یہ قبل مسیح کا قصہ نہیں صرف چودہ سو برس پہلے کی
بات ہے کہ مکہ کی پہاڑی پر چڑھ کر اﷲ کے رسولؐ اہل مکہ سے مخاطب ہوتے ہیں
اور سوال کرتے ہیں‘’’ کیا میں نے کبھی آپ سے جھوٹ بولا ؟جواب آتا ہے اے
محمدؐ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور آپ جو کہیں گے سچ کہیں گے۔ یوں اﷲ کے
رسولؐ نے سب سے پہلے لوگوں سے اپنے بارے میں سچائی اور کردار کی گواہی لی
اور پھر توحید کا پیغام دیا۔
سیرت رسولؐ کا یہ حوالہ اس لئے دے رہا ہوں کہ ہمارے اکثر دانشور اور مفکر
انقلاب اور تبدیلی کی بات تو کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی
سماج میں رہنمائی اور رہبری کے لئے شعلہ بیانی اور شخصی مقناطیسیت ایک حد
تک معاون ہوسکتے ہیں لیکن شخصیت کی یہ خوبیاں اس وقت خامیاں بن جاتی ہیں جب
ڈھیلے کردار اور قول و فعل کے تضاد عوام کے سامنے آنے لگتے ہیں۔
لامحالہ ڈاکٹر طاہر القادری کی شعلہ بیانی اور منطق کے سامنے شائد ہی کوئی
ٹھہر سکے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق ڈاکٹر قادری کی تقریریں سن کر
برسوں سے پختہ وفاداریاں بھی بدل لینے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے خطاب کے
عروج پر ہوتے ہیں اور گریہ و زاری کی لہر اٹھاتے ہیں تو پتھر دل بھی موم
ہوجاتے ہیں۔ بیبیاں دھاڑیں مار کر روتی ہیں اور آہنی سینوں کو بھی پسینے
آنے لگتے ہیں۔ تقریر و تحریر کے محاذ کے فیلڈ مارشل قبلہ قادری صاحب کو بس
یہی ایک فن آتا ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے اس فن کی بُنیاد پر ملک
میں ایک بہت بڑی تبدیلی بلکہ انقلاب لے آئیں گے اور جمی جمائی حکومتوں کے
تختے اُلٹ دیں گے۔’’سٹیٹس کو‘‘ کوتوڑ دیں گے اور پسماندہ طبقات کو اٹھا کر
ایوان اقتدار میں لے آئیں گے اورمقتدر طبقات کو پاتال میں پہنچا دیں گے۔ ان
کی تنظیمی صلاحیتیں بھی قابل قدر ہیں۔ انقلابی کونسلوں کا تصور ہو یا
اشتراکی جمہوریت کا نظریہ۔سب اپنی جگہ قابل غور پہلو ہیں لیکن جو شخص اس
انقلاب کا دعوے دار ہے اس کا ذاتی کردار کیا ہے۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب بار بار
اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا۔بلکہ اﷲ
اور رسولؐ کی عزت کی قسم کھا کر وہ اعلان کرتے ہیں کہ ’’اگر میں جھوٹ بولوں
تو خدا مجھے موت دے دے‘‘۔ لیکن کیا کیا جائے جدید ٹیکنالوجی کا۔اب تو انسان
کی سرگوشی بھی ریکارڈ ہوجاتی ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے وہ
کلپس چلائے ہیں جو ڈاکٹر طاہر القادری کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔
جو شخص سرعام جھوٹ بول سکتا ہے وہ ہلچل تو پیدا کرسکتا ہے لیکن کو ئی
تعمیری انقلاب اس کے مقدر میں نہیں ہوسکتا۔ انسانوں کی رہبری کا پہلا تقاضا
سچ ہوتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کے معتقدین میں سے چھوٹے موٹے معاشی مفادات کے اسیر
لوگ ہیں‘ سیاسی طور پر اہمیت کے خواہشمند نوجوان ہیں یا ’’بغض معاویہ‘‘ میں
وقتی طور پر ساتھ کھڑے ہوجانے والے دوغلے کردار کے سیاسی پنڈت ہیں۔دھرنے
دھرے رہ جائیں گے۔ڈی چوک پر کچی بستیوں کا نقشہ پیش کرنے والی قادری کالونی
اُجڑ جائے گی اور لوگ اپنی حسرتوں کا ماتم کرتے ہوئے بے نیل ومرام یہاں سے
لوٹ جائیں گے۔مصطفوی انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کو باکردار قیادت کی ضرورت
ہوتی ہے۔ جو بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے پاس نہیں ہے۔
کیا عمران خان اپنے کنٹینر پر کھڑے ہوکر لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں ’’اے اہل
اسلام آباد کیا آپ میرے صاف اور شفاف کردار کی گواہی دیں گے؟‘‘وہ ایسا ہرگز
نہیں کرسکتے۔پھر وہ تبدیلی کیسے لاسکتے ہیں۔ وہ کسی ’’فرعون‘‘ سے ’’قطبی
قبیلے‘‘ کو نجات کیسے دلا سکتے ہیں۔جب ان میں ’’موسیٰ‘‘ والی کوئی صفت ہی
نہیں تو پھر وہ اپنی مقناطیسی شخصیت سے آزاد لبرل دوشیزاؤں کے دلوں میں
ہلچل تو مچا سکتے ہیں ’’فرعون‘‘ کو شکست نہیں دے سکتے۔
یہ نہیں کہ عمران اور قادری کے مدمقابل پارلیمان میں براجمان چہروں سے
تقویٰ اور تدبر کی شعائیں پیدا ہوتی ہیں۔ انقلابی اور انصافی فلسفے مکمل
طور پر ٹھیک ہیں لیکن ان فلسفوں کو دلوں میں اتارنے کے لئے جس شخصی کردار
کی ضرورت ہے اس کا ماخذ اسوہ رسولؐ ہے۔ صالحیت مصنوعی طریقوں سے پیدا نہیں
کی جاسکتی اس کے لئے افرادکار عمل کی سان پر اپنے قول و فعل کو کستے رہتے
ہیں اور عوام ان سے غیر مشروط طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں پھر انقلاب آجاتے
ہیں۔امام خمینی اور مہاتیر محمد کو کنٹینروں ‘لاؤڈ سپیکروں ‘قوالوں اور
گویّوں کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں اور شاہوں کے
محلات لرزنے لگتے ہیں۔ |