پاکستان کی موجودہ اسمبلی کو اگر دو گروپوں میں تقسیم کر
لیا جائے تو اس سے موجودہ اسمبلی کی جمہوری بنیاد اور ہیت کو سمجھنے میں
بڑی آسانی ہو جائیگی ۔اس وقت اس اسمبلی میں دو گروہ ہیں۔ آمروں کا حمائتی
گروہ اور جموریت کا علمبردار گروہ ۔پہلا گروہ اپنی سیاسی دوکان داری اور
اقتدار کیلئے ہمیشہ آمروں کا حا شیہ بردار رہا ہے۔یہ گروہ اسمبلی کا سب سے
مضبوط اور بڑا گروہ ہے۔اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آمروں کو وردی میں
سلیوٹ بھی پیش کرتے رہے ہیں اور ان کا ساتھ نبھانے پر فخربھی کرتے رہے
ہیں۔اس گروہ کے سب سے بڑے نمائندے میاں محمد نواز شریف ہیں جو جنرل ضیا
الحق کے زیرِ سایہ خارزارِ سیاست میں داخل ہوئے اور ۱۹۸۵ میں پہلی بار
پنجاب کے وزیرِ اعلی بننے کا اعزاز حا صل کیا۔میاں برادران کی سیاست فوج کے
بغیر ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو برگ و بار سے عاری ہوتا ہے۔جنرل ضیا
الحق کی مرگِ ناگہانی کے بعد جنرل حمید گل،جنرل اسد درانی اور جنرل مرزا
اسلم بیگ نے اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کی بنیادیں رکھیں اور پی پی پی کی
مکمل فتح میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور بی بی شہید کے مینڈیٹ پر کھلے عام ڈاکہ
ڈالا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کے نام سے چڑ تھی اور یہی چڑ اور نفرت بی
بی شہید کے مینڈیٹ کو چرانے کا باعث بنی تھی۔یقین کیجئے اگر ۱۹۸۸ کے
انتخابات شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدار ہو جاتے تو میاں برادران کاکہیں
وجود بھی نہ ہوتا۔انھیں وجود بخشنے والے وہی فوجی جرنیل تھے جھنیں آج کل
میاں برادران ولن کی شکل میں پیش کر کے قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے
ہیں۔ ان کے دائیں بائیں ایسے لوگ ہیں جو فوجی جنتا کے چہیتے رہے ہیں اور ان
کی جمہوریت محض ذ اتی مفادات تک محدود ہے۔مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان
جن میں اعجاز الحق،آفتاب احمد شیر پاؤ ،راجہ ظفرا لحق ،مولانا فضل الرحمان
سرِ فہرست ہیں ،فوجی حکومتوں کے ھاشیہ بردارتھے۔ آفتاب احمد شیر پاؤ تو
جنرل مشرف کے وزیرِ داخلہ تھے جبکہ زاہد حامدوزیرِ قانون تھے۔ اس وقت کسی
کو احساس نہ ہو سکا کہ ہم فوجی حکومت کا حصہ ہیں جس کا جمہوریت میں کوئی
وجود نہیں ہوتا ۔ آج یہی ممبرانِ اسمبلی پاک فوج کے خلاف جس بغض و نفرت کا
اظہار کر ہے ہیں کاش اس کا اظہار وہ اس وقت بھی کرتے جب وہ فو جی حکومتوں
میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے تھے ۔ بہت سے ممبران ِ اسمبلی جن کا تعلق ایم
کیو ایم،مسلم لیگ (ق) اور کچھ علاقائی جماعتوں ں سے ہے فوجی حکومتوں کے
دوران وزارتوں پر برا جمان تھے اور آسمانِ سیاست پر موتیوں کی مانند چمک
رہے ہیں ۔یقین کیجئے ان کیلئے فوجی یا غیر فوجی کی کوئی تحصیص نہیں ہے۔ان
کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھا رہے اور وہ
اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں ۔ باغی کا ماضی بھی انہی موقعہ پرستوں جیسا ہے ۔
