ہماری بے چینی اور اضطراب بھی کس قدر الم انگیز اور غم
افزاہے کہ فرقہ پرست تو کجاہندوستانی جمہوریت کے پاسبان ومحافظ بھی ہم
پرفقرہ بازی اور جذبات سے دل لگی کو اپنا مذہبی اور قومی فریضہ خیال کرتے
ہیں جب کہ اس امر کا مکمل یقین ہے کہ شوالہ جمہوریت کے عقیدت مند بلاتفریق
مذہب و ملت ،رنگ و نسل اور لسانی اور عمرانی سرحدوں اور بھید بھاوکو بالائے
طاق رکھ کر تما م ہندوستانی ہیں خواہ وہ حرم کے اسیرہوں یا پھر دیر کے
پجاری وہ چاہے خانقاہ میں ’’اﷲ ہو‘‘کی صدائے ہستی رسالگاتے ہوں یا پھر مٹھ
میں تصورجاناں میں گم ہوں مگر ان کا دل اسی خاک ہند کو اپنے لیے ’’رہ
گذرعشق ‘‘تصور رکرتا ہے ،اسی کو مولد کہتا اور اسی کو اپنا مدفن بھی لیکن
یہ امر کم افسوسناک اور تلخ رسا ہے کہ باربار قوم مسلم کے جذبات کو
برانگیختہ کیا جاتا ہے اور ایک فرقہ کو مذہبی غیرت دلا کر قتل و خون اور
مار کاٹ پر اکسایابھی جاتا ہے اولا ًتو کسی مذہبی جذبہ کی پامالی پر ہی
گرفت ہونی چاہیے مگرخاموشی اور پراسرارخاموشی نے یہ بھی اجازت دے دی کہ قتل
وخون اور ما رکاٹ پراکسایا جائے نتیجتاً اس فعل قبیح کو انجام دینے والے
اپنے کارخیر میں مشغول ہیں اور مو جودہ حکومت خاموش سرتخت اس نیرنگی وقت کا
تما شہ دیکھ رہی ہے گویا زبان حال سے کہہ رہی ہوکہ
ہمت قاتل بڑھانا چاہیے
زیر خنجر مسکرانا چاہیے
یو گی آدتیہ ناتھ جو بی جے پی کے گورکھ پور سے ممبر پارلیا منٹ ہیں اور
سوئے اتفاق سے موصوف گورکھ دھام جیسے عظیم مذہبی مرکز کے سربراہ اور روح
رواں ہیں یعنی ایک مٹھ کے مہنت بھی ہیں لاکھوں افراد کے آستھا کے مرکز ہیں
اور شردھالوؤں کی اصلاح و تربیت نیز اخلاق فاسدہ سے گریز اور اوصاف حمیدہ
کی ترغیب و تلقین کی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پرہے جہاں وہ وعظ وارشاد کے
ذریعہ اپنے مریدین کی اصلاح کرتے ہیں وہیں ان پر یہ بھی ذمہ داری عاید ہوتی
ہے کہ وہ ہندوستانی کی عظمت و رفعت اور آپسی اخوت و مروت کے پاٹھ پڑھاتے
مگریہ کیا کہ ایک نام نہاد مصلح اور خود ساختہ مرشد نے ایسے نازیبا کلمات
کہہ ڈالیں جو کسی بھی طرح سے ایک مہنت کے لیے زیبا نہیں ہے انھوں نے اسی پر
بس نہیں کیا بلکہ غفلت شعاری ،بے مہری نیز رعونت و تکبر کی تمام سنتیں تازہ
کر ڈالیں ان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک نہیں ہے بلکہ وہ کاردیگرکو ہی
اپنی ذمہ داری خیال کرتے ہیں اور اپنی شعلہ نوائیوں سے حر م کے اسیروں کے
کاشانہ کو خاکستر کردینااپنا مذہبی فریضہ خیال کرتے ہیں آخر یہ ہوتا کیو ں
ہے ؟؟کہ وہ اپنے اس فعل سے باز نہیں آتے ہیں ان کا مذہب تو انسانیت کادرس
