کے بعد بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ دنوں میں
دھرنوں میں نئی جان ڈالنے کے لیے مزید کمک منگوائی جائے گی اور معاملات کو
جان بوجھ کر تصادم کی جانب دھکیلا جائے گا، تاکہ حکومت مجبوراً طاقت کا
استعمال کرے، جس کے نتیجے میں حکومت کو ختم کرنے کا جواز فراہم کیا جاسکے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت تو اپنے رویے میں نرمی لاکر معاملات کو کافی حد
تک سدھارنے کی کوشش کر چکی ہے، لیکن دھرنا سیاست کرنے والوں کی سوئی ساڑھے
پانچ مطالبات مانے جانے کے بعد بھی وزیر اعظم کے استعفے پر ہی اٹکی ہوئی
ہے، حالانکہ پی ٹی آئی کے صدر جاوید ہاشمی کے مطابق اگست میں ” مارچ“ کے
وقت وزیراعظم کا استعفیٰ مطالبات میں شامل ہی نہیں تھا، اس کے باوجود اس
مطالبے کو مرکزی مطالبہ بناکر پوری قوم کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں کئی دن سے دھرنے دے کر ملک کو کھربوں
کا نقصان پہنچانے اور پوری قوم کو پریشانی میں مبتلا کرنے والوں کو چاہیے
کہ اپنے مطالبات کو قانونی طریقے سے منوانے کی کوشش کریں نا کہ غیر قانونی
طریقے سے، کیونکہ دھرنا سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کے
لیے ریاستی اداروں پر دھاوا بول کر قومی نشریاتی ادارے ، پارلیمنٹ اور دیگر
اہم مقامات کر حملہ کیا، جو سراسر غیر قانونی و غیر آئینی تھا۔ پی ٹی آئی
اور پیٹ نے پہلے حملہ کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
ریاستی اداروں پر دھاوا بولنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن جب
حکومت نے تصاویر اور دیگر ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد پی ٹی آئی اور پی اے
ٹی کے کارکنوں کو گرفتار کیا اور اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پی ٹی آئی
اور عوامی تحریک کے 100 کارکنوں کو مبینہ طور پر ریاستی اداروں اور پی ٹی
وی کی عمارت پر حملے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کر کے 14
روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر ایڈیالہ جیل بھیجا، دونوں جماعتوں نے یہ کہتے ہوئے
مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا کہ حکومت نے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا ہے،
حالانکہ دونوں جماعتون نے پہلے ریاستی اداروں پر اپنے کارکنوں کے ملوث ہونے
سے انکار کیا تھا۔
ہفتے کے روز پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاری کے وقت ان کے دیگر ارکان نے پہلے
پولیس کے ساتھ تصادم کرتے ہوئے ان کی گاڑیوں کے ٹائروں سے ہوا بھی نکال دی
اور پولیس کی گاڑی کو بھی روک لیا، جو کار سرکار میں مداخت کے زمرے میں آتا
ہے۔ جس پر پولیس نے پی ٹی آئی کے بعض رہنماﺅں کو بھی گرفتار کیا، لیکن
اتوار کے روز عدالتی حکم کے بعد اڈیالہ جیل سے پاکستان تحریک انصاف اور
پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سمیت 600 سے زاید افراد کو رہا کیا گیا۔
جبکہ اس سے پہلے ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
پولیس کی تحویل سے تحریک انصاف کے ملزمان کو زبر دستی چھڑا کر لے گئے تھے۔
عمران خان اور ان کے ساتھ موجود کارکنوں نے پولیس اہلکاروں پر دھونس جمائی
اور زبردستی چابیاں چھین کر اپنے ساتھیوں کی ہتھکڑیاں کھولیں اور آزاد
کرایا۔ عمران خان مسلسل اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں پر برستے رہے اور ان
کے کارکن قانون نافذ کرنے والوں کو دھمکیا ں دیتے رہے۔ یاد رہے اس سے پہلے
”نئے پاکستان“ کے بانی عمران خان نے قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس کے
سربراہ کو اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر یہ دھمکی دی تھی کہ اسلام آباد میں
کارکنوں پر تشدد کرنے والے پولیس افسران کے نام ویب سائٹ پر ڈالے جائیں گے،
جبکہ آئی جی اسلام آباد طاہرعالم اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو جیل میں
ڈالیں گے۔ جس پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر پولیس حراست
سے کارکنان کو چھڑانے پر تھانہ بنی گالہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ترجمان
اسلام آباد پولیس نعیم احمد کے مطابق مقدمہ تھانہ بنی گالہ میں عمران خان
کے خلا ف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ عمران خان نے بنی گالہ اپنی رہائش گاہ پر
جاتے ہوئے پولیس کی حراست سے پی ٹی آئی کے 15 کارکنوں کو چھڑوایا تھا۔
مبصرین نے ”نئے پاکستان“ کے بانی کے اس قسم کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے
ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کرنے سے وہ اپنے کارکنوں میں قانون کو توڑنے کا
رجحان پیدا کر رہے ہیں، حالانکہ انہیں اپنے کارکنوں کو قانون کی پاسداری
کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ اتوار کے روز پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ
طاہر القادری نے بھی قانون شکن اقدام کرتے ہوئے کرنسی نوٹوں پر ”گو نواز گو
مہم“ لکھ کر حکومت کے خلاف ایک اور مہم کا آغاز کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ
اسحاق ڈار نے عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے اعلان پر تنقید کرتے
ہوئے کہا کہ تحریر شدہ کرنسی نوٹ ناقابل قبول ہوں گے، کرنسی نوٹوں پر کسی
بھی قسم کی تحریر لکھنا غیر قانونی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا
کہنا تھا کہ کرنسی نوٹوں پر گو نواز گو لکھنے سے اس کی قیمت صفر ہوجائے گی۔
طاہر القادری کے کرنسی نوٹوں پر گونواز گو لکھنے کے اعلان پر اسٹیٹ بینک نے
ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شہری کرنسی نوٹ پر کسی بھی قسم کا نعرہ نہ
لکھے، سیاسی نعرے لکھے ہوئے کرنسی نوٹ قبول نہیں کریں گے۔ دوسری طرف معاشی
ماہرین کا کہنا تھا کہ کرنسی نوٹ پر کچھ بھی لکھنا جرم ہے، کرنسی نوٹ پر
سیاسی نعرہ لکھنا حکومت نہیں، ریاست کے خلاف ہے۔ ماہرین کے مطابق طاہر
القادری کا کرنسی نوٹ پر گو نواز گوکا نعرہ لکھنا بچگانہ حرکت ہے۔ شدید رد
عمل کے بعد طاہر القادری نے کرنسی نوٹوں پر ”گو نواز گو“ لکھنے کی مہم ختم
کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہر ایس ایم ایس، ای میل اور
ہر ٹویٹ پر ”گو نواز گو“ لکھا جائے۔
ملک میں موجودہ سیاسی بحران میں سراج الحق فریقین کے درمیان رابطہ کار کا
کردار ادا کر رہے ہیں اور فریقین سے سیاسی تعطل دور کرنے کا مطالبہ کر رہے
ہیں۔ کئی پارلیمانی جماعتوں کے سیاستدانوں پر مشتمل ایک چھ رکنی جرگے کے
سربراہ کی حیثیت سے سراج الحق کو فریقین پر درمیانی راستے کی تلاش کے لیے
زور دیتے دیکھا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں موجودہ
سیاسی بحران میں جس طرح شدت آتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جماعت اسلامی اب
اپنے لیے کسی ایک فریق کا انتخاب کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کے بعض عہدے
داروں کے مطابق اب جبکہ احتجاجی جماعتوں اور حکومت، دونوں ہی نے انتہائی
سخت مؤقف اختیار کرلیا ہے، چنانچہ جماعت اسلامی کی قیادت کو لازماً یہ
فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس جنگ کے میدان سے باہر رہے یا پھر کسی ایک فریق کی
مکمل حمایت کا راستہ اختیار کرے۔ جماعت اسلامی کے امیر کے مطابق اس سیاسی
بحران میں جماعت کے لیے غیرجانبدار رہنا بہت زیادہ ضروری تھا۔ لہٰذا
مذاکرات کے ذریعے کیا جانے والا معاہدہ ہی موجودہ سیاسی تعطل کا واحد حل
ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا کہ عمران
خان نے انہیں کہا تھا کہ سپریم کورٹ حکومت کو برطرف کردے گی۔ انہوں نے کہا
کہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں، جس میں سپریم کورٹ کو حکومت کو برطرف کرکے
نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کا اختیار دیا گیا ہو۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ملک
میں مارشل لا کے نفاذ کی صورت میں بغاوت پھوٹ پڑے گی۔ میں یہ نہیں کہوں گا
کہ موجودہ سیاسی بحران کسی ”اسکرپٹ“ کا حصہ ہے، تاہم کچھ ریٹائرڈ جنرل کچھ
زیادہ جلدی میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) حمید گل نے انہیں ایک ہفتہ
قبل کال کرکے کہا تھا کہ یہ حکومت کی ”آخری رات“ ہے، جبکہ شاہ محمود قریشی،
جہانگیر ترین اور سیف اللہ نیازی راولپنڈی کے متعدد دورے کرچکے ہیں۔ وہ
عمران خان کو پہلے ہی بتاچکے تھے کہ نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے۔ عمران
خان کو تین ماہ کے دوران انتخابات کی امید چھوڑ دینی چاہیے۔ پاکستان پیپلز
پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کہنا تھا کہ جمہوریت کو
عسکریت پسند سوچ سے خطرات لاحق ہیں، جو اپنا ایجنڈا تھوپنا چاہتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ سے دیے جانے والے دھرنوں کی وجہ سے ملک کو
کھربوں ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے، جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، اس نقصان
میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور قوم کی پریشانی بھی بڑھ رہی ہے، بعض سیاسی
حلقوں کی جانب سے اس بحران پر قابو پانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی
دھرنے والوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ بحران ختم نہیں ہوسکا۔لہٰذا فریقین
کو چاہیے جلد از جلد اس بحران پر قابو پا کر ملک کو ہونے والے نقصان سے
چھٹکارہ دلایا جائے۔ملک اس وقت سنجیدہ تصادم کی سیاست کا متحمل نہیں
ہوسکتا، بلکہ ملک کو سنجیدہ سیاست کی ضرورت ہے۔
|
|