وہ بھی ایک زمانے میں جنر ل ضیا الحق کے بڑے چہیتے وزیر نوجوانان ہوا کر تے
تھے اور مارشل لاء لگوانے میں پیش پیش تھے کیونکہ انھیں ذولفقار علی بھٹو
سے ذاتی پرخاش تھی ۔اسی پر خاش نے انھیں جنرل ضیا الحق کے قریب ہونے میں
اہم کردار ادا کیا تھا۔دوسرا گروہ پی پی پی کا ہے جس کی ساری عمر جمہوریت
کے استحکام کی خاطر جدو جہد میں گزر گئی ہے ۔ اس نے جمہوریت کیلئے اپنے
قائدین کی قربانیاں بھی دی ہیں لیکن اس وقت وہ جس جماعت کے ساتھ کھڑی ہے اس
کے رویے جمہوریت کش ہیں جس کی وجہ سے جمہو ریت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے
ہیں ۔ یہ گروہ آدم خور ہے اور ریاستی جبر سے عوام کو اپنا غلام بناناچاہتا
ہے جس کا واضح ثبوت ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہے ۔ پارلیمنٹ اس گروہ کیلئے ایک
ڈھال کی مانند ہے۔اسے جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیونکہ یہ ذاتی
مفادات کے اسیر ہیں ۔،۔
موجودہ اسمبلی کا مشترکہ اجلاس محض اس وجہ سے بلا یا گیا ہے کہ پاکستان میں
جمہوریت کو دھرنا جماعتوں سے خطرہ ہے لہذا ضروری ہو گیا تھا کہ جمہوریت کی
حفاظت کی خا طر اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بلا یا جاتا تا کہ موجودہ جمہوری
نظام کو پٹری سے اترنے سے محفوظ رکھا جاتا۔ اس کارِ خیر میں پاکستان کی
ساری قابلِ ذکر جماعتیں شامل ہیں جو جمہوریت جمہوریت کا شور مچا رہی ہیں
لیکن اگر ان سے کوئی صاحبِ نظر یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کرے کہ اے برادرانِ
یوسف ذرا اپنے ماضی پر نظر دوڑائیے اور قوم کو یہ بتانے کی زحمت کیجئے کہ
فوجی حکومتوں میں آپ کا جو کردار تھا کیا اس کو جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ اگر
وہ کردار جمہوریت کش تھا تو پھر آج پاک فوج کے خلاف تقاریر کو کیا نام دیا
جائے؟کیا پارلیمنٹ کی تقاریر اپنا بھاؤ بڑھانے کا کوئی نیا ڈرامہ تو نہیں
ہے؟کمال یہ ہے کہ پالیمنٹیرین کی تقاریر کے باوجود حکومت کو در ہیش خطرات
کم ہونے میں نہیں آ رہے۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ جمہوریت کو اپنے ہی اتحادیوں
اور ممبران سے خطرہ ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جعلی اور مفلوج جمہوریت
کا راگ ممبرانِ اسمبلی الاپ رہے ہیں عوام اسے جمہوریت تسلیم کرنے کے لئے
تیار نہیں ہیں۔میڈیا کے اس سریع الحرکت دور میں شائد عوام کو بیوقوف بنانا
ممکن نہیں رہا۔ عوام اتنے باشعور ہو چکے ہں کہ وہ ابن الوقت قائدین کے
چہروں پر چڑھائے گئے نقابوں کے پیچھے ان کی اصلیت جان چکے ہیں تبھی تو ان
کی قائم کردہ جعلی اسمبلی سے اعلانِ بغا وت کر رہے ہیں ۔دھاندلی سے انتخابی
نتائج کو اپنے حق میں بدل لینا یا ووٹ کے تقدس کو مجروح کرنا جمہوریت کا
قتل ہے جو ایک مجرمانہ فعل ہے جس کا حساب لینا عوام کا بنیادی حق ہے اور
اسلام آباد کے دھرنے اسی حساب کیلئے جاری ہیں۔ عوام کو دروغ گوئی سے یہ
باور کروا نے کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان کی موجودہ جمہوریت ان کے