دیتا ہے مگر وہ کیسے مذہبی شخص ہیں کہ مذہبی احکامات اور نظریات کے مخالف
ہیں؟جودھااکبر کے عشق میں گرفتار ہوئی تھی یا پھر اکبر از خود
جودھاپرفریفتہ ہو گیا تھایہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اس سے قطع نظر جودھا
اکبر کے معاشقہ کو تعصب کی نظر سے دیکھنا کس امر کی طرف اشارہ ہے ؟اور پھر
مزید ستم یہ کہ بداہتہً کہا کہ اب کوئی جودھااکبر سے ساتھ نہیں جائے گی
گویا انھوں نے یک جہتی اور دو دلوں کے رشتہ کوقوم کی عزت نفس کا مسئلہ قرار
دیا انھوں نے جہاں ایک طرف اس رشتہ کے ذریعہ غیرت دلائی تو وہیں اس مبینہ
غیرت کو مشتعل کرنے کا بھی فریضہ انجام دیا ہے کہ ’’اب دشٹ سکندراپنی بیٹی
چندرگپت کو دے گا دینے کیلئے تیار رہے اب ہماری لینے کی باری ہے ‘‘اس قول
سے جس معنی کا اظہا رہو رہاہے وہ یہی کہ اکثریتی فرقہ کے لوگ اقلیتوں کی
حرمت و عظمت کو خاطر میں نہ لائیں بلکہ انتقاماًہو س و تشددکی راہ اختیا
رکریں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی مہنت یا گدی نشیں ایسے نازیبا
کلمات کہہ سکتا ہے ؟؟اگر نہیں تو پھر مو صوف یو گی کی یہ برہنہ تقریر کیوں
کر درست ہے ؟؟اگردرست نہیں ہے تو پھر شوالہ جمہوریت میں براجمان انصاف کے
لات و منات پر یہ گہرا سکوت کیونکر ہے ؟اور پھر جب یہ تمام عناصر باہم یکجا
ہوں تو پھر ہندوستان کے کیا معانی ہوتے ہیں؟صرف انتقام کی آگ ، قتل وخون
،عزتوں کی پامالی اور انسانیت کے بے حرمتی ۔یہ چند ہو ش ربا تصاویر ہیں جن
کی رونمائی ہمیں بار بار کرائی جاتی ہے کہ اب اقلیتوں کایہی مستقبل ہیں اور
مظفرنگر ،گجرات ،مؤ،میرٹھ،مرادآباد،بھاگلپوراوردیگر مقامات میں ہونے والے
فسادات کی یہی ایک تلخ حقیقت ہے۔
یوگی موصوف نے غیر دانستہ طور پر یہ باتیں کہی ہوں مگر جب اس مبینہ
ویڈیوکودکھایاگیا اوراس ذیل میں گفتگو کی گئی تو اعتراف کرتے ہوئے فخریہ
انداز میں ان ہی باتوں کو دہرایا اور کہا کہ اگر ایک فرقہ (ہندو)کا ایک شخص
مارا جاتا ہے تو بدلہ میں دوسرے فرقہ (مسلم)کے دس آدمی مارے جائیں آخرش ان
باتوں کاکھلم کھلا تکلم کس اجازت کے بناء پر ہے ؟کس آئین کے رو کے تحت درست
ہے؟عدالت عظمی کی شفافیت پر سوال نہیں کھڑاکیا جاسکتا لیکن یہ ستم کیو ں
روا رکھا گیا کہ باربار ملکی آئین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور کوئی مثبت
اقدام سے خود کو روک لیا جاتا ہے؟ماضی میں بھی انھوں نے کسی بھی امر کو
خاطر میں لائے بغیر اشتعال انگیزی کی ہے۔ ۲۷جنوری ۲۰۰۷ء کو گورکھ پور ریلوے
اسٹیشن کے احاطہ میں یو گی نے اشتعال انگیزی کی ایک نئی طرح رکھی جس کے
نتیجہ میں ماحول فرقہ وارانہ ہو گیا مکانات خاکستر کیے گئے ،سرکاری اور غیر
سرکاری املاک کو نقصان پہونچایا گیا اور کئی افراد جاں بحق بھی ہوئے علاوہ
ازیں۲۰۰۸ ء میں بھی موصوف نے جمہوریت کاگریباں چاک کیا ہے اس ضمن میں ایف
آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے تاہم کاروائی پرجمودنے ہنوز ڈیرہ ڈال دیا ہے۔
۲۰۰۵ء کے مؤ کے فسادات میں بھی موصوف کے اشارے کارفرماتھے اور ان کی تنظیم
ہندویوواواہنی کے افراد کی کاروائیاں اپنے عروج پر تھیں لیکن افسوس اور ستم
یہ ہے کہ شواہد جمع کرنے اور تعزیرات ہند کے دفعات کے نفاذکے بجائے خاموشی
،پہلو تہی اور دورخی پالیسیاں اختیا رکی جاتی ہیں کیا یہ انصاف کیساتھ کھلا
نفاق نہیں ہے؟
اشتعال انگیزتقاریر کرنے اور اس جرم میں صرف موصوف یوگی ہی نہیں ہیں بلکہ
کئی ان کے ہمنوا ہیں جوباربار ہندوستانی فضاکومکدرکردیا کرتے ہیں پروین تو
گڑیا ،اشوک سنگھل،راج ٹھاکرے،موہن بھاگوت،راج گری،ورون گاندھی اور دوسرے ہم
نواؤں کی ایک لمبی فہرست ہے جو عوام کو مشتعل کرکے ووٹ حاصل کرنے نیزفسادات
کی آگ پر تیل چھڑکنے کاہنر خوب جانتے ہیں اور یہ بھی قابل حیرت ہے کہ کوئی
کاروائی اور مثبت اقدام سے پہلو تہی سے گریز کیا جاتا ہے ۲۰/جولائی کو
پروین تو گڑیا کے حالیہ بیان کو بھلایا نہیں جاسکتا کہ انھوں نے راست طور
پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گجرات بھول گئے ہوگے مظفرنگر تو
یاد ہو گا۔الغرض ان بیانات کے پیش نظر فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،ملک کی سا
لمیت شدید خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ فرقہ پرست عناصر پر قدغن لگانے سے گریز پائی
ہمیں شکوک و شبہات میں ڈال دیتی ہے کہ اس ہندو ستان میں اقلیت بالخصوص
مسلمان کی کوئی بھی وقعت نہیں ہے۔ مزید طرہ یہ کہ انتخابی جمع تفریق اور
گنا ضرب میں محونام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنے ووٹ بینک اور دیگر مفادات
کیلئے کو شاں رہتی ہیں جب کہ ان تمام شدت پسندانہ کاروائیوں کا سدبات لازمی
ہے ۔آخر زہر افشانی اور اشتعال انگیزیوں کاسلسلہ کب رکے گا؟؟یہ اہم سوال ہے
کہ ان کے جمیع مقاصد کیا ہیں ؟کون سا عنصر ہے جو ان کو باربار اس قبح پر
آمادہ کرتا ہے ؟ہندوستان کی بقااور سا لمیت صرف اور صرف فرقہ وارانہ ہم
آہنگی میں ہے اور وقت کا یہی تقاضا ہے کہ ان عناصر کی تخم ریزی کی جائے جو
’اچھے دنوں‘کا پھل دے سکیں ان عناصر سے رشہ یک قلم توڑ ہی لیا جانا چاہیے
جو ’اچھے دنوں‘کو ’برے دنوں‘سے بدل دیں ۔ |