سارے مسائل کا واحد حل ہے اور اس میں ان کی خوشخالی اور ترقی کا راز پنہاں
ہے لیکن عوام نے ان کے جھانسے میں آنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور ان کا
دعوی مسترد کر دیا ہے ۔ یہ وہی نعرے ہیں جھنیں سن سن کر عوام کے کان پک گئے
ہیں لہذا یہ نعرے اپنی افادیت کھو چکے ہیں کیونکہ عوام کی بجائے حکمرانوں
کی خو شخا لی اور دولت میں بے پناہ اضا فہ ہو جاتا ہے اور عوام غربت کی چکی
میں پستے رہتے ہیں ۔،۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ُمختلف سیاسی جماعتوں
نے حکومت کو اپنی حمائت کا یقین دلایا لیکن اس حمائت کے غبارے سے اس وقت
ہوا نکل گئی جب ڈیرہ اسماعیل خان کے ضمنی انتخاب میں ساری سیاسی جماعتوں کے
غیر اعلانیہ اتحاد کو تحریکِ انصاف کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ
وہ نشست ہے جو جمعیت العلمائے اسلام کی پکی سیٹ تھی اور جس پر اسے کبھی بھی
ہزیمت کا سامنا نہیں کرنا پڑاتھا۔ اگر اسمبلی میں بیٹھی ہوئی سیاسی جماعتوں
کا اتحاد اتنا ہی کار آمد اور نتیجہ خیز ہوتا تو پھر یہ نشست کسی بھی صورت
میں تحریکِ انصاف کے ہاتھ نہ لگتی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور ان ساری جماعتوں
کو منہ کی کھانی پڑی اور تحریکِ انصاف اس ضمنی انتخاب میں سر خرو ہو کر
نکلی ۔انتخاب کسی بھی جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ ہوتا ہے اور پاکستان
تحریکِ انصاف نے یہ نشست جیت کر ثابت کیا ہے کہ عوام اس کی دھرنا سیاست کے
ساتھ ہیں۔مجھے اس وقت ذولفقار علی بھٹوکا ابتدائی دور یاد آرہا ہے جس میں
ملک کی ساری قابلِ ذکر جماعتیں پی پی پی کے خلاف تھیں اور ذولفقار علی
بھٹوکی جان کی دشمن بنی ہوئی تھیں ۔ ذولفقار علی بھٹوپر کئی جان لیوا حملے
ہوئے تھے جس میں صادق آباد کے حملے کو بہت شہرت ملی تھی۔اس میں ذولفقار علی
بھٹو نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی تھی ۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف مذہبی
جماعتوں کی مخالفت اور سیاسی جماعتوں کی ہرزہ سرائی سے تاریخ کا ہر طالب
علم بخوبی آگاہ ہے۔جب ساری جماعتیں پی پی پی کی مخالفت پر کمر بستہ تھیں
اور ذولفقار علی بھٹو کی جان کے پیاسی تھیں تو اس وقت ذولفقار علی بھٹو نے
عوام کو مخالطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو اچھا ہواکہ سارے گندے انڈے ایک
ہی ٹوکری میں اکٹھے ہو گئے ہیں لہذا ہم اس ٹوکری کو ایک ہی ٹھوکر سے توڑ
دیں گئے ۔ذولفقار علی بھٹو ایک بڑے قائد تھے اور دنیا ان کی مقبولیت اور
عوامی پذیرائی سے بخوبی آگاہ ہے۔ان کی آواز سٹیٹسکو کے خلاف تھی اور آج
عمران خان بھی سٹیٹسکو کا دشمن بن کر سامنے آیا ہے ۔دونوں کی لکار میں کوئی
فرق نہیں۔اس وقت بھی ساری جماعتیں متحد ہو گئی تھیں اور آج بھی متحد ہو گئی
ہیں لیکن شکست ان کا مقدر بنے گی کیونکہ وہ غلط وکٹ پر کھیل رہی ہیں اور
ایک ایسے نظام کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی بنیادیں استحصا ل پر رکھی
ہوئی ہیں۔،۔۔،۔